سندھ میں مہاجرین کی بلاروک ٹوک آمد ‘ مقامی آبادی میں خوف کی لہر دوڑ گئی

0
4330

ٹھٹھہ (اقبال خواجہ سے) افغان، بنگالی، برمی اور جنوبی وزیرستان سمیت ملک کے دیگر حصوں سے مہاجرین کی سندھ میں بلا روک ٹوک آمد نے صوبے کی سول سوسائٹی اور مقامی آبادی میں خوف کی لہر پیداکردی ہے جس کا اظہار نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے بہت سے مقامی عمائدین نے کیا۔
ڈی آئی جی پولیس حیدرآباد رینج ثناء اللہ عباسی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے سندھ کی سول سوسائٹی کے اس خوف کی تصدیق کی اور کہا:’’ جی بالکل! یہ مہاجرین اندرونِ سندھ میں طاقت ور مقامی لوگوں کی جانب سے قائم کیے جانے والے غیر رجسٹرڈ مذہبی مدارس میں پناہ حاصل کرکے خود کو مضبوط کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ صرف کراچی اور حیدرآباد میں تین لاکھ غیر قانونی مہاجرین آبادہیں جن کی اکثریت پولٹری، ماہی گیری، ہاتھ ریڑی کے کاروبار اور منشیات کی سمگلنگ سے منسلک ہے۔‘‘
پولیس افسر نے یہ انکشاف کیا کہ 2007ء میں پاکستان اور اقوامِ متحدہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ افغان مہاجرین پاکستان میں 18رجسٹرڈ کیمپوں تک محدود رہیں گے اور ان کو اپنے کاروبار شروع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ اقوامِ متحدہ پاکستانی حکومت کے ذریعے ان کی کفالت کرے گی۔ 
ثناء اللہ عباسی کے مطابق ہزاروں افغان مہاجرین کسی نہ کسی طرح اپنے کیمپوں سے فرار ہونے میں کامیاب رہے اور وہ اب کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں کے نواح میں آباد ہورہے ہیں۔ بہت سے دوسرے مہاجرین نے بھی ان کی طرح ان علاقوں میں اپنی آبادیاں قائم کی ہیں۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ٹھٹھہ فدا حسین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ مہاجرین کراچی کو ٹھٹھہ، بدین، سجاول، ٹنڈو محمد خان اور حیدرآبادسمیت اندرونِ سندھ کے مختلف شہروں میں داخل ہونے کے لیے راہ داری کے طور پر استعمال کرتے ہیں‘ ان علاقوں میں مہاجرین کو اپنے اپنے روایتی لباس زیبِ تن کیے مسلح ٹولیوں کی صورت میں آواہ گردی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘
جیئے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو نے اس صورتِ حال کو ’’تشویش ناک‘‘ قرار دیا اور کہا:’’ تبلیغی جماعت اوراس کی طرح کے دوسرے گروہوں کی موجودگی ان اجنبیوں کے لیے خوش قسمتی کا باعث ہے جو ان میں پناہ حاصل کرتے ہیں‘ اس سے سندھ میں داعش کے لیے محاذ تیار ہوسکتا ہے۔‘‘
سندھ کی سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی اندرونِ سندھ میں امن و امان کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم خواجہ نے کہا : ’’پاکستان کے لیے دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مہاجرین کی ان حالات میں سندھ آمد باعثِ تشویش ہے۔‘‘
متحدۂ قومی موومنٹ کی رہنما ہیر سوہو نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے اس پختہ یقین کا اظہار کیا کہ اگر اجنبی معاشرے کے سماجی و معاشی شعبوں میں اپنا اثرو رسوخ بڑھاتے رہے تو وہ مستقبل میں بہرصورت اندرونِ سندھ پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛’’ اگر سندھ حکومت زمینی حقائق کا ادراک نہیں کرتی اور اور نہ ہی مدرسوں اور مہاجرین کو رجسٹرڈ کرنے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔‘‘
جے ایس ایم کے وائس چیئرمین نواز شاہ بھدائی نے اس طرح کے اجنبیوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا:’’ سپر ہائی وے سے متصل شہروں جام شورو، ٹنڈو محمد خان، بدین، سجاول، دھابیجی ، گجو، گھارواور ساحلی قصبوں گارھو، میرپور ساکرو، بلال نگر اور ٹھٹھہ بلاروک ٹوک آباد ہونے والے ان مہاجرین کے ٹھکانے بنے ہیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ ان کی بڑی تعداد حکام کی مدد سے جعلی شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے جب کہ مقامی لوگوں کو ان دستاویزات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جیئے سندھ قومی محاذ (جسقم) ٹھٹھہ کے جنرل سیکرٹری غلام حسین خاصخیلی نے نشان دہی کی کہ ان اجنبیوں نے مذہبی عسکریت پسند گروہوں کی وجہ سے مقامی آبادی کو خوف زدہ کیا ہے لیکن حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ 
انہوں نے کہا کہ مہاجرین اوران کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے مضبوط بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے‘ دوسری صورت میں سندھ پر جلد عسکریت پسند گروہوں کی گرفت مضبوط ہوجائے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here