پاکستان میں ہندوﺅں کے لیے کوئی عائلی قانون موجود نہیں

0
4786

اسلام آباد ( قمرزمان سے ) بھون داس ایک قانون ساز ہیں لیکن پاکستان میں بسنے والی اپنی ہندو کمیونٹی کی طرح وہ بھی شادی کی رجسٹریشن کے معاملے میں خود کوبے بس تصور کرتے ہیں ۔
پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی کئی لاکھ ہے لیکن ہندوشہریوں کی شادی اور طلاق کو رجسٹر کرنے کے حوالے سے کوئی ایک قانون بھی منظور نہیں ہوسکا۔ 1947ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کے عائلی قوانین کی جامعیت کے ساتھ ترمیم کی گئی لیکن مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے موجود قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بہت کم اقدامات کیے گئے ہیں۔
کمیونٹی ورلڈ سروس ایشیا کی رپورٹ بعنوان ’’ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں اور شادی کے قوانین‘‘ میں کہا گیا ہے:’’ ایک ہندو شادی ٹوٹنے کا تعلق بنیادی طور پرطلاق کے مروجہ استعمال اور عدالتی علیحدگی کے اصولوں پر ہے۔ کچھ قانونی ماہرین عدالتی علیحدگی کو شادی کا مکمل خاتمہ خیال کرتے ہیں لیکن مروجہ استعمال میں اختلافِ رائے خواتین کے حوالے سے امتیاز پر مبنی ہے۔اس بے ربطی کے باعث خواتین کو اپنی شادیاں ختم کرنے کے لیے اسلام قبول کرنا پڑتا ہے۔‘‘
بھون داس حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص کوٹے پر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن اس پر ان کا ضمیر یہ ملامت کرتا ہے کہ وہ حکومت پر اس خلا کو پُر کرنے اور اپنی کمیونٹی کے لیے اشد ضروری قوانین کی تشکیل کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر درشن اور رمیش لال کی جانب سے 2014ء میں قومی اسمبلی میں کئی بل پیش کیے گئے اور مسلم لیگ (نواز) سے تعلق رکھنے والے رمیش کمار ونکوانی نے ہندوؤں کی شادی کا رجسٹریشن ایکٹ2014ء متعارف کروایا جس میں شادیوں کی رجسٹریشن اور جبری تبدیلئ مذہب پر توجہ دی گئی تھی لیکن یہ ہنوز التوا کا شکار ہے۔
بھون داس نے ایک انٹرویو میں کہا:’’ ہم ان مسائل پر اپنی آواز نہیں بلند کرسکتے جیساکہ ہمارے پیش روؤں کی جانب سے کی جاتی تھی۔‘‘
انہوں نے اپنی دلیل کی وضاحت کے لیے18ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا جس کے تحت اقلیتی ارکان کو سیاسی جماعتوں کے سربراہ نام زد کرتے ہیں اور وہ براہِ راست منتخب نہیں ہوتے‘ بھون داس نے کہا:’’ وہ ارکان جو براہِ راست انتخابات میں منتخب ہوتے تھے، وہ اپنی آواز بلند کرسکتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے ارکان سیاسی طور پر اس قدرطاقت ور نہیں تھے کہ وہ اپنے مسائل پر توجہ حاصل کر پاتے۔ 
ہندو کمیونٹی کے ارکان کے لیے شادیوں کی رجسٹریشن، جیون ساتھی کے لیے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور سفری دستاویزات کا حصول ایک مشکل ٹاسک سے کم نہیں اور بھون داس ان قانونی پیچیدگیوں کا خود سامنا کرچکے ہیں جب ان کے ایک قریبی رشتہ دار کوبیرونِ ملک علاج کے لیے پاسپورٹ بنوانا تھا۔ 
بھون داس نے ن مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ جن کا ان کی کمیونٹی کو سامنا ہے، کہا کہ لوگ سندھ سے ہجرت کررہے ہیں اور ’’ وہ انڈیا سے واپس نہیں آرہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کے دوسری بار مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے رکنِ قومی اسمبلی رمیش لال نے کہا:’’ کام ہورہے ہیں لیکن خدا جانتا ہے کہ یہ (قوانین کی عدم موجودگی میں) کس طرح ہورہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کئی کوششیں کی جاچکی ہیں اور بل متعارف کروائے گئے ہیں لیکن درحقیقت کچھ نہیں ہوا۔
ایڈووکیٹ معاروف مٹھا نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پاکستان میں ہندو شہریوں کی شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے‘ اگرچہ وہ اپنی شادیاں خصوصی میریج ایکٹ1872ء کے تحت رجسٹرکروا سکتے ہیں لیکن اس قانون کے نفاذ کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔‘‘معاروف مٹھا رپورٹ بعنوان ’’ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں اور شادی کے قوانین‘‘ ترتیب دے چکے ہیں۔
