سماجی و انسانی حقوق کے کارکنوں کے مجوزہ الیکٹرانک کرائمز بل پر تحفظات

0
4701

: Photo By News Lens Pakistan /

پشاور ( عبدالمالک اچکزئی سے) الیکٹرانک کرائمز بل آف پاکستان، جو ممکنہ طور پر جلد ہی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کر دیاجائے گا ، سیاسی اور انسانی حقوق کے بہت سے کارکنوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے جو اسے آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی پہلے ہی منظور کرچکی ہے ۔ اس بل کا مختلف شعبۂ زندگی کے تناظر میں جائزہ لیا جائے گا اور پھر ممکنہ ترامیم کے بعدیہ پاکستان کا اولین قانون بن جائے گا جس کے تحت ملک بھر میں الیکٹرانک کرائمز کا قلع قمع کیا جاسکے گا۔
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم بلیو وائنز پاکستان کے صدر قمر نسیم نے کہا کہ کچھ ہفتے قبل پشاور چیمبر آف کامرس کے ہال میں ایک میٹنگ ہوئی جس کی وجہ الیکٹرانک کرائمز بل پر مشاورت کی اجازت کا دیا جانا تھا جیسا کہ وزارتِ ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ پاکستان بھر سے مذکورہ بل کا سول سوسائٹی، میڈیا اور انسانی حقوق کے نمائندے ،سیاسی کارکن اور نوجوان جائزہ لیں گے۔
قمر نسیم کا کہنا تھا:’’ اس کرۂ ارض کے شہری ہونے کے باعث ہم ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں دو طبقات میں تقسیم ہوچکے ہیں‘ ہم آن لائن ہیں یا پھر آف لائن۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی حکومت قومی ایکشن پلان کے بعد اب اس بل کی تشکیل کا منصوبہ بنا چکی ہے۔‘‘
قمر نسیم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بل کی ’’مبہم زبان‘‘مستقبل میں ایک بڑے اور سنجیدہ مسئلے کے طور پر ابھر سکتی ہے جیسا کہ اس بل کے نکات متنازعہ ہیں اور سیاسی، سماجی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ میڈیا اور آزادئ اظہارِ رائے پر واضح اور کھلا حملہ ہوگا۔
یونیورسٹی آف پشاور میں انٹرنیٹ کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرنیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم توتحریکِ طالبان پاکستان کے عسکریت پسند اکاؤنٹ بند کرنے کے قابل نہیں ہیں جیساکہ جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر ٹوئیٹ کرتے ہیں۔ ‘‘جب ان ویب سائٹوں کے مالکان ایک سادہ سی درخواست پر ان صفحات کو نہیں ہٹاتے تو اس صورت میں صرف ایک راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ذریعے مذکورہ ڈومین ہی بلاک کردی جائے ۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن اور بلاگر 28برس کی ثناء اعجاز نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ جب پاکستان میں سماجی میڈیا نہیں تھا اور اخبارات پر پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں تو اس وقت سوشلسٹ شاعر حبیب جالبؔ اور فیص احمد فیضؔ اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے جذبات ابھارتے اور آگاہی پیدا کرتے۔ وہ آمرانہ قوانین کے باعث پابندِ سلاسل بھی رہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اب سوشل میڈیا، ٹوئٹر، فیس بک اور ساؤنڈ بائٹس، ویڈیوز پلے وغیرہ محروم طبقات کے لیے اسی نوعیت کا کردار ادا کر رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے جارہا ہے اور مختلف بلاگرز اور مصنفین مذکورہ سماجی فورمز پر اپنی آزادانہ رائے رکھنے کے ’جرم‘ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں گے۔
ثناء اعجاز نے مزید کہا:’’ وفاق میں برسرِاقتدار حکومت کا تعلق ہمیشہ پنجاب سے رہا ہے جس کے باعث پاکستان میں بسنے والی دیگر قومیتوں میں احساسِ محرومی نے جنم لیا ہے اور اگر پشتون، بلوچ یا سندھیوں کی جانب سے وفاق کے رویے کے خلاف کوئی تحریر لکھی جاتی ہے تو اسے نفرت پر مبنی مواد کے طور پر دیکھا جائے گاجو ریاست کے خلاف ایک جرم شمار ہوگا۔‘‘
