فاٹا میں پولیو مہم مشکلات کا شکار‘ ہیلتھ ورکرز کو معاوضوں کی ادائیگی میں تاخیر

0
4530

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

جمرود، خیبر ایجنسی ( اشرف الدین پیرزادہ سے) پاکستان کے شورش زدہ قبائلی علاقوں میں قبل ازیں عسکریت پسندوں کی جانب سے درپیش خطرات کے باعث پولیو ورکرز کو ایک ایسے علاقے میں پولیو مہم جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جہاں اب تک پولیو کے متعدد کیسز سامنے آچکے ہیں۔پولیو مہم اب مختلف نوعیت کے خطرے کی زد پر ہے۔
خیبر ایجنسی میں پولیو مہم کا اگلا مرحلہ یکم مارچ 2015ء سے شروع ہورہا ہے‘ یہ وہ علاقہ ہے جہاں 2014ء میں زندگی بھر کے لیے مفلوج کردینے والی اس بیماری کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے‘ لیکن وہ پولیو ورکرز جن کو معاوضہ ادا نہیں کیا گیا‘ انہوں نے مہم سے الگ ہونے کی دھمکی دی ہے۔
خیبر ایجنسی میں کام کرنے والے ہیلتھ ورکرز اور پولیو رضاکار کہتے ہیں کہ اگر ان کو ماضی کی متعدد پولیو کمپینز میں ان کی خدمات کا فوری طور پر معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا تووہ قبائلی علاقوں میں بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائیں گے۔
پولیو ٹیم کے سپروائزر نوید شنواری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں لیکن حکام نے ان کو کوئی معاوضہ ادانہیں کیا۔ 
انہوں نے کہا:’’ پولیو ورکرز کو روزانہ کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے۔ ہم نے خیبر ایجنسی میں انسدادِ پولیو کی سات کمپینز میں حصہ لیا لیکن اب تک کوئی معاوضہ نہیں ملا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایسے ہیلتھ ورکرز جو طویل عرصہ سے پولیو ویکسینیشن کمپینز سے منسلک ہیں‘ انہوں نے حالیہ پولیو مہم کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں ( فاٹا) میں پولیو ویکسینیشن مہم کے نگران ڈاکٹر اختیار خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیو ورکرز کی جانب سے معاوضوں کی ادائیگی کا مطالبہ درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمۂ صحت کے حکام ہیلتھ ورکرز کو معاوضوں کی جلد ادائیگی کر دیں گے۔
ڈاکٹر اختیار نے کہا:’’ میں محکمۂ صحت کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہوں تاکہ اس مسئلے کو خیبر ایجنسی میں انسدادِ پولیو کی اگلی مہم کے شروع ہونے سے قبل حل کیا جاسکے۔‘‘
وہ خوف زدہ ہیں کہ خیبر ایجنسی میں پولیو وائر س کی موجودگی کے باعث یہ بیماری تشویش ناک شرح سے پھیل سکتی ہے۔ گزشتہ برس(2014ء )اس حوالے سے بدترین تھا جب صرف خیبر ایجنسی میں پولیو کے 78کیسز رپورٹ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ 2015ء میں خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا۔ 
ڈاکٹر اختیار کا کہنا تھا:’’ اگلی انسدادِ پولیو مہم مارچ کے پہلے ہفتے میں شروع ہو رہی ہے‘ ہم تقریبا خیبر ایجنسی میں سات لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گے جس کے لیے محکمۂ صحت کے حکام کی نگرانی میں 2553موبائل جب کہ مخصوص مقامات پر خدمات انجام دینے کے لیے 245ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔‘‘
خیبرایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر اور قبائلی معززملک وارث خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو پولیو کے قطروں کی اہمیت کا ادراک ہوگیا ہے۔
انہوں نے تجویز دی:’’ یہ بہتر ہوگا کہ اگر انسدادِ پولیو کی کمپینز مقامی معززین کی مدد اور تعاون سے چلائی جائیں۔‘‘
دوسری جانب فاٹا کے ان علاقوں میں پولیو کے کیسز کی بڑی تعداد رجسٹرڈ ہوئی ہے جہاں ہیلتھ ورکرز نے گزشتہ مختلف پولیوکمپینز کے دوران ہزاروں بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے تھے۔
باڑہ خیبر ایجنسی کی ایک اہم تحصیل ہے جہاں پر فوج عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے اورفاٹا کے اس قبائلی علاقے میں گزشتہ برس 78بچے پولیو کے وائرس سے متاثر ہوئے۔ 
اگرچہ حکام ان علاقوں میں انسدادِپولیو کی منظم مہم شروع کرنے کے حوالے سے پرجوش ہیں جہاں پولیو کے کیسوں کی بڑی تعدادرجسٹرڈ ہوچکی ہے جن میں باڑہ بھی شامل ہے۔ عسکریت پسندی، فوجی آپریشنوں، امن و امان کے مخدوش حالات اور پولیو ورکرز کو درپیش خطرات کے باعث ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے کہ وہ اس مہم کو جاری رکھ سکیں جب کہ پولیو کے وائرس کے انسداد کے لیے جاری مہم کی راہ میں بھی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ 
خیبر ایجنسی میں سول سوسائٹی کے ارکان اور والدین یہ چاہتے ہیں کہ حکومت ہیلتھ ورکرز کو معاوضوں کی فوری طور پر ادائیگی کرے تاکہ ان کے بچوں کو بروقت پولیو کے قطرے پلائے جاسکیں۔
ہیلتھ ورکر اور دو بچوں کے باپ نقیب شنواری نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے کے ناقابلِ رسائی ہونے اور فاٹا میں امن و امان کے ناقص حالات کے باعث منظم پولیو مہم شروع کرنے کے لیے ہیلتھ ورکرز اور بالخصوص پولیو ورکرز کی تعداد ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ اگر پولیو ورکرز کا یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہم اگلی پولیو مہم میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ ہم نے خیبرایجنسی کی تحصیلوں لنڈی کوتل، باڑہ اور جمرودمیں ہزاروں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے ہیں۔اس مہم کے لیے ان تمام ہیلتھ ورکرز کی ضرورت ہے جن کی کسی بھی طرح اس بڑے ٹاسک کو مکمل کرنے میں مدد حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here