کمیونٹی ورلڈ سروس ایشیاء کی جانب کی گئی تحقیق کی روشنی میں ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہندو ؤں(جاتی) کی آبادی تقریباً29لاکھ ہے اور ان کی اکثریت سندھ میں رہ رہی ہے اور یہ تقریباً 2,683,633 ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کی بڑی تعداد سندھ میں رہتی ہے جہاں پر شادی کرنے کے لیے عمر کی حد کم از کم 18برس رکھی گئی ہے لیکن یہ قانون چوں کہ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام نہیں کرسکتا‘ اس لیے بچوں کی شادیاں روکنے کے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
معاروف مٹھا نے مزید کہا:’’ یہ ہندوؤں کے لیے تقریباً ناممکن ہے کہ وہ عدالتوں میں اپنی شادی کو ثابت کرسکیں اور باضابطہ قانون سازی نہ ہونے کے باعث جبری تبدیلئ مذہب اوربعدازاں شادیوں کو فروغ ملتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہندوؤں کی شادیاں رجسٹر نہ ہونے کے باعث خواتین کو دستاویزات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث حکومتی خدمات، تعلیم ، بیرونِ ملک یا دوسرے علاقوں میں سفر میں بھی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ 
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت قومی اسمبلی میں ہندوؤں کے نمائندوں اور کمیونٹی کے رہنماؤں کے ساتھ طلاق کے حوالے سے قانون سازی پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ 
معاروف مٹھا نے مزید کہا:’’ طلاق (ہندوؤں) کے حوالے سے کوئی باضابطہ قانون موجود نہیں ہے اور مذہبی رہنماؤں کی رائے کمیونٹی سے مختلف ہے جب کہ ریاست‘ مذہبی رہنماؤں کی رائے کے پیچھے پناہ لے رہی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ طلاق کے قوانین کی عدم موجودگی کے باعث تبدیلئ مذہب کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ مسیحی آبادی کے لیے نافذ طلاق کا قانون مسیحی شادی مناسب طریقے سے ختم کرنے کا مؤثر ذریعہ نہیں ہے جس کے باعث شادی توڑنے کا آسان ترین طریقہ قبولِ اسلام ہی رہ جاتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی، جنہوں نے پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں ہندو شادیوں کی رجسٹریشن کا بل پیش کیا تھا، کہتے ہیں:’’ میں تھک چکا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر رمیش نے گزشتہ برس چار مارچ کو یہ بل اسمبلی میں پیش کیا لیکن اس کے بعد سے یہ سرد خانے میں پڑا ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت یہ مضمون صوبوں کو منتقل کیا چکا ہے جنہوں نے اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
اگرچہ اب یہ صوبوں کے اختیار میں ہے لیکن وفاقی کابینہ اس معاملے کو اٹھا سکتی ہے۔ڈاکٹر رمیش نے مزید کہا:’’ ہم نے یہ بل سوچ بچار کے بعد تشکیل دیا تھا جسے فی الحال وفاقی کابینہ سے منظور ہونا ہے لیکن یہ کبھی اجلاسوں کا ایجنڈا نہیں رہا۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ( وہ اس معاملے پر ایک کیس کی سماعت کر رہے ہیں) کو یہ بتا چکا ہے کہ میں تھک گیا ہوں کیوں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران میری تمام تر کوششوں کے باوجود کسی نے اس جانب توجہ مرکرز نہیں کی۔‘‘
ڈاکٹر رمیش نے بل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شادی کے لیے عمر کی حد کم از کم 18برس کرنے کی شرط شامل کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ ایک بار یہ قانون منظور ہوجاتا ہے تو اس سے جبری تبدیلئ مذہب اور بعدازاں کم عمر لڑکیوں(12سے 13برس) کی شادی کو روکا جا سکے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ صوبۂ سندھ میں اکثر اوقات مقامی جاگیردار شادی شدہ خواتین کو اغوا کرلیتے ہیں اورمسلمان مرد سے شادی کروانے کے لیے اس کا مذہب تبدیل کروا دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی گزشتہ شادی کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزی شواہد موجود نہیں ہوتے۔‘‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ ‘ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو یہ ہدایت کرچکی ہے کہ ہندو کمیونٹی کے ارکان کی شادیوں کی رجسٹریشن اور شناختی کارڈ کے حصول میں مدد کی جائے۔
ڈاکٹر رمیش کہتے ہیں:’’ نادرا کی جانب سے اس مقصد کے لیے بنایا گیا سرٹفیکیٹ غلیطوں سے پُر ہے‘ جیسا کہ ایک خانے میں پنڈت(جو ہندوؤں کی شادی کرواتا ہے )کے بجائے نکاح نواں (مولوی) کا نام پوچھا گیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here