خیبرپختونخوا کے غریب عوام کو صحت کی سہولیات کی بلامعاوضہ فراہمی کے منصوبے پر پیش رفت جاری

0
4106

Victims of the attack, at the Lady Redding Hospital, Peshawar Ghulam Dastageer

پشاور ( توصیف الرحمان سے) خیبرپختونخوا کے محکمۂ صحت کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت غریب عوام کو صحت کی بلامعاوضہ خدمات فراہم کرنے کے لیے ایک باضابطہ منصوبہ شروع کرچکی ہے۔
صحت عامہ کے اس نئے منصوبے کے پراجیکٹ منیجر ڈاکٹر ریاض تنولی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’سوشل ہیلتھ پروٹیکشن انی شی ایٹو‘‘ کے نام سے شروع کیے گئے اس منصوبے کے تحت صوبے کے 26میں سے چار اضلاع میں ’’محروم عوام‘‘ کو صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ 
ان چار اضلاع میں مردان، مالاکنڈ، چترال اور کوہاٹ شامل ہیں۔ ڈاکٹر ریاض تنولی کے مطابق ان اضلاع کا انتخاب صرف اس لیے نہیں کیا گیا کہ صوبے کے غریب ترین عوام تک صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں بلکہ یہ اَمر بھی انتہائی اہم ہے کہ منتخب کیے گئے اضلاع میں صحت کی بنیادی سہولیات بہرطور پر دستیاب ہوں۔
پراجیکٹ منیجر ڈاکٹر ریاض تنولی کے مطابق یہ منصوبہ پانچ برس پر محیط ہے جس پر 1399.156ملین روپے لاگت آئے گی جن میں سے 88فی صد یعنی 1233.256ملین روپے کی امداد جرمنی کی حکومت کے ایف ڈبلیو بنک کے ذریعے فراہم کرے گی جب کہ بقیہ 12فی صد یعنی 165.5ملین روپے خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے ادا کیے جائیں گے۔ 
2014-15ء کی بجٹ دستاویز کے مطابق صوبائی حکومت نے صوبہ میں صحت کے شعبہ کے لیے 6.17فی صد بجٹ مخصوص کیا ہے۔ 
ڈاکٹر ریاض تنولی کہتے ہیں کہ سوشل ہیلتھ پروٹیکشن انی شی ایٹو جون 2015ء میں شروع ہوگا۔ اس کو ملک کی چند بڑی انشورنس کمپنیوں میں سے ایک سٹیٹ لائف پاکستان منتظم کرے گی۔ کمپنی منتخب اضلاع میں اپنے پینل پر شامل ہسپتالوں کے ذریعے خدمات فراہم کرے گی۔ 
انہوں نے کہا کہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے درخواست کی ہے کہ وہ غریب خاندانوں کے کوائف مہیا کرے جو انشورنس کمپنی کو فراہم کیے جائیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی )کے غریب آبادی کی جانچ کے کارڈ کے ذریعے مستحق خاندانوں کی شناخت کی جائے گی۔
بی آئی ایس پی مستحق خاندانوں کوامداد کی غیرمشروط فراہمی کا پروگرام ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے گزشتہ دورِ حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت کم آمدن والے خاندانوں کو ماہانہ امداد فراہم کی جاتی ہے۔
2010-11ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے غربت جانچنے کے لیے کیے گئے خصوصی سروے کے تحت غریب خاندانوں کی شناخت کی جس کی بنیاد ان خاندانوں کے ارکان کی تعداد، اثاثوں اور دیگر قابلِ پیمائش عوامل پر تھی۔
بی آئی ایس پی کی ویب سائٹ کے مطابق ملک گیر پاورٹی سکورکارڈ سروے جنوبی ایشیا میں اپنی طرز کا اولین سروے تھا جس کے باعث بی آئی ایس پی اس قابل ہوا کہ وہ پراکسی مینز ٹیسٹ (پی ایم ٹی) کے ذریعے مستحق گھرانوں کی شناخت کرسکے جس میں کسی بھی گھرانے کے فلاحی مقام کا تعین صفر سے 100کے سکیل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ 
ڈاکٹر ریاض تنولی نے مذکورہ منصوبے کے اہداف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’ حکومت لوگوں کی صحت کی بہتر سہولیات تک رسائی کو نہ صرف بڑھانا چاہتی ہے بلکہ صحت پر اٹھنے والے ان کے اخراجات بھی کم کرنا چاہتی ہے۔‘‘
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن( آئی ایل او) کے مطابق سماجی صحت کے تحفظ کا مطلب ’’ پیداوار کی کمی، اُجرت کا رک جاتا یا اس میں کمی ہونا یا صحت کی خرابی کے باعث ناگزیر علاج پر اٹھنے والے اخراجات کے باعث سماجی و معاشی دباؤ کے خلاف کیے گئے عوامی یا عوامی طور پر منتظم اور نجی طور پر شروع کیے گئے اقدامات ہیں۔‘‘
سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے ایک اہل کار نے ، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ فی خاندان 17سو روپے سالانہ پریمیم ادا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا:’’ ہر خاندان کو ایک کارڈ جاری کیا جائے گا جس پر ایک مخصوص نمبر اورخاندان کے سربراہ کا نام درج ہوگا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کمپنی کی جانب سے ہر شخص کو سالانہ 25ہزار روپے تک کی صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس پیکیج کے تحت 497بیماریوں کا علاج کیا جائے گا جن میں حادثات ، بچوں کی پیدائش، بچپن کی عام بیماریاں، عمومی نوعیت کے آپریشن اور دیگر امراض شامل ہیں۔
ضلع مردان کے شہباز گڑھی گاؤں کے رہائشی محمد نواب نے صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے اس نئے منصوبے پر خوشی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا:’’ اس وقت ہماری سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات اور آلاتِ جراحی تک رسائی نہیں ہے جن کو خریدنے پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ اگر یہ اشیا انشورنس کے تحت فراہم کی جاتی ہیں تویہ ان لوگوں کے لیے بہت بڑی خبر ہوگی جو انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘
ضلع مالاکنڈ کے رہائشی شاہد خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرے پاس بی آئی ایس پی کی جانب سے جاری کردہ کارڈ ہے جس کے تحت میں 15سو روپے ماہانہ وصول کرتا ہوں۔ حکومت کی مذکورہ انشورنس پالیسی لازمی طور پر میری معاشی مشکلات کم کرے گی کیوں کہ ریاست کی جانب سے صحت پر ہونے والے اخراجات کی مد میں معاونت فراہم کی جائے گی۔‘‘
ڈاکٹر ریاض تنولی نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت ہسپتالوں میں زیرِعلاج مریضوں پر اٹھنے والے اخراجات ادا کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً اعشاریہ سات ملین افراد اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ 
ڈاکٹر ریاض تنولی نے کہا کہ منصوبے پر عملدرآمد کا یونٹ (پی آئی یو) اس منصوبے کی نہ صرف نگرانی کرے گا بلکہ اس کا معیار بھی بہتر بنائے گا۔ کے ایف ڈبلیو بنک کی جانب سے اس منصوبے کی مانیٹرنگ اور ایویلیوایشن کے لیے ایک فرم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو اس حوالے سے پی آئی یو کے ساتھ معاونت کرے گی۔ 
صحتِ عامہ کے ماہر ڈاکٹر عبدالطیف نے حکومت کی جانب سے صحت کی بلا معاوضہ سہولیات کی فراہمی کے اس منصوبے کی پذیرائی کی لیکن مختلف خدشات کا اظہار بھی کیا۔
انہوں نے کہا:’’ نظری طور پر یہ ایک شاندار منصوبہ ہے جیسا کہ اس سے غریب عوام کی صحت کی معیاری سہولیات تک رسائی ممکن ہوسکے گی جس سے وہ محروم ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ مذکورہ منصوبے کے شروع ہونے سے صوبہ میں صحت کی سہولیات کی فراہمی کا نظام مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔
خیبرپختونخوا کے محکمۂ صحت کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق صوبے میں 21ضلعی ہیڈکوارٹرز ہسپتال ، 19تحصیل ہیڈکوارٹر زہسپتال، 86دیہی طبی مراکز اور 784بنیادی صحت کے مراکز قائم ہیں۔ صوبے میں 892تدریسی کیڈر کے ڈاکٹرز، 3649میڈیکل افسر، 213ڈینٹل سرجن اور 3066نرسیں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 
ڈاکٹرعبدالطیف نے تجویز دی کہ حکومت کو منتخب اضلاع میں نہ صرف ہیلتھ ورکرز کی تعداد بڑھانی چاہیے بلکہ صحت کی سہولیات کی فراہمی کا نظام بھی بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوچاہیے کہ وہ ان ہسپتالوں کو مزید تشخیصی سازو سامان اور آلاتِ جراحی فراہم کرے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here