لاہور: پولیس کی غلط تفتیش‘ ہلاک نوجوان زندہ نکل آیا

0
4652

لاہور( شفیق شریف سے)منیر کا 14برس کا چھوٹا بیٹا وسیم 30مئی کو ایک برس تک پراسرار طور پر لاپتہ رہنے کے بعد گھر واپس آگیا جب کہ پولیس اس کی موت کا اعلان کرچکی تھی۔
وسیم 29جون 2014ء کو نواب ٹاؤن تھانے کی حدود سے لاپتہ ہوا تھا۔
ہنجروال لاہور کے رہائشی منیر نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے شہر میں ہر جگہ اپنے بیٹے کو تلاش کیا‘ ہر رشتہ دار کے گھر پر اس کاپتہ اور ہر اس شخص سے اس کے بارے میں دریافت کیا جو اس کے بیٹے کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
اس نے کہا:’’ ہم ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؛ ہر فرد گزر بسر کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ رقم کمانے کے لیے محنت کرتا ہے لیکن اس کے باوجود میں نے اور خاندان کے ہر فرد نے میرے بیٹے کو تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کی جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘
ابتدا میں منیر نواب ٹاؤن پولیس سے رابطہ کرنے کے حوالے سے کتراتا رہا لیکن بعدازاں اس نے اپنے بیٹے کی گمشدگی کے متعلق رپورٹ درج کروانے کے لیے ان سے رابطہ قائم کیا۔ اس نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرے بیٹے کے لاپتہ ہونے کے ایک ہفتے بعد مجھ پر یہ منکشف ہواکہ میرے پیشہ ورانہ ساتھی اشرف اور اسلم اس جرم میں ملوث تھے۔‘‘
اس نے دعویٰ کیا:’’ میں نے اور میرے دیگر ساتھیوں نے ان پر زور دیا لیکن وہ جرم میں ملوث ہونے کی تردید کرتے رہے جس کے بعد میَں نے نواب ٹاؤن پولیس سٹیشن میں اس بارے میں مقدمہ درج کروا دیا۔‘‘ منیر کے بیٹے کے لاپتہ ہونے کے ڈیڑھ ماہ بعد اس کی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
اس مقدمے کی تفتیش کی ذمہ داری نواب ٹاؤن پولیس سٹیشن کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹرارشد بیگ کو دی گئی۔ انہوں نے شوکت نام کے ایک شخص کو گرفتار کیا جس نے بعدازاں اسلم کو ملزم کے طور پر شناخت کرلیا۔منیر نے دعویٰ کیا کہ تفتیش کے دوران اسلم نے اس کے بیٹے کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔
اس نے کہا:’’ پولیس نے مبینہ طور پر وسیم کے کپڑے بھی برآمد کرلیے۔ اس صدمے سے میرا خاندان ٹوٹ گیا تھا لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہم معمول کے مطابق زندگی بسر کرنے لگے۔ 30مئی 2015ء کو جب وسیم گھر میں داخل ہوا تو ہم حیران رہ گئے۔‘‘
منیر نے فوری طورپر تفتیشی افسر سب انسپکٹر لیاقت سے رابطہ کیاجنہیں مقدمہ میں قتل کی دفعات شامل کیے جانے کے بعد تفتیشی افسر مقرر کیا گیا تھا۔
منیر نے کہا:’’ وسیم اور میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن رانا ایاز کے روبرو پیش ہوئے اور ان کو اس معاملے کے بارے میں آگاہ کیا۔انہوں نے متعلقہ پولیس افسروں سے وضاحت طلب کی اور بعدازاں یہ منکشف ہوا کہ تفتیشی افسروں نے تمام تر تفتیش کے دوران گرفتار ملزموں اشرف اور اسلم کے بیانات کی تصدیق نہیں کی تھی اور مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کر دیا تھا۔‘‘
وسیم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کے روبرو بیان ریکارڈ کروایا جس میں اس نے کہا کہ اشرف اور اسلم نے اسے نشہ آور مشروب پلا کر اغوا کیا تھا۔ اس نے انکشاف کیا:’’ جب وہ ہوش میں آیا تو ایک گھر پر موجود تھاجہاں دو عورتیں اور دو مرد رہائش پذیر تھے جنہوں نے اسے بتایا کہ اسے اشرف اور اسلم نے ان کے ہاتھ فروخت کیا ہے اور اب اسے ان کے ساتھ ہی رہنا ہے۔‘‘
وسیم نے مزید کہا:’’ انہوں نے مجھ پرچور بننے کے لیے دباؤ ڈالا اور انکار پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ لیکن ایک برس بعد گھر میں رہائش پذیر ایک خاتون نے فرار ہونے میں میری مدد کی۔‘‘ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ گھر گوجرانوالہ میں ہے جہاں سے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔
رانا ایاز نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کی درست تفتیش نہ کرنے پر دونوں پولیس افسروں کو معطل کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں افسروں نے اس مقدمے کی تفتیش کرتے ہوئے مجرمانہ غفلت برتی تھی اور ٹھوس شواہد کے بغیر ہی چالان مکمل کرلیا تھا۔
انہوں نے کہا:’’ اگرچہ تفتیش کار عمومی طور پر شکایت کنندہ سے پولیس کی مدد کرنے کی درخواست کرتے ہیں اورشکایت کنندہ کی درخواست کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تفتیش کا آغاز کرتے ہیں لیکن بعدازاں ہم دونوں شکایت کنندہ اور ملزموں کے بیانات کی مختلف تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے، جس میں شواہد کو اکٹھا کرنے، ان کی فارنزک رپورٹوں اور واقعاتی شہادتیں وغیرہ شامل ہیں، تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
رانا ایاز نے مزید کہا:’’ اس مقدمے میں تفتیشی افسروں نے ان قواعد کو نظرانداز کیا اور صرف ملزموں کے بیانات پر ہی انحصار کیا۔‘‘
لاہور کے علاقے ہنجروال کے رہائشیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا جب پولیس افسروں نے غلط تفتیش کی ہو۔ مزیدبرآں تفتیشی افسر تفتیش کے دوران حقائق تبدیل کردیتے ہیں جس کے باعث ملزموں کے بچ نکلنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
رانا ایاز نے کہا:’’ میَں نے پانچ ماہ قبل ایس ایس پی انوسٹی گیشن کا عہدہ سنبھالا جس کے بعد سے اب تک تفتیشی ونگ کے 57افسروں کو غلط تفتیش کرنے پر برخاست کرچکا ہوں۔‘‘
پاکستان بھر میں تفتیشی معیار ناقص ہے۔ رانا ایاز نے مزید کہا:’’ ہر تفتیش کار ایک درجن سے زائد مقدمات کی تفتیش کررہا ہوتاہے اور وسائل کی کمی کے باعث وہ شفاف تفتیش کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی تفتیش کاروں کی اکثریت تفتیشی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here