خاموشی کے 40برس: بلوچستان میں رسولی کا شکار خواتین سماجی بدنامی کے خوف کے باعث بیماری کا علاج کروانے سے قاصر

0
5975

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzaiکوئٹہ (صفی اللہ شاہوانی) سمیعہ بی بی گزشتہ 40برسوں سے سماجی بدنامی کی تکلیف دہ صورتِ حال کا خاموشی سے سامنا کرر ہی ہیں۔ حتیٰ کہ دیہی ہرنائی، جو بلوچستان کا ایک پسماندہ ضلع ہے، میں بسنے والے ان کے قریبی عزیز و اقارب بھی ان کی اس بیماری کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں جو صوبے میں بڑے پیمانے پر رائج قبائلی نظام میں خواتین کے لیے معاونت کا واحد ذریعہ ہے۔
65سالہ سمیعہ ( سماجی بدنامی کے باعث نام تبدیل کیا گیا ہے)نے نیوز لینز سے ہچکچاتے ہوئے اپنے ڈاکٹر کے ذریعے بات کی اور کہا’’ جب مجھے 25برس کی عمر میں پہلی بار وجائنا میں رسولی ہوئی تو میں نے صرف اپنے خاوند کو اس بارے میں بتایا۔‘‘
20برس تک ان کو اور ان کے خاوند کو ان کی حالت کے بارے میں درست طور پر کوئی اندازہ نہیں تھا‘ وہ یہ تک نہیں جانتے تھے کہ ان کو رسولی ہے یا ضبطِ ضعف کا مرض لاحق ہوا ہے۔ اس بارے میں ان کو تب پتہ چلا جب وہ ہرنائی کے نواح میں اپنے گاؤں سے چار سو کلومیٹر دور بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں طبی معائنہ کروانے کے لیے آئے تویہ تشخیص ہوئی۔ 
طب میں وجائنا میں رسولی سے مراد یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث بڑی آنت اور وجائنا یا پھر مثانے اور وجائنا کے درمیان رسولی بن جائے جو بعدازاں ضبطِ ضعف کا باعث بنتی ہے۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو پاکستان کے مجموعی رقبہ کے 48فی صد پر مشتمل ہے۔ صوبہ کی آبادی پسماندہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ انفراسٹرکچر ، بنیادی صحت کی سہولیات، تعلیم نہ ہونے اور بیماری کے بارے میں آگاہی کے فقدان کے باعث صورتِ حال مزید پیچیدہ ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق صوبہ میں رسولی کے مریضوں کی تعداد کی شرح خاصی بلند ہے۔
2014ء میں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ گائناکالوجی کے تحت ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق:’’ وضع حمل کے 90فی صد سے زائد کیسزگھروں پر دائیوں کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں جس کے باعث خواتین میں اس بیماری کا شکار ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔‘‘
ایک تحقیقی مقالے ’’وجائنا کی رسولی کا کلینیکل پیٹرن اور آؤٹ کم‘‘ کے مطابق:’’ پاکستان میں وجائنا کی رسولی کی مریضوں کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق سالانہ تقریباً پانچ سے آٹھ ہزار خواتین اس بیماری کا شکارہو رہی ہیں۔‘‘
وجائنا میں رسولی کا دن ہر برس 23مئی کو منایا جاتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ڈاکٹرز رواں برس لوگوں کو اس بیماری کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بولان میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سعادت خان نے کہا کہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اس بیماری کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ بہت سی لڑکیوں اور خواتین کی اس بیماری پر ان کے خاندان اور کمیونٹی کی جانب سے لاپرواہی برتی جاتی ہے جس سے ان کی بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتاہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اقدامات کرے کیوں کہ طبی مراکز صرف صوبائی دارالحکومت میں ہی قائم ہیں جو آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ وجائنا کی رسولی کا مرض ترقی یافتہ ممالک سے بہ ظاہر ختم کیا جاچکا ہے۔ یہ قابلِ تشخیص ہے اور بہت سے کیسز میں سرجری کے ذریعے اس کا علاج ممکن ہے۔‘‘
بلوچستان میں بہت سے خاندانوں کی جانب سے رسولی سے جڑی سماجی بدنامی کے باعث مریضوں کی حالت کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے جس کے باعث صوبہ میں اس حوالے سے حالات مزید سنگین ہوگئے ہیں۔اسی طرح آبادی کا ایک بڑا حصہ صحت کی مناسب سہولیات تک رسائی حاصل نہیں کرپاتا۔
اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے صوبائی کوارڈینٹیر احسن تبسم نے کہا:’’ ہماری 80فی صد سے زائد مریضوں کے وجائنا میں رسولی ہے جب کہ باقی15فی صد طبی وجوہات کے باعث اس سے متاثر ہوئی ہیں۔‘‘ یو این ایف پی اے ‘ پاکستان نیشنل فورم فار وومن ہیلتھ کے ساتھ مل کر بلوچستان میں رسولی کے علاج کے لیے کام کررہا ہے۔
یو این ایف پی اے کے تحت بلوچستان میں رسولی کے علاج کے لیے تین سنٹر کام کر رہے ہیں لیکن یہ سب کوئٹہ شہر میں ہیں۔ یہ سنٹر مشن ہسپتال کوئٹہ، صوبائی سنڈیمان ہسپتال اور بولان میڈیکل ہسپتال کوئٹہ میں قائم ہیں۔ یو این ایف پی اے کے تحت رسولی کے مریضوں کے لیے بحالی کا مرکز بھی کام کررہا ہے۔
ایک ایسے صوبے ، جس کے 32اضلاع ہیں اور اس کا رقبہ 347,190مربع کلومیٹر ہے جو برطانیہ کے رقبے سے بھی زیادہ ہے،میں مریضوں کے علاج معالجے کے لیے دارالحکومت کوئٹہ تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔
احسن تبسم نے کہاکہ بلوچستان کے ان تین ہسپتالوں میں مریضوں کابلامعاوضہ علاج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ہسپتال میں نو ماہر سرجن رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘
احسن تبسم نے مزید کہاکہ صوبائی حکومت اور محکمۂ صحت کی جانب سے اس مرض کو نظرانداز کیا جارہا ہے جو شادی شدہ عورتوں کو لاحق ہونے والا ایک سنجیدہ نوعیت کا عارضہ ہے۔ 2006ء سے اب تک یو این ایف پی اے نے تقریباً515مریضوں کا علاج کیا ہے اور ’’ کامیابی کی شرح 90فی صد سے زیادہ‘‘ رہی ہے۔
تاہم اس سے کہیں زیادہ خواتین ان سنٹروں میں علاج کی منتظر ہیں جو اس بیماری سے نپٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ احسن تبسم نے کہا:’’ بہت سی خواتین اپنی باری کی منتظر ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد طبی رسولی کا شکار ہے جس کا آپریشن فوری طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ طبی رسولی صحت فراہم کرنے والے کارکنوں کی جانب سے لگنے والا گھاؤ ہے جب حادثاتی طور پربڑی آنت یا مثانہ زخمی ہوجاتا ہے جس سے ضبطِ ضعف کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔
اگرچہ یو این ایف پی اے مریضوں کا علاج کرتی ہے اور ان کو معاونت اور محدود پیمانے پر کاروبار شروع کرنے کے لیے تربیت فراہم کرتی ہے لیکن پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مریض یہ معاونت حاصل نہیں کرسکتے جس کے باعث گزشتہ چند برسوں کے دوران بلوچستان میں اس بیماری سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔
یو این ایف پی اے کے مطابق بہت سے کیس رپورٹ نہیں ہوپاتے اور مریضوں کی ایک بڑی تعداد اذیت سہتی رہتی ہے۔ حکومت کی جانب سے کسی سطح پر بھی تعاون فراہم نہیں کیا جارہا اور ڈاکٹرز مریضوں کو بروقت ہسپتال سے رجوع کرنے کی ہدایت نہیں کرتے۔
اسی طرح طبی رسولی کے مریضوں کی تعداد بھی ہر گزرتے برس کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ طبی پریکٹشنرز کا تربیت یافتہ نہ ہونا ہے۔ بلوچستان میں طبی رسولی کی ایک بڑی وجہ رحم کاٹنے کے لیے کیا جانے والا آپریشن بھی ہے جو صوبہ بھر میں شہروں کے نواح اور پسماندہ اضلاع میں غیر تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں انجام پاتا ہے۔
یو این ایف پی اے سے ہی منسلک پروفیسر تسنیم اشرف کہتی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے پاکستان میں 34سو عورتوں اور لڑکیوں کو رسولی کے علاج کے لیے ملک میں قائم سات علاقائی سنٹرز کے ذریعے براہِ راست معاونت فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ یو این ایف پی اے کی کمپین تین اہداف پر مشتمل ہے جن میں بیماری سے تحفظ، علاج اور مریضوں کی سماجی بحالی شامل ہے۔‘‘
دوسری جانب سمیعہ کے خاوند ہر بار ان کے ساتھ ہرنائی سے کوئٹہ تک سفر کرتے ہیں۔ وہ اپنے مرض کے حوالے سے بات کرنے کے ضمن میں تذبذب کا شکار تھیں۔
انہوں نے نقاب کے پیچھے سے سرگرشی کرنے کی کوشش کی:’’ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ بیماری چار دہائیوں پر محیط ہوجائے گی۔‘‘

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here