لاہور: فرٹیلیٹی مراکز کی نگرانی کے لیے اب تک کوئی قانونی میکانزم تشکیل نہیں دیا گیا

0
2300
: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai
: Photo By News Lens Pakistan /

لاہور ( ثمر محمود سے) صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں فرٹیلیٹی مراکز قائم ہوچکے ہیں جو قانونی نگرانی نہ ہونے کے باعث کامیابی کے ساتھ اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔
یہ تصور کامیاب رہا ہے کہ ایک مرد بھی بچے کو جنم دے سکتا ہے اور اپنی نسل آگے بڑھا سکتا ہے جس کے لیے جوڑوں کے جینز کی ایک دوسرے میں منتقلی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن بہت سی اوربالخصوص حیاتیاتی وجوہات کی بنا پر بدقسمتی سے یہ طریقۂ کار ہمیشہ کامیاب نہیں رہتا۔ چناں چہ ان حالات میں یہ فرٹیلیٹی مراکز ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب بڑھتے ہیں۔اخبارات و جرائد میں معصوم بچوں کے ڈاکٹروں اور عطائیوں کے ساتھ پرکشش اشتہارات شایع کیے جاتے ہیں جن میں بے اولاد جوڑوں کی مدد کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ لیکن صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا اور ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مقامی کیبل آپریٹرز کی مدد سے الیکٹرانک میڈیا پر بھی ایسے اشتہارات چلانے سے گریزنہیں کیا جاتا۔
مذکورہ جدید ترین مراکز کے علاوہ جادو ٹونے اور تعویذ دھاگہ کرنے والوں کی بھی ایک الگ دنیا قائم ہے جومرد وارث کی پیدائش کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد عامل اخبارات میں مستقل بنیادوں پر اشتہارات دیتے ہیں۔ ان عاملوں کا رُخ وہ جوڑے کرتے ہیں جو مالی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اورفرٹیلیٹی مراکز کے غیر اسلامی طبی طریقۂ کار کے تحت علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کچھ جوڑوں کے لیے اس وقت انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں جب وہ ان نام نہاد عاملوں کی بات مان لیتے ہیں۔
پاکستان میں اولین آئی وی ایف(ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچے کی پیدائش ) مرکز 1980ء کی دہائی میں ڈاکٹر رشید لطیف خان نے لاہور میں قائم کیا۔ وہ پاکستان کے اولین ڈاکٹر تھے جنہوں نے 1989ء میں پاکستان میں پہلی بار ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کیا۔
جب امید کی کرن روشن ہوئی تو آئی وی ایف مراکز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسی شرح سے مریض بھی بڑھتے چلے گئے جو یہ جدید طریقۂ علاج اختیار کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ پاکستان میں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اب تک پیدا ہونے والے بچوں کے کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ ہزار بچے آئی وی ایف کے ذریعے پیدا ہوچکے ہیں۔
نامور گائناکالوجسٹ، بانجھ پن کے ابتدائی ماہرین میں سے ایک، آئی وی ایف، آئی سی ایس آئی کنسلٹنٹ اور پاکستان میں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے پہلا بچہ پیدا کرنے والی اولین ٹیم کے رُکن ڈاکٹر ثاقب صدیق ، جومڈ سٹی ہسپتال میں جدید سہولیات سے آراستہ فرٹیلیٹی مرکز اور آئی وی ایف کلینک چلارہے ہیں، نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی وی ایف مراکز بے اولاد جوڑوں کوامید کی ایک کرن دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آئی وی ایف کے تحت علاج کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی ہے اور اس حوالے سے بہت سی غلط فہمیاںدور ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا اندازہ ان مراکز پر آنے والے مریضوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی فرٹیلیٹی کے موضوع اور اس سے متعلق آگاہی پر بات کر رہا ہو تو دو نکات کو پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو دو فکری گروہوں میںمنقسم کرتے ہیں… اولذکر گروہ آگاہ ہے کہ بانجھ پن کا علاج موجود ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو علاج کے بارے میں تو آگاہ ہے لیکن اخلاقیات اورمذہبی مباحث میں الجھا ہوا ہے۔ موخرالذکر فکری گروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ بانجھ پن کا علاج کروانا غیر اسلامی ہے۔ وہ اپنے نظریات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں اور اس حوالے سے کچھ بھی سننا نہیں چاہتے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ناخواندگی، اسلامی فتاویٰ کے بارے میں آگاہی نہ ہونا اور دیہی پسِ منظر وہ بنیادی رکاوٹیں ہیں جن کے باعث عوام کی آئی وی ایف مراکز کے بارے میں رائے منفی ہے۔ مذہبی علماء کا آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے کردار انتہائی اہم ہے۔ جب بانجھ پن کے علاج کی بات ہوتی ہے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں ان جوڑوں کا مستقبل ہوتاہے ۔شادی شدہ جوڑے ہمارے پاس اولاد کی خواہش لے کر آتے ہیں لیکن ان کو خاندان کے بڑوں یا پھر والدین کی جانب سے بانجھ پن کا علاج کروانے سے منع کر دیا جاتا ہے ۔ کچھ ان کی بات مان لیتے ہیں‘ کچھ اولاد کے حصول کی خواہش پورا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ اب بھی ایک Tabooہے جس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پروفیسر ثاقب نے ایک اہم مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی درحقیقت درست نام نہیں ہے اور 19ویں صدی میں تخلیق کیے گئے آلڈس ہکسلے کے ناول The Brave New Worldسے اخذ کیا گیا ہے ۔ وہ ناول میں لکھتے ہیں کہ ایک بچے کی نو برس تک ٹیوب میں پرورش ہوتی ہے جسے پیدائش کے بعد حیاتیاتی والدین کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جوڑے کے نطفے اور تخم کے نمونے حاصل کرکے ان کو آپس میں ملانے کا عمل آئی وی ایف سے متعلق ہے۔ لیکن نو ماہ تک بچے کی ٹیوب میں پرورش ممکن نہیں ہے‘ اگرچہ جدید دنیا میں اس حوالے سے کوششیں ہوچکی ہیںجو ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں آئی وی ایف کے تصور کو بڑے پیمانے پر غلط طور پر اخذ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک معاونتی تولیدی ٹیکنالوجی ہے جو خواتین کے حاملہ ہونے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سادہ الفاظ میں عورت کے جسم سے تخم نکال کر لیبارٹری میں اس پر مختلف تجربات کیے جاتے ہیں اور بعدازاں اسے بچہ دانی میں واپس رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعدیہ خدا کی رضا ہے کہ اولاد پیدا ہوتی ہے یا نہیں۔
پروفیسرثاقب نے کہا کہ آئی وی ایف کی حوصلہ شکنی کرنے والے لوگوں کے اذہان میں سب سے بڑی غلط فہمی ولدیت کا مسئلہ ہے۔اس عمل میںکسی غیر مرد کا نطفہ عورت کے تخم کے ساتھ ملانے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ نطفہ عطیہ کرنے یا کسی دوسری عورت کی جگہ بچہ جنم دینے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ اس بارے میں لوگ ادراک نہیں رکھتے ہیں۔ لوگ متبادل کی تلاش میں چکر لگاتے ہیں لیکن ان طریقوں کے غیر اسلامی ہونے کے باعث پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے پیدا ہونے والے بچے کی صنف کے چنائو کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم یہ خدمات ان جوڑوں کو فراہم کرتے ہیں جن کی تین یا چار بیٹیاں ہوں۔ ہم کچھ اقدار اور قواعد پر عمل کرتے ہیں۔ ہم ایساان جوڑوں کے لیے نہیں کرتے جواپنی پہلی اولادکے طور پر ہی بیٹا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ فرٹیلیٹی مراکز کی قانونی نگرانی نہیں کی جارہی۔ حکومت ان مراکز کو قانون کے دائرہ کار میں لانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کی طرح کے ایک بڑے شہر میں کم از کم 50فرٹیلیٹی مراکز ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے انفراسٹرکچر پر چوں کہ بہت زیادہ لاگت آتی ہے جس کے باعث لاہور میں اس وقت صرف پانچ مراکز کام کر رہے ہیں جن کی نگرانی ماہرین کر رہے ہیں اور جدیدترین سہولیات سے آراستہ ہونے کے علاوہ عملہ بھی مہارت کا حامل ہے۔
