جہلم اور چکوال کے اضلاع کی کانوں کو دھماکہ خیز مواد کی فراہمی پر پابندی‘ محنت کش فاقوں پر مجبورہوگئے

0
4682

لاہور (احسان قادر سے) چکوال اور جہلم کے اضلاع میں کانوں کے مالکان کو دھماکہ خیز مواد کی فراہمی معطل کیے جانے کے باعث ان کانوں کے مالکان، محنت کشوں اور ان کے خاندانوں کی گزربسر متاثر ہوئی ہے۔
16دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد، جس میں 134بچے شہید ہوگئے تھے، ملک سے دہشت گردی کے تدارک کے لیے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیاجس کے تحت حکومت نے کانوں اور بارود خانوں کے مالکان کو دھماکہ خیز مواد کی فراہمی معطل کردی جو کان کنی کا ایک بنیادی جزو ہے تاکہ دہشت گرد اس کا استعمال نہ کرسکیں۔
حکومت کی جانب سے کانوں اور بارود خانوں کے مالکان کو کان کنی کی سرگرمیوں کے لیے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں جب کہ کان کا ایک لائسنس ہولڈر مالک پنجاب ایکسپلوزیوز ایکٹ 1884ء کے تحت 90روز میں 25کلوگرام تک دھماکہ خیز مواد استعمال کرسکتا ہے۔
ایک کان کن محمد ارشد نے نیوز لینزپاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نمک کی ایک کان میں روزانہ 10سے 12گھنٹے تک کام کرکے اچھا خاصا کما لیتا تھا لیکن اب بے روزگار ہوں کیوں کہ کان کنی کی سرگرمیاں گزشتہ دو ماہ سے معطل ہیں۔ میرا خاندان فاقوں پر مجبور ہوگیا ہے۔ میَں طویل عرصہ تک بے روزگار نہیں رہ سکتاجس کے باعث حکومت کو اس بحران کے حل کی جانب توجہ مبذول کرنی چاہیے۔‘‘
جپسم کی ایک کان میں کام کرنے والے کان کن عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ان کو اس وقت دھچکا لگا جب ان کے مالک نے دو ماہ قبل یہ اعلان کیا کہ اب میَں یہ ملازمت مزید جاری نہیں رکھ سکتا۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرے لیے مالکان کی جانب سے ملازمت سے نکالے جانے کا یہ اعلان قیامت سے کم نہ تھا کیوں کہ کان میں ملازمت ہی میرا واحد ذریعۂ آمدن تھا۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ کان کے مالک نے ان کو یہ یقین دلایا کہ وہ کوئی دوسری ملازمت تلاش نہ کریں کیوں کہ کان کنی کی سرگرمیاں جلد شروع ہوجائیں گی۔ عبدالرزاق نے مزید کہا:’’ اب دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن مالک کی جانب سے کام پر واپس بلائے جانے کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔‘‘
پاکستان مائنز ورکرز کے صدر سعید خٹک نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانوں کو دھماکہ خیز مواد کی فراہمی کی بندش سے کان کن سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا:’’ حکام کو حالات کی سنگینی اور محنت کشوں کے تکلیف دہ حالات کا ادراک کرنا چاہیے جو حقیقتاً فاقوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ کانوں اور بارود خانوں کے مالکان کو بھی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے دھماکہ خیز مواد کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔انہوں نے کہا:’’ دھماکہ خیز مواد ٹماٹروں کی طرح کی کوئی سبزی نہیں ہے جوبارود خانوں کے مالکان سرِبازار فروخت کریں۔ کانوں کے مالکان کو نہ صرف ذمہ داری قبول کرنا ہوگی بلکہ اس ضمن میں ٹھوس اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔‘‘
انہوں نے مزیدکہا:’’ محنت کش فی الوقت احتجاج کا راستہ اختیار کرنے نہیں جارہے بلکہ وہ مالکان کے ساتھ مل کر دھماکہ خیز مواد کے استعمال اور ان کے تحفظ کے لیے مستقل بنیادوں پر حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
