بلوچستان میں مقامی حکومتوں کا نظام‘ فنڈز ملے نہ اختیارات

0
4087

: Photo By News Lens Pakistan /

کوئٹہ (عبدالمالک اچکزئی سے)بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کاکبھی اپنے دلفریب محل و وقوع کے باعث لندن سے موازنہ کیا جاتا تھا لیکن اب اس شہرِ بے مثل کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور بارشوں کے دنوں میں یہ ندی کا روپ دھار لیتی ہیں جس کے باعث شہر میں نقل و حرکت کے لیے کشتیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں حالات اس سے بھی کہیں زیادہ خراب ہیں۔
صوبے میں مقامی حکومتوں کو اقتدار میں آئے تقریباً دو برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ صوبے نے 10ہزار ارکان کا انتخاب کیا جنہیں یونین کونسل اور وارڈز کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے۔ جمہوری جماعتوں، سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ یورپی ممالک کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے کامیاب انعقاد پر بلوچستان حکومت کو مبارک باد بھی دی گئی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے یورپی یونین اور رورل سپورٹ پروگرام نیٹ ورک کے تعاون سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ کانفرنس بعنوان ’’ کمیونٹی ڈرائیو ڈویلپمنٹ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ہمارے آباؤ اجداد،جن میں میر غوث بخش بزنجو اور خان عبدالصمدخان اچکزئی شامل ہیں،نے ون یونٹ کے خلاف جدوجہد کی تو اسی جوش و ولولے کے ساتھ ہم نے 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے کوشش کی۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ ہم وفاق سے صوبائی خودمختاری حاصل کرچکے ہیں اور اب ہم اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ہم صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اختیارات کی مرکزیت ختم کرچکے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلدیاتی حکومتیں تشکیل دے کر اختیارات کی مرکزیت ختم کرے کیوں کہ یہ تبدیلی کی جانب سفر کے آغاز کی بنیاد ثابت ہوسکتی ہے جس کے باعث صوبے میں برسرِاقتداراتحادی حکومت نے مقامی حکومتوں کے لیے مختص فنڈز ایک فی صد سے بڑھا کر 10فی صد کر دیئے ہیں۔
دوسری جانب کوئٹہ کے منتخب میئر ڈاکٹر کلیم اللہ کاکڑ بلوچستان حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم نہ کرنے اور مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل نہ کیے جانے پر مطمئن نہیں ہیں۔
کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کے میئر ڈاکٹر کلیم اللہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’اسمبلی صرف قانون سازی تک محدود رہے جب کہ مقامی حکومتوں کے ذریعے فنڈز استعمال کیے جانے چاہئیں۔ میں صوبہ بھر سے لوکل باڈیز کے منتخب نمائندوں کو کوئٹہ بلانے کا منصوبہ تشکیل دے چکا ہوں ‘ ہم اپنی اور عوام کی طاقت سے کوئٹہ شہر جام کر دیں گے؛ میں کوئٹہ سے اس قدر ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوا ہوں جو صوبائی اسمبلی کے چھ ارکان کی مجموعی تعداد کے برابر ہیں۔‘‘
مقامی حکومتوں کے صوبائی وزیر سردار مصطفی ترین سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا جو ممکن نہیں ہوسکا۔
قومی اسمبلی کے رُکن اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی نائب صدر عبدالقہار خان وڈان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اختیارات کی بلدیاتی حکومتوں کو منتقلی میں ہیئتِ مقتدرہ ایک بڑی رکاوٹ ہے؛ ہماری جماعت مقامی جمہوریتوں کے نظام پر یقین رکھتی ہے اور نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی طرح لوکل باڈیز ایکٹ میں بھی صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ شامل تھا لیکن ہیئت مقتدرہ کے حکام نے اس پیراگراف کو حذف کرکے بے چینی پیدا کی۔‘‘
ایک منتخب کونسلر شاہ محمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ووٹرزکا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ وہ ان کے لیے اب تک کچھ نہیں کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا:’’میری خواہش ہے کہ میں ان کے مسائل حل کرتا جن میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت کے بنیادی یونٹوں کا قیام، بچوں کا سکولوں میں داخلہ اور گھوسٹ سکولوں کے خلاف کارروائی شامل ہے۔‘‘ 
شاہ محمد نے کہا:’’ صوبائی حکومت نے اختیارات کی مرکزیت ختم کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی؛ صوبائی اسمبلی کے ارکان براہِ راست بجٹ خرچ کرکے لوگوں کو خرید رہے ہیں؛ وہ ہر ضلع میں مقامی طور پر منتخب ہونے والی حکومتوں کے اختیارات کو سلب کر رہے ہیں۔‘‘
بلوچستان حکومت نے کسی بھی دوسرے صوبے سے قبل ملک میں سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد کیا لیکن اب وہ اربوں روپے کے بجٹ کو مقامی حکومتوں کے ذریعے استعمال کرنے کے حوالے سے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔خضدار سے تعلق رکھنے والی انسانی و سماجی حقوق کی کارکن 26برس کی سلمیٰ بلوچ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہمارے صوبے میں صوبائی اسمبلی کے منتخب ارکان عوام کو یکساں طور پر خدمات فراہم کرنے کی بجائے اپنی جماعتوں اور گروپوں کے لیے کام کر تے ہیں۔‘‘
