قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے آئینی کوششوں کا آغاز

0
1697

: Photo By News Lens Pakistan /

پشاور (انعام اللہ سے) وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں آئینی ترمیم کے بل کا ایک ڈرافٹ جمع کروایا ہے جس کا مقصد فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (پاٹا)میں ضم کرنا ہے۔
فاٹا کے ارکانِ پارلیمان کی جانب سے ایسا کوئی اقدام پہلی بار کیا گیا ہے جوگزشتہ 68برسوں میں سے ایک طویل عرصہ تک فاٹا کے حالات سے غافل رہے ہیں۔
دوسری جانب ایک بڑا سیاسی طبقہ،جس میں سول سوسائٹی بھی شامل ہے، اس اَمر کا خواہاں نہیں ہے کہ فاٹا کا خیبرپختونخواکے ساتھ الحاق عمل میں آئے اور وہ چاہتے ہیں کہ اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ قرار دیاجائے۔
یہ بل فاٹا لائرز فارم ( ایف ایل ایف) کی مشترکہ کوششوں سے تشکیل دیا گیا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمان سے اس حوالے سے مطالبہ کرتی رہی ہے۔
فاٹا لائرز فارم کے نومنتخب صدر اور پشاور ہائی کورٹ کے وکیل رحیم شاہ آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کمیونٹی گزشتہ کئی برسوں سے اس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا:146146 ہم نے سب سے بڑی رکاوٹ عبور کرلی ہے جس کے بعد اب فاٹا کے باسیوں کو اس حوالے سے آگاہ کرنا اگلا اقدام ہوگا۔ جغرافیائی طور پر فاٹا کو خیبرپختونخوا سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ فاٹا چوں کہ ایک طویل پہاڑی پٹی ہے جس کے باعث یہ زرعی اور معدنیاتی وسائل سے محروم ہے۔145145
رحیم شاہ آفریدی نے مزید کہا :146146 قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخواکے عوام کی تہذیب،مذہب اور ثقافتی روایات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ چناں چہ فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنانے کے لیے طویل آئینی ضابطوں پر عملدرآمد کی وجہ سے اسے مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کی جانے والی کوئی بھی کوشش ایک بار پھر بارآور ثابت نہیں ہوپائے گی۔ 145145
اس وقت پارلیمنٹ میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی تعداد 20ہے جن میں سے 12قومی اسمبلی اور آٹھ سینیٹ میں قبائلی علاقوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رُکن شاہ جی گل آفریدی یہ یقین رکھتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کے لیے آئینی ڈھانچہ تشکیل دینے کا وقت آچکا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب جب کہ اس خطے سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کا تدارک کیا جارہا ہے145 بحالی کی سرگرمیوں کی ایک کڑی کے طو رپر فاٹا کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔
چند پولیٹیکل ایجنٹوں کے بجائے فاٹا کے عوام اپنی دھرتی پر حکمرانی کریں۔
فاٹا سات ایجنسیوں باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کُرم، شمالی و جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے جوبالترتیب اترائی کی جانب آباد ہیں جب کہ اس کے علاوہ چھ فرنٹیئر ریجن ہیں۔
فاٹا کواب تک فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن 1901ء کے تحت منتظم کیا جارہا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا صدرِ پاکستان کے نمائندے کے طور پر اس خطے کے انتظامی امور کے نگران ہیں جنہیں وزارتِ سرحدی علاقہ جات کی مکمل معاونت حاصل ہے۔
اہلِ فاٹا کی جانب سے اس بل پر ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے۔ بل کی مخالفت میں ایک بڑا قبائلی اتحاد تشکیل دیاجا چکا ہے۔
سابق سینیٹر اور مذکورہ الائنس کے بانی حمید اللہ جان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چند ارکانِ پارلیمان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ فاٹا میں بسنے والے ایک کروڑ لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا:146146 قانون سازوں کو آئینی ترامیم پیش کرنے سے قبل مختلف حلقوں سے مشاورت کرنے کے علاوہ علاقے کے عوام اور خاص طور پر عمائدین کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے تھے کیوں کہ یہ اس دھرتی کی ثقافت کا لازمی جزو ہے جس سے یہ مشکل حل ہوجاتی کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے یااسے ایک الگ صوبہ بنایا جائے۔145145
آئین کے آرٹیکل 247کی شق سات اختلاف کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس شق کے مطابق قبائلی علاقے سپریم کورٹ اور نہ ہی ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
خیبرپختونخوا الاسی تحریک کے روحِ رواں ڈاکٹر سید عالم محسود اس بل کو ایک اہم اقدام قرار دیتے ہیں جسے سبوتاژ نہیں کیا جانا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ فاٹا کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے آئینی اصلاحات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا:146146 اگر مسئلۂ کشمیر کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے تو فاٹا کے مسائل کے حل میں بھی عوام کی منشا و رضامندی شامل ہونی چاہیے۔145145
فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن کامران آفریدی کوئی بھی اقدام کرنے سے قبل بڑے پیمانے پر ہم آہنگی پیدا کرنے کے حق میں ہیں۔ وہ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ اگر ضرورت پڑتی ہے تو اس کے لیے ریفرنڈم بھی کروایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا:146146 سب سے پہلے تو یہ اقدام کرنے کی ضرورت ہے کہ فاٹا کے عوام میں اس حوالے سے شعور پیدا کیا جائے جس کے بعد اس کا خیبرپختونخوا کے ساتھ الحاق کے حوالے سے کوئی اقدام کیا جائے۔145145
پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت مجوزہ بل کی حمایت کرتی ہے اور فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ الحاق کی خواہاں ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت قبائلی عوام کے خیبرپختونخوا کے ساتھ الحاق کے فیصلے کا احترام کرے گی۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ فاٹا کے عوام کی مرضی کے بغیر ان پرزبردستی ایسا کوئی فیصلہ نہیں ٹھونسا جانا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ انہوں نے نوشہرہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے قانونی نظام کو ختم کردیا جائے۔
باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر ہدایت اللہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چند عناصر ، جو فاٹا میں امن و امان کے قیام کے خواہاں نہیں ہیں، وہ اسے آئینی حقوق دینے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:146146 ہم اس حوالے سے ایک صحت مند مکالمے کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ اگر وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 247 میں ترمیم کرنے پر تیار ہے توفاٹا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں آجائے گا اور یہ اس خطے کے لوگوں کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here