سردی کی لہر، زیارت کے باسی صنوبر کے درخت جلانے لگے

1
7705

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzaiزیارت (مالک اچکزئی سے) سفیدبرف میں ڈھکے گھروں کی چمنیوں سے اٹھتا سرمئی دھواں وادئ زیارت میں ہر جانب دکھائی دیتا ہے۔
زیارت، بلوچستان میں لہلاتے صنوبر کے درختوں کو جب سال کی پہلی برف باری نے چھوا اور پارہ چھ سینٹی گریڈ سے کم ہوا تو وادی کے غریب باسی خودکو گرم رکھنے کے لیے بے تاب نظرآئے۔
لیکن زیارت میں خطرات کی زد پر آئے صنوبر کے جنگلات، جن میں تین ہزار سال پرانے درخت بھی موجود ہیں،کی لکڑی کو جلانے کے علاوہ کوئی ایندھن موجود نہیں۔
لوگوں نے گھروں میں صنوبر کی لکڑی کا ذخیرہ محفوظ کر رکھا ہے تاکہ وہ خود کو زیارت کی شدید ترین سردی سے محفوظ رکھ سکیں۔
ماہرینِ جنگلات کے مطابق صنوبر کے ایک درخت کو مکمل طور پر تناآور ہونے کے لیے چار سے پانچ ہزار برس لگتے ہیں۔ یہ بہت آہستگی سے بڑا ہوتا ہے‘ ایک درخت سالانہ صرف ایک انچ ہی بڑھتا ہے۔
54برس کے صمد خان اپنے نومولود بچے کو صنوبر کے درخت جلا کر گرم رکھتے ہیں۔ وہ دھاتی چولہے میں لکڑی جلاتے ہیں جس کا پائپ ان کے گھر کی برف سے ڈھکی چھت سے ہوکر گزرتا ہے۔ 
صمد خان نے کہا:’’ اگرچہ گیس کی سہولت موجود ہے لیکن سرد ی و برف باری میں اس کا دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ ہم کچھ بھی جلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو ہم جلا سکتے ہیں کیوں کہ سردی میرے بچوں کی جان لے سکتی ہے۔‘‘
زیارت کے خطرات کی زد پر آئے صنوبر کے جنگلات کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ دنیا کے دوسرے بڑے جنگلات ہیں اور یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں ۔ یونیسکو اسے ورلڈ نیٹ ورک برائے حیاتیاتی ذخائر میں شامل کرچکا ہے۔
زیارت سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم 28برس کے طارق خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ چند ماہ قبل ہی صدر ممنون حسین اور وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے وادی کا دورہ کیا تھا لیکن حکومت کے اعلیٰ حکام نے ان قدرتی ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ اگر وفاقی حکومت ہمارے صنوبر کے درختوں کا خیال نہیں رکھتی تو کون رکھے گا؟ ان کو محض خطرات کی زد پر قرار دینے سے کچھ نہیں ہوگا، تاوقتیکہ کوئی عملی کارروائی نہیں کی جاتی۔‘‘
زیارت میں صنوبر کے ذخائر رقبہ کے اعتبار سے ملک میں صنوبر کے سب سے بڑے جنگلات ہیں۔ یہ تقریباً ایک لاکھ 10ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر، بلوچستان کے کنسلٹنٹ عرفاق بختیاری کہتے ہیں:’’ یہ کہا جاتا ہے کہ زیارت میں صنوبر کا جنگل دنیامیں اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا جنگل ہے۔‘‘
زیارت میں رواں برس صنوبر کے جنگلات پر تقریباً13انچ برف پڑی،وادئ زیارت شمالی بلوچستان کی سرد ترین وادی ہے جو کہ سطۂ سمندر سے 2543میٹر بلند ہے۔ پوری وادی میں جابجا دیہات آباد ہیں جن کے باسیوں کو ایک ایسے مقام پر ایندھن کی اشد ضرورت ہوتی ہے جہاں پر لکڑی آسانی سے دستیاب نہیں ہے اور موسمِ سرما کے دوران اس کی قلت ہوجاتی ہے یا قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
زیارت سے تعلق رکھنے والے 38برس کے سماجی کارکن محمود ترین کہتے ہیں: ’’ دیہاتی آبادی اس کے آسان ترین حل کی جانب بڑھتی ہے جو کہ ان کے اردگرد لہلاتے صنوبر کے درخت ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ اگرچہ معدنیات سے مالامال صوبہ بلوچستان دارالحکومت اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں تک میتھین گیس فراہم کرتا ہے لیکن زیارت کے غریب باسیوں کو گیس فراہم نہیں کی گئی۔‘‘
محکمۂ جنگلات و جنگلی حیات بلوچستان کے پراجیکٹ ڈائریکٹر مسرور احمد خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صنوبر کے درختوں کے کٹاؤ کو روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات و سزاؤں کے نئے ایکٹ کو ہنوز صوبائی کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جانا ہے۔ 
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم قبل ازیں درخت کاٹنے والوں کے خلاف بہت چھوٹے الزامات کے تحت کارروائی کیا کرتے تھے جسے جنگلات کو محفوظ بنانے کے لیے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ موجودہ قانون بہت نرم ہے، یہ ان لوگوں کومناسب سزائیں نہیں دیتا جو درخت کاٹتے ہیں۔ جرمانوں کا حجم چھوٹا ہے اور سزا ناکافی ہے۔ مقامی قبائلی و سیاسی دباؤ کے باعث حکام ملزموں کو رہا کردیتے ہیں، حتیٰ کہ ان کو گارڈز نے جنگلات کے اردگرد سے حراست میں لیا ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سخت ترین قوانین بھی اس مسئلے سے نمٹنے کا مؤثرحل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’ زیارت کے لوگوں کو جلانے کے لیے دیرپا ایندھن مستقل بنیادوں پرفراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
زیارت کے جنگلات کے نگران محکمۂ جنگلات کے ڈپٹی فاریسٹ کنزرویٹر سید مسکین شاہ کہتے ہیں:’’جنگلات کے اردگردتعینات ہمارا عملہ بہت کم ہے جس کے باعث مقامی آبادی ہماری مدد کرتی ہے‘ہم کسی کو صنوبر کے درخت کاٹنے سے نہیں روک سکتے۔‘‘
محمود ترین کہتے ہیں:’’ ہم بہت جلد اپنے جنگل سے محروم ہوجائیں گے کیوں کہ اس کا رقبہ کم ہورہا ہے جس کے باعث وادئ زیارت کے لوگوں کو متبادل ایندھن فراہم کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘وگرنہ ہم وادی میں صنوبر کا جنگل کھو دیں گے۔‘‘

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here