بے معنی نعروں کی کوئی وقعت نہیں؛ لوگ خدمات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ ان کی ضرورت بھی ہے۔ وہ ان طویل تقریروں سے کوئی غرض نہیں رکھتے جن کے ذریعے سیاسی جماعتیں انتخابات کے دنوں میں غریب ووٹرز کو سبز باغ دکھاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کی اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اضلاع، قصبوں، میٹرپولیٹن شہروں، یونین کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کی مقامی منتخب حکومتوں کو نظراندا زکرکے جمہوری اقدار کی نفی کر رہی ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز سے منسلک محقق حبیب جان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں برسرِاقتدار نام نہاد جمہوری حکومت کی جانب سے’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مصداق پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ حکومت صرف نام کی ہے؛ مقامی حکومتوں کے ذریعے اب کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ ان حکومتوں کا انتخاب اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے دباؤپر عمل میں آیا تھا۔ دوسری صورت میں بلوچستان میں ہر کوئی قانون کی لاٹھی ہاتھ میں لیے روایت پسندی کی حمایت کرتانظر آتا ہے۔‘‘
اس سے قبل مقامی حکومتوں کا قیام مارشل لاکے دور میں عمل میں آیا جن میں سابق فوجی ڈکٹیٹر اور اس وقت کے صدرجنرل (ر) پرویز مشرف بھی شامل ہیں جنہوں نے دو بار مقامی حکومتوں کو منتخب کیا جس کے باعث ایک بڑی تعداد میں نوجوان قیادت ابھری تو ملکی سیاست میں نئے چہرے نظر آنے لگے۔
ماہرِ تعلیم اور سماجی کارکن عابدہ خان کاکڑ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نچلی سطح پراختیارات کی منتقلی میں تاخیر کے حوالے سے جمہوری جماعتوں کی مبہم پالیسی کو سمجھنے سے قاصر ہوں؛ پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبے میں اپنے پانچ سالہ 2008ء سے 2013ء تک کے گزشتہ دورِ اقتدار کے دوران مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں کروائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین، اقلیتی اور نوجوان کونسلرز نئی نسل کے عملی رہنما ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں خدمات انجام دینے اور اپنے حلقے کے عوام کے درمیان رہنے دیا جائے۔ پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں کے لیے اس سے مشکلات تو ضرور پیدا ہوں گی۔‘‘
قانون دان سلام خان مندوخیل نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کو ایک ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے جس کے تحت پارلیمان اور اسمبلیاں عوام کو مقامی طور پر منتخب حکومتوں کے ذریعے ان کی دہلیز پر خدمات فراہم کریں۔
انہوں نے کہا:’’ صوبائی اسمبلیوں اور ان کی وزارتوں کا کام قانون سازی کرنا ہے لیکن پاکستان میں صورتِ حال اس کے یکسر متضاد ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے منتخب نمائندے اور حکومت اختیارات کی مرکزیت مقامی حکومتوں کے ساتھ تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔‘‘
منتخب حکومت نے جو وعدے کیے تھے‘ وہ اب تک پورے نہیں ہوئے۔ ژوب سے منتخب یوتھ کونسلر میرولی خان نے کہا:’’ ہم کاہلی سے بیٹھے رہتے ہیں ۔ سڑکیں تعمیر نہیں کرسکتے، نکاسئ آب ، پینے کے صاف پانی اور صحت کے بنیادی یونٹوں کو فعال کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے؛ یہ وہ ضروریات ہیں جن کے لیے عوام نے مجھے منتخب کیا ہے۔‘‘
شریف الدین خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اہلِ بلوچستان کو قوم پرستوں سے امید تھی کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کی صورت میں ڈیلیور کریں گے۔ گزشتہ حکومت نے بلوچستان کے عوام کو’’بدعنوانیوں، کرپشن اور امن و امان و سکیورٹی کے بدترین حالات‘‘ سے عاجز کر دیا تھا۔ لوگوں کوبڑے منصوبوں کی ضرورت ہے اور وہ بہتر کمیونیکیشن، صحت، تعلیم اور امن و امان کی امید رکھتے ہیں اور یہ نکات ’’قوم پرست جماعتوں کے 2013ء کے انتخابات میں حصہ لینے سے قبل ان کی جانب سے پیش کیے گئے ‘‘ منشور کا حصہ تھے ؛’’ ان کی اب تک کی ناقص کارکردگی کے باعث اب صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبۂ معاشیات میں ایم فل کے سکالر زمان خان ترین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ صوبائی اسمبلی کے ارکان اور وزرا اس اَمر پر تیار نہیں ہیں کہ ان کے فنڈز کی طاقت مقامی سطح پر منتخب رہنماؤں کو منتقل ہو۔مقامی حکومتوں کا نظام صرف انتخابات کے باعث وجود میں نہیں آیا بلکہ اسے بااختیار بنانے اور فنڈز فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو محلوں اور دیہات کی سطح پر استعمال ہوں ‘ اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ جی! جمہوریت وہ نظام ہے جو ہم نے بلوچستان میں رائج کر دیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here