بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کی ایک طویل داستان

0
6089

: Photo By News Lens Pakistan /

عمر کوٹ ( اللہ بخش آریسر سے) یہ مالوکان کا بے نظیر ڈیبٹ کارڈ سنٹر ( بی ڈی سی سی) عمر کوٹ کا 18واں چکر ہے۔ ان کے کسی چکر کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا کیوں کہ ان کو خالی ہاتھ ہی گھر واپس لوٹنا پڑا۔ ایک 55برس کی عورت کے لیے، جسے اپنے بیمار خاوند اور آٹھ بچوں کا خیال رکھنا ہے ،بی ڈی سی سی کے باربار چکرکاٹنا آسان نہیں ہے۔ سنٹر میں کوئی شخص بھی اس غریب خاتون کی مدد کرنے پر تیار نظر نہیں آتا۔ بی ڈی سی سی نے بہت سی خواتین کی زندگی تکلیف دہ بنائی ہے کیوں کہ ادارے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر کرپشن عام ہے بلکہ حکومت کا مانیٹرنگ کا کوئی نظام بھی نہیں ہے جس کے تحت یہ ممکن بنایا جاسکے کہ کیش پروگرام کے تحت مالی معاونت حاصل کرنے والوں کا استحصال نہ ہو۔ بہت سی خواتین نے رقوم حاصل کرنے کے تھکا دینے والے طریقۂ کار کے باعث مایوس ہوکر سنٹرکا رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ 
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پاکستان پیپلز پارٹی کا منصوبہ تھا جو 2009ء میں شروع کیا گیا۔اس پروگرام کا مقصد غربت کی چکی میں دھنسے خاندانوں کی مدد کرنا مقصود تھا جن کے لیے بے روزگاری اور افراطِ زر کے باعث زندگی گزارنا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایک سروے کے ذریعے غریب خاندانوں کی نشاندہی کی گئی جنہیں ایک ہزار روپے ماہانہ دیا جاتاہے۔ بی آئی ایس پی کی مالی امداد حاصل کرنے کے لیے خاندان کا دو بنیادی شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے: اول وہ غربت کی متعین کی گئی تعریف پر پورا اترتا ہو؛ دوسرا، خاندان کی کم از کم ایک خاتون رُکن کی شادی ہوئی ہو یا کبھی شادی رہ چکی ہو۔ بی آئی ایس پی کی جانب سے قبل ازیں رقوم ڈاک کے ذریعے بھیجی جاتی تھیں لیکن محکمۂ ڈاک کے افسروں کی مبینہ کرپشن کے باعث حکومت رقوم کی تقسیم کا متبادل طریقۂ کار اختیار کرنے پر مجبور ہوئی۔ بے نظیر کارڈ پراجیکٹ وظیفہ خواروں کی ان کی رقوم تک آسان رسائی کے لیے ہی شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا ایک مقصد بی آئی ایس پی سے کرپشن بھی کم کرنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی آئی ایس پی سے کرپشن کو ختم کیا جاچکا ہے؟کیا متعلقہ ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے؟ جہاں تک عمرکوٹ کا تعلق ہے تو اس کا جواب غالباً نفی میں ہے۔ مالوکان کے مطابق انہیں آٹھ مئی 2012ء کو آگاہ کیا گیا کہ وہ بی آئی ایس پی کا وظیفہ لینے کی اہل ہیں۔ انہوں نے بہت سے تصدیقی مراحل سے گزرنے کے بعد ، جن میں قومی شناختی کارڈ اور انگوٹھے کا نشان بھی شامل تھا، بی ڈی سی کے لیے درخواست دی۔ تاہم ان کی یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں جب وہ ایک ماہ بعد کارڈ اور وظیفہ وصول کرنے کے لیے سنٹر آئیں۔ ان سے پہلے ہی کوئی ان کے اکاؤنٹ سے رقم نکلوا چکا تھا۔ کارڈ اس وقت تک جاری نہیں ہوا تھا لیکن استعمال ضرور ہوچکا تھا۔ وہ ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا چکر کاٹتی رہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے حکام سے کارڈ بلاک کرنے کے لیے کہا۔ وہ پریقین تھیں کہ ان کا کارڈ بلاک کیا جاچکا ہے۔ تاہم جب وہ دوبارہ آئیں تو انہیں پھر اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کارڈ استعمال ہوچکا تھا اور رقم نکالی جاچکی تھی‘ دوسرے لفظوں میں کوئی ان کی رقم غیر قانونی طور پر حاصل کرچکا تھا جب کہ غریب مالوکان ساکت کھڑی افسروں کے چہرے دیکھ رہی تھی۔ ان کے لیے یہ غالباً معمول کا ایک کاروبارہے لیکن حکومت کی جانب سے ان کو ایک بار پھر گھاؤ لگایا گیا تھا۔ 
ایک اور خاتون ہدائی ، جو بیوہ ہیں، نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو عمر کوٹ بے نظیر ڈیبٹ کارڈ سنٹر میں سپیشل ڈیسک ٹیم کی جانب سے غیر مصدقہ ڈیبٹ کارڈ دیا گیا۔ بی ڈی سی سی کے انچارج میر حسن سومرو نے راقم کو بتایا کہ ان کو بی آئی ایس پی، نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور بنک کے افسروں کی ملی بھگت سے رقوم کی منتقلی میں خورد برد کی شکایات مل چکی ہیں۔ بی آئی ایس پی نے بی ڈی سی پراجیکٹ چلانے کے لیے نادرا اور بنکوں کے ساتھ اشتراک کر رکھا ہے۔ میر حسن سومرو کے مطابق ان اداروں کے افسروں نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ ان مگر مچھوں کے ساتھ ہی کرپشن کے اس سمندر میں کچھ اور شکاری بھی ہیں جیسا کہ کمپوزنگ اور سٹامپ شاپس پر بھی ایسا ہوتا ہے۔ وہ ان غریب اور ناخواندہ خواتین کو بی آئی ایس پی اسلام آباد کے دفتر میں شکایت درج کروانے کی ترغیب دیتے ہیں اور درخواست لکھنے کا ایک سو روپیہ وصول کرتے ہیں۔کچھ خواتین کو دھوکہ دہی کے ذریعے اس حد تک مجبور کردیا کہ وہ یہ تسلی کریں کہ وہ رقم وصول کرنے کی اہل یا نہیں‘ یہ لوگ اس کے لیے 50سے 100روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ خواتین جو اے ٹی ایم استعمال کرنا نہیں جانتیں ( اور ایسی بہت سی خواتین ہیں) تو ان کا لٹیروں کے ایک اور گینگ سے واسطہ پڑتاہے جو ہر خاتون سے اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے دو سو روپے وصول کرتا ہے۔ یہ نام نہاد مددگار اکثر و بیش تریا توڈیبٹ کارڈ کی جگہ جعلی ڈیبٹ کارڈ تھما دیتے ہیں یا پھر یہ عذر تراشتے ہوئے رقم چرا لیتے ہیں کہ ان کا اکاؤنٹ خالی ہے۔ بہت سی خواتین غلط پن نمبر داخل کرتی ہیں اور غلطی سے اپنے کارڈز بلاک کروا لیتی ہیں۔رقم وصول کرنے والی دلیپ میگھوار نے کہا:’’ کارڈ کو اَن بلاک کرنا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ مجھے اپنا کارڈ اَن بلاک کرنے میں تین ماہ کا عرصہ لگا۔‘‘اکثر و بیش تر مڈل مین مایوس ہوچکی خواتین کو کارڈز اَن بلاک کرنے کاجھانسہ دے کر ایک سے دو سو روپے تک ہتھیا لیتے ہیں۔ جب میر حسن سومرو سے یہ استفسار کیا گیا کہ کیا حکومت نے ان ناخواندہ خواتین کو اے ٹی ایم یا بی ڈی سی کا استعمال سکھانے کے بارے میں کوئی کوشش کی ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔
تعمیر بنک، یہ بی آئی ایس پی کا پارٹنر ہے، کی سابقہ اہل کار نرمل میگھوار نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار انہوں نے وظیفہ خواروں کی درخواست پر 137ڈپلیکیٹ بی ڈی سی جاری کیے تھے ۔ تاہم اس وقت بی آئی ایس پی عمر کوٹ کے انچارج اور ان کے ساتھی خرم باجوہ نے ایک بار پھر ان کارڈز کو ڈی ایکٹیویٹ کردیا۔ نرمل میگھوار کے مطابق یہ 137کارڈز کچھ عرصہ بعد دوبارہ جاری کیے گئے لیکن وظیفہ خواروں میں تقسیم نہیں کیے گئے‘ اس کے بجائے مذکورہ افسر ان کارڈوں کو رقم نکلوانے کے لیے خود استعمال کرنے لگے ۔
غریب گھرانوں کی نشاندہی کے لیے کیے جانے والے سروے میں بھی خامیاں رہ گئی تھیں جس کے باعث اثر و رسوخ کے حامل خاندانوں نے اپنی ہی کسی قریبی عزیزہ کو رقم کا حقدار قرار دے ڈالا۔عمرکوٹ کے نزدیکی گاؤں گوہر اود کی رہائشی مینا نے راقم کو بتایا کہ ان کی امیر مالکن مکان بھی بی آئی ایس پی سے وظیفہ لے رہی ہے۔ مینا کے صاحب زادے پریم، جو قدرے خواندہ ہے، نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غربت کی شناخت کچھ اس طرح سے کی جاتی ہے کہ غریب خاندان امیر ظاہر ہوجاتے ہیں جب کہ امیر خاندان غریب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ ایک ہی گھر میں کئی خاندان رہ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ سب اپنے اپنے خاندان کی الگ الگ کفالت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود سروے ٹیم کو ان کی انفرادی شناخت کے بارے میں باور کروانے کے لیے خاصا تردد کرنا پڑتا ہے کہ ایک گھر میں کئی خاندان رہائش پذیر ہیں۔ پاورٹی سکور سروے کے انچارج تھردیپ علی نواز نظامانی کے مطابق غریب خاندانوں کی شناخت کا عمل بہت سادہ ہے۔ ہم 16سوال پوچھتے ہیں اور وہ خاندان جو ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں‘ وہ رقم حاصل کرنے کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ انہوں نے کسی بھی قسم کی جانبداری یا سازبازکرنے کے امکان کو رَد کیا۔
جب 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے اقتدار سنبھالا تویہ فیصلہ کیا گیا کہ بی آئی ایس پی کام جاری رکھے گا‘ کرپشن میں کمی اور وظیفہ خواروں کے فوائدمیں اضافے کی امید ظاہر کی گئی۔ جب وزیرِمملکت اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ ماروی میمن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے متعدداقدامات کر رہی ہیں جیسا کہ چیئرپرسن، سیکرٹری اور بی آئی ایس پی کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے مختلف دفاتر کے اچانک دوروں کے علاوہ بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن کے مختلف علاقوں کے دورے‘ ماروی میمن نے کہا کہ حکومت نے ہاٹ لائن 0800-26477شروع کی ہے تاکہ وظیفہ خوار اپنی شکایات کے ازالے کے لیے تحصیل دفاتر میں طویل قطاروں میں کھڑی ہونے کی بجائے بی آئی ایس پی ہیڈکوارٹرز سے براہِ راست رابطہ کریں۔ 
بی آئی ایس پی مڈل مین کے کردار کو کم کرنے اور وظیفہ خواروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ادائیگی اور شکایات کی وصولی کا نیا میکانزم بھی متعارف کروا رہا ہے۔ اس حوالے سے لاڑکانہ میں رقوم کی ادائیگی کے لیے بائیومیٹرک سسٹم لانچ کیا گیا ہے۔ ماروی میمن نے مزید کہا کہ بی آئی ایس پی نے غریب لوگوں کو لوٹنے والوں کی گرفتاری کے لیے پولیس کی مدد بھی حاصل کی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here