ضلع چکوال کی ہارون مائن (پرائیویٹ) لمیٹڈ اور مکہ سالٹ مائن کے مالک ہارون غنی چیمہ نے کہا:’’ دھماکہ خیز مواد کی حفاظت کے لیے تمام ناگزیر اقدامات کیے جار ہے ہیں۔ میں اپنے ذاتی بارود خانے قائم کرچکاہوں جن کے اردگرد خاردار تاریں، کیمرے اور ہوٹر نصب کیے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ وہ گاڑیاں جن پر بارود آتا ہے‘ اس کی تین حفاظتی پرتیں بنائی گئی ہیں اور سکیورٹی کے لیے ریٹائرڈ فوجی کمانڈرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ سکیورٹی کی ازسرِنو جانچ بھی کی جاتی ہے۔‘‘ ہارون چیمہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ ڈی سی او ان کے لائسنس کی تجدیدکرنے کے علاوہ دھماکہ خیز مواد کا کوٹہ فراہم کرنے کی اجازت بھی دے دیں گے کیوں کہ ان کی کانوں میں 900ملازمین کام کررہے ہیں۔
آل پاکستان مائن اونرز ایسوسی ایشن پنجاب شاخ کے جنرل سیکرٹری سردار ندیم حیات نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہلم اور چکوال کے اضلاع کی چار ہزار کانوں میں 30ہزار ملازمین کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے ان کو جپسم، نمک، کوئلے اور چونے کے پتھر کی کانیں لیز پر دی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کانوں کے مالکان کو دھماکہ خیز مواد کی فراہمی معطل کی جاچکی ہے کیوں کہ کان کنی کے لیے فراہم کیا جانے والا یہ دھماکہ خیزمواد دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہوسکتا ہے۔
سردار ندیم حیات نے تسلیم کیا کہ ماضی میں کچھ کانوں اور بالخصوص بارود خانوں کے مالکان دھماکہ خیز مواد کے کوٹے کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں۔انہوں نے مزید کیا کہ بارود خانہ ایک ایسی عمارت ہوتی ہے جہاں پر مالکان دھماکہ خیز مواد کومحفوظ رکھتے ہیں جسے وہ بعدازاں لائسنس میں مقرر کی گئی حد کے مطابق فروخت کردیتے ہیں۔
سردار ندیم حیات خان نے مزید کہا:’’ حقیقت تو یہ ہے کہ دھماکہ خیز مواد کا کوٹہ کانوں کے مالکان کی ضرورت پوری نہیں کرتا جس کے باعث کچھ مالکان قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس نے حکومت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا:’’ حکومت کو کانوں کے مالکان کے لیے مخصوص کیا گیا کوٹہ بڑھانا چاہیے تاکہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ تمام کانوں کے مالکان کو دھماکہ خیز مواد کی مکمل طور پر معطلی اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ا س اقدام سے کان کنی کے کاروبار سے وابستہ لوگ ہی متاثر نہیں ہورہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے ضرررساں اثرات مرتب ہورہے ہیں۔‘‘
سردار ندیم حیات خان کا کہنا تھا کہ بارود خانوں کے مالکان کی غلطیوں کی سزا کانوں کی بندش کی صورت میں کانوں کے مالکان کو دی جارہی ہے۔ انہوں نے چکوال اور جہلم کے اضلاع کے ڈی سی اوز سے بارود کے کوٹے کے لائسنسوں کی تجدید کا مطالبہ کیا جو ہر برس مارچ میں ہوتی ہے لیکن اب تک نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا :’’ حکومت دھماکہ خیز مواد کی نگرانی کے لیے ایک مربوط میکانزم تشکیل دے ‘ ہم اس حوالے سے مکمل تعاون کریں گے۔ حکومت مجبور کر رہی ہے کہ ہم سرگودھا اور خوشاب کے اضلاع کے محنت کشوں اور مالکان کی طرح کانوں کو ازسرِ کھلوانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔‘‘
چکوال کے ڈی سی او شیری ناز کا کہنا تھا کہ حکومت اس مسئلے سے مکمل طور پر آگاہ ہے اوراس وقت یہ معاملہ حل کرلیا جائے گا جب کانوں اور بارود خانوں کے مالکان کی جانب سے دھماکہ خیز مواد کے درست استعمال اور ان کی سکیورٹی کے حوالے سے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’ تمام فریقوں کے ساتھ ملاقات کی جاچکی ہے اورجس قدر جلد دھماکہ خیز مواد کی سکیورٹی کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے‘ تمام کانوں میں ایک بار پھر کام شروع ہوجائے گا۔ ہم ان حالات میں دھماکہ خیز مواد کی کھلے عام فروخت کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here