پروفیسر ثاقب، جو آئی وی ایف سوسائٹی کی سائنٹفک کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں آئی وی ایف کے تحت علاج دیگر ممالک کی نسبت کم قیمت ہے۔ پاکستان میں دبئی کی نسبت ایک تہائی کم قیمت پر ہوجاتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں بھی انتہائی مہنگا ہے۔ پاکستان میں آئی وی ایف کے علاج کا خرچہ تقریباً تین لاکھ روپے ہے جو اب بھی بہت سے متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کے لیے ایک بڑی رقم ہے۔
گائناکالوجسٹ ڈاکٹر عائشہ خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک ترقی پسند دین ہے اور 1980ء کی دہائی کے اوائل میں مصر کی الازہر یونیورسٹی نے فتویٰ جاری کیا کہ بے اولاد جوڑے، جو قانونی طور پر شادی شدہ ہوں، آئی وی ایف کا مذکورہ علاج کروا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ ہم اسلامی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے علاج کر رہے ہیں۔ اس سارے عمل کے دوران کوئی غیر فرد شامل نہیں ہوتااور تخم و نطفہ شادی شدہ جوڑوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ آئی وی ایف کاایک اور تصور جس میں ایک عورت اپنی بچہ دانی حمل کے لیے پیش کرتی ہے، اور تخم کا عطیہ کرتی ہے ،غیر اسلامی ہے اور اسلامی ملکوں میں اس پر پابندی عاید ہے۔‘‘
ڈاکٹر عائشہ خان نے اس نقطۂ نظر سے اتفا ق کیا کہ فرٹیلیٹی مراکز ایک کامیاب کاروبار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرٹیلیٹی مراکز کی تعداد بڑھ رہی ہے جو خوش آئنداَمر ہے لیکن یہ باعثِ تشویش بھی ہے کیوں کہ ان فرٹیلیٹی مراکز کے دعوئوں کو جانچنے کے لیے کوئی قانونی میکانزم موجود نہیں ہے۔
انہوں نے آئی وی ایف سے متعلق غلط فہمیوں کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کی کمی اور آگاہی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں آئی وی ایف کا علاج متنازعہ ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ تشویش ناک امر جس کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے، وہ کسی نامحرم مرد یا خاتون کے نطفے یا تخم کے اختلاط کے متعلق ہے جس کی کوئی بنیادنہیں ہے کیوں کہ ملک میں ایسا کوئی ڈونر سسٹم نہیں ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے مختلف شرائط کے تحت ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کرنے کی اجازت دی ہے۔ مزیدبرآں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام میں صنف کا تعین کرنے کی ممانعت ہے اور ایسا صرف شریعت کی حدود میں رہ کر کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے رُکن اور پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے وضاحت کی کہ آئی وی ایف صرف اسی صورت میں جائز ہے جب نطفہ اور تخم شادی شدہ جوڑے سے ہی تعلق رکھتے ہوں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ یہ ایک جدت ہے اور اسے اسلام کی جانب سے متعین کی گئی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی کیا جائے تو اس صورت میں اس میں کوئی برائی نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ خواتین کی جانب سے کسی دوسری عورت کی بچہ دانی یا تخم یا پھر کسی غیر مرد کا نطفہ استعمال کرنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔
انہوں نے صنف کے انتخاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل اس عمل کے خلاف نہیں ہے لیکن ایسے کسی بھی عمل کی لازمی طور پر حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
مولانا طاہر محمود اشرفی نے مزید کہا:’’ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں سے تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور اگر ایسا کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے تو یہ نیک شگون نہیں ہوگا۔ یہ منطق بے بنیاد ہے کہ آئی وی ایف کے تحت صنف کا انتخاب اسقاطِ حمل کی طرح نہیںہے۔ ہمارے معاشرے میں کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے گھر بیٹی کا جنم ہو اور اگر آئی وی ایف کی وجہ سے صنف کے انتخاب کا تصور فروغ پاتا ہے تو یہ بچیوں کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوگا۔‘‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ میڈیکل کمیونٹی کو اخلاقی طور پر اس اَمر پر غور کرنا چاہئے اور صرف معاشی فوائد کو ہی پیشِ نظر نہ رکھا جائے۔
2012ء میں انٹرنیشنل کمیٹی فار مانیٹرنگ اسسٹڈ ری پروڈکٹیو ٹیکنالوجیز (ICMART) کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آئی وی ایف اور علاج کی اسی نوعیت کی دیگر اقسام کے بعد سے دنیا بھر میں 50لاکھ بچے پیدا ہوچکے ہیں ۔ تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے جوڑے سماجی و معاشی وجوہات کی وجہ سے یہ علاج نہیں کرواسکے۔‘‘
ایک خاتون ثنا نے لاہور کے ایک بہترین ادارے سے آئی وی ایف کا علاج کروایا ‘ انہوں نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئی وی ایف کی اپنی واحد کوشش میں کامیاب نہیں ہوپائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آئی وی ایف کا علاج کروانے سے قبل بھی اپنا علاج کرواتی رہی ہیں لیکن ان کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی پر اس کا الزام نہیں دھرتیں لیکن یہ سوچتی ہیں کہ اگر وہ برطانیہ یا امریکہ میں ہوتیں تو شاید حاملہ ہوجاتیں۔
بیرون ملک سے پاکستان کا رُخ کرنے والی مریم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے ایک یکسر مختلف کہانی سنائی۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ شادی کے پانچ برس بعد بھی حاملہ نہیں ہوئیں توانہوں نے بیرون ملک جو ٹیسٹ اورعلاج کروایا‘ وہ خاصا مہنگا تھا چناں چہ انہوں نے ان امکانات پر غور شروع کر دیا جن پر خرچ زیادہ نہ آئے۔ اس وقت مریم نے بالآخر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا جہاں آئی وی ایف کا علاج نسبتاً سستا تھا۔ اس ملک نے مجھے بچے کی نعمت سے نوازاہے اور یوں ایک ’’ماں‘‘کے طور پر میری شناخت بحال ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے کامیاب علاج کے باوجود پاکستان میں خاندان کی تقریبات میں اس حوالے سے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی وی ایف اب تک ایک ایسا موضوع خیال کیا جاتا ہے جس پر بات کرنا تک ممنوع ہے‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اور ان کے خاوند نے اس حوالے سے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مریم نے مزید کہا:’’ میری ساس بسااوقات ایک رشتہ دار کے بچے کا مذاق اڑاتی ہیں جو آئی وی ایف کے علاج کے بعد پیدا ہوا۔‘‘
ایک تحقیقی مقالے بعنوان ’’ پاکستانی خواتین میں ثانوی بانجھ پن کے دوران خطرات‘‘ کے مطابق بنیادی ( جب جوڑابچے سے محروم رہے) اور ثانوی بانجھ پن( ایک بار حاملہ ہونے کے بعدایک برس تک حاملہ نہ ہونا) کی شرح بالترتیب تقریباً پانچ اور 18 جب کہ عالمی سطح پر یہ شرح10سے 15فی صد تک ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here