پشاور کے نواحی علاقوں میں فرقہ پرست عسکریت پسندوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ

0
4833

پشاور(غلام دستگیر سے) پشاور میں ہونے والی حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں علمدار حسین کے چار قریبی رشتہ دار بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ پشاور میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی اندرون پشاور کے بیرونی علاقے سرکلر روڈ سے ملحقہ آبادیوں میں کی جاتی ہے۔ 
علمدار حسین ،جو پشاور میں جاری حالیہ فرقہ ورانہ تشدد میں اپنے چچا اور تین قریبی عزیزوں سے محروم ہوئے ہیں،کہتے ہیں: ’’سرکلرروڈ کے علاقوں بیری باغ، اخوندآباد، ذرگرآباد، ولی آباد، وزیرآباد اور رشید گڑھی وغیرہ میں ایسے عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہیں جن کا تعلق ان گروہوں سے ہے جو فرقہ ورانہ قتل و غارت میں ملوث ہیں۔‘‘ ان کے کزن صفدر عباس اور واجد حسن 22فروری 2010ء کوشیعہ مسلک کے دو اراکین ڈاکٹرثقلین اور محمد عباس کو گولیوں سے چھلنی کر دیے جانے کے وقوعہ کے عینی شاہد تھے۔ 
سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) سٹی ڈاکٹر مصطفی کہتے ہیں کہ پشاور شہر میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ہر علاقے میں موجود ہیں تاہم یکتول کے بیرونی علاقوں میں عسکریت پسند نسبتاً بڑی تعداد میں موجود ہیں۔انہوں نے کہا:’’ وہ (عسکریت پسند)یکتول کے بیرونی علاقوں میں موجود ہیں جہاں پر ان کے مددگار اور حامی بھی قیام پذیر ہیں۔‘‘ 
وہ اس کے باوجودعسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے کے حوالے سے پرامید دکھائی دیے۔ ان کے خیال میں صوبائی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے حالیہ قانون’ خیبرپختونخوامیں کرایے پر دی گئی عمارتوں پر پابندیوں(سکیورٹی) کے ایکٹ‘ کے باعث حکام کرایے کے گھروں میں رہائش پذیر افراد و خاندانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قانون کے تحت جرائم پیشہ افراد کو پناہ دینے والے افراد کے خلاف بھی انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت کارروائی کی جاسکے گی۔ 
تاہم انٹیلی جنس بیورو میں موجود ایک ذریعے نے اپنی حساس نوعیت کی ملازمت کے باعث نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان گنجان آباد علاقوں میں آپریشن کرنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا:’’آپ کو پشاوربھر کی پولیس فورس کی ضرورت ہوگی کیوں کہ ان علاقوں کو آپریشن کے لیے خالی کروانا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ علاقے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور مکمل طور پر بند نہیں کیے جاسکتے۔‘‘
وہ کہتے ہیں :’’ سرکلر روڈ کی آبادیوں کے رنگ روڈ اور کوہاٹ روڈ سے نزدیک ہونے کے باعث یہ ان عناصر کے لیے پرکشش بن گئی ہیں جو محفوظ پناہ گاہیں چاہتے ہیں۔ وہ آسانی کے ساتھ ان علاقوں سے خیبرایجنسی اور پشاور کے فرنٹیئر ریجن میں فرار ہوسکتے ہیں (یہ دونوں وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں کا حصہ ہیں)۔ 
رواں ماہ کے اوائل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دو افراد محمد ظاہر اور شہزاد کو حراست میں لیا تھا۔ پولیس کے مطابق یہ دونوں ’’دہشت گرد ہیں جن کا تعلق کالعدم عسکری تنظیم سے ہے۔‘‘
انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) میں موجود ایک ذریعے نے اپنی حساس نوعیت کی ملازمت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں دہشت گردوں کا تعلق شیعہ مخالف عسکریت پسند تنظیم لشکرِجھنگوی سے ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ دونوں پشاور میں شیعہ مسلک کے ارکان کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ ‘‘
پشاور کے ایک شیعہ رہنما علی عباس کے مطابق ٹارگٹ کلنگ میں ملوث قاتلوں کی خدمات پشاور کے بجائے دوسرے علاقوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا:’’ پشاور کے مضافاتی علاقوں کے لوگ ان ٹارگٹ کلرز کو رہائش اور لاجسٹک معاونت فراہم کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تک پولیس یا کسی دوسری سکیورٹی ایجنسی کو مقامی لوگوں کے بارے میں ایسی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوسکی ہیں کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کومحفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں یا نہیں۔ 
علی عباس یہ یقین رکھتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب کی طرز کی کارروائی کے ذریعے ہی ان علاقوں کو عسکریت پسندوں سے پاک اور شیعہ کمیونٹی کے ارکان کی ٹارگٹ کلنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ یہ علاقے پشاور میں امن و امان کے لیے خطرہ ہے جس طرح شمالی وزیرستان ملک بھر کے لیے ہے۔ اگر آپ پشاور میں خودکش حملوں، بھتہ خوری اور اغوا کے واقعات پر قابو پانا چاہتے ہیں تو سرکلرروڈ کے علاقوں میں مربوط آپریشن کرنے کی ضرورت ہے جو کہ پشاور کے اندرون شہر سے متصل ہیں۔‘‘
عباس کہتے ہیں کہ ولی آباد سے رشید گڑھی تک پورے علاقے پر لشکرِ جھنگوی اور تحریکِ طالبان پاکستان کی مہمند شاخکے عسکریت پسندوں کا اثرو رسوخ ہے جن کی قیادت عمر خالد خراسانی کر رہے ہیں۔
دوسری جانب انٹیلی جنس بیورو کے ذرائع کے مطابق ان گنجان آباد علاقوں میں آپریشن کرنا آسان نہیں ہے۔ ’’ شیعہ کمیونٹی کے ہر رکن کے قتل کے بعد ہم صوبہ کے وزیراعلیٰ اور انسپکٹر جنرل پولیس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں مربوط آپریشن کیا جائے لیکن اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کی وجوہات کے بارے میں وہ (اعلیٰ حکام) بہتر طور پر آگاہ ہیں۔‘‘
شیعہ کمیونٹی کے ارکان کے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here