ء2005 کے ہولناک زلزلے کے 10برس مکمل‘ بحالی کا کام اب بھی ادھورا ہے

0
1436

مظفرآباد (سمیرا علی سے)اکتوبر2005ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے 10برس مکمل ہوچکے ہیں‘ لیکن شکستہ حال تعمیرات حکومت کے بلند و بالا دعوئوں کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں جس نے قبل ازیںمتاثرہ علاقوں کی مکمل بحالی کا وعدہ کیا تھا۔
زمین تھرتھرائی تو عمارتیں لرزنے لگیں‘ لوگوں کی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی چیخ و پکار کی گونج ہوا کے دوش پر دور تک سنائی دی کیوں کہ اس سے قبل ریکٹر سکیل پر 7.6کی شدت کا زلزلہ کبھی نہیں آیا تھا جس نے مظفر آباد، بالاکوٹ ، آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ یہ ہولناک زلزلہ اب بھی نہ صرف متاثرین کے لیے بلکہ ملک کے دیگر صوبوں جیسا کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں ہے۔
ہزاروں سکول جہاں کبھی بچوں کی ایک بڑی تعداد یونیفارم زیبِ تن کیے پڑھا کرتی ‘اب ان کی حالتِ زار پریشان کن صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہے جب کہ حکومت مذکورہ سکولوں کی ازسرِنو تعمیر کا کام سست روی سے کر رہی ہے۔
تعلیم کے شعبہ میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کی حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 5742سکول تباہ ہوئے جن میں سے 2747آزاد کشمیر اور 2995خیبرپختونخوا میں تھے۔
الف اعلان کے ایک رُکن ڈاکٹر جواد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور کہا: ’’ آزاد کشمیر میں 1244اور خیبرپختونخوا میں اب تک صرف2256سکول ہی تعمیر کیے جاسکے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ 10برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اب بھی آزاد کشمیر میں 1503اور خیبرپختونخوا میں 739سکول تعمیر کیے جار ہے ہیں۔ ڈاکٹر جواد کا مزید کہنا تھا:’’آزاد کشمیر میں 794اور خیبرپختونخوا میں 496سکولوںکی تعمیر اب تک شروع ہی نہیں ہوئی۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس تباہ کن زلزلے میں 18ہزار بچے اور 853اساتذہ جاں بحق ہوگئے تھے۔
2011ء میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں 2005ء کے زلزلے کے بعد متاثرہونے والے انفراسٹرکچر کی ازسرِنوتعمیر اورشہریوں کی بحالی کے منصوبوں میں سنجیدہ نوعیت کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
تاہم زلزلہ زدہ علاقوں میں تعمیرِنو اور بحالی کے لیے کام کرنے والے ادارے (ایرا) کی ترجمان شازیہ حارث نے حکومت کی غفلت اور بدانتظامی کے تمام دعوئوں کو رَد کیا۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کر تے ہوئے کہا کہ زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقوں کا جغرافیائی محل و وقوع اور ناموافق موسمی حالات کے علاوہ خراب راستوں کے باعث سکولوں کی تعمیرِ نو میں تاخیر ہوئی ۔
انہوں نے مزید کہا:’’ جی بالکل! تاخیر ہوئی ہے اور دو ہزار سکولوں کو ازسرِ نو تعمیر کیا جانا ہے لیکن ہم اورہماری پارٹنر آگنائزیشن یواین ہیبیٹیٹ(UN Habitat) صرف پانچ ماہ تک ہی کام کرسکتے ہیں کیوں کہ بقیہ تمام مہینوں کے دوران شدید ترین برفباری، لینڈ سلائیڈنگ اور ناقابلِ برداشت موسم کے باعث رابطوں کے تمام ذرائع بند ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
ایرا کی ترجمان نے