ان کا یہ خیال ہے کہ الیکٹرانک کرائمز بل ’’جمہوری اقدار کے لیے ضرررساں ہے‘‘ کیوں کہ بل میں شامل ایک شق تو ایسی ہے جس کے تحت قوم پرستوں کی تقریریں اور تحریروں، کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف بلاگزکو ریاست مخالف تحریروں و تقریروں کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔
انہوں نے اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ کیا کہ افغان طالبان رہنما ملا عمر کی شخصیت کو روزنامہ جنگ کے ایک مصنف نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیکن ہیئتِ مقتدرہ کی توجہ اس جانب نہیں گئی جنہوں نے نفرت پر مبنی مواد اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے دعوے کیے تھے۔ دہشت گردی کے حامیوں اور انتہا پسندوں کو فروغ دینے والوں کے لیے تو کچھ برا نہیں ہوگا لیکن امن اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اس نوعیت کے قوانین اور قومی ایکشن پلان کا نشانہ بن جائیں گے۔
نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے 28برس کی سلمیٰ بلوچ نے کہا کہ یہ قوانین وقت کی ضرورت ہیں۔ حکومتِ پاکستان اور پارلیمان کے ارکان آئین میں ترمیم کرکے فوجی عدالتیں بنانے پر مجبور ہوئے چناں چہ انٹرنیٹ کے حوالے سے قانون کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ عسکریت پسند دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام ریاست مخالف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں چناں چہ ان کے ساتھ اس قانون کے ساتھ کس طرح نپٹا جائے جس کی تشکیل ہی عمل میں نہیں آئی؟ الیکٹرانک کرائمز بل کے نفاذ کے بعد کچھ برا نہیں ہوگا بلکہ جعلی ویب سائٹوں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے سا تھ ساتھ غیرقانونی تنظیموں کے لیے بھی تکلیف دہ صورتِ حال پیدا ہوگی جو فعال انداز سے امن و امان کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔‘‘
یونیورسٹی کے طالب علم اور سیاسی کارکن 25برس کے فواد خان پیرزادہ اس تشویش کا شکار ہیں کہ مذکورہ بل اگر قانون میں تبدیل ہوجاتا ہے تو اس سے وہ اور ان کے ساتھی انٹرنیٹ کا آزادانہ استعمال کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا:’’ پاکستان میں اس وقت بلوچ قوم پرستوں، سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کی سرگرمیوں سے متعلق تمام ویب سائٹوں اور بلاگز کے علاوہ سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس بھی بند ہیں۔ میَں شرطیہ کہتا ہوں کہ یہ بل آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکن اور عورت فاؤنڈیشن سے منسلک محمدآصف کے مطابق الیکٹرانک کرائمز بل بیک وقت مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اس نوعیت کے قانون کے بغیر ہم انٹرنیٹ پر جاری سرگرمیوں پر قابو نہیں پاسکتے جیسا کہ انتہا پسند تنظیموں کی ویب سائٹوں کے ذریعے بھرتیاں اور چندے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔‘‘
پوہا فاؤنڈیشن سے منسلک سماجی کارکن شفیق گگیانی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ قانون پاکستان کے تناظر میں مثبت نہیں ہے۔ پاکستان میں یوٹیوب پر صرف ایک ویڈیو کی وجہ سے پابندی کی گئی جو اب تک برقرار ہے۔ بہت سے روشن خیال صفحات جیسا کہ روشنی، بھینسا اور جسٹس فار پشتونز پر روزانہ کی بنیاد پر سائبر حملے ہوتے ہیں اور اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو عوام کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا محدود کر دے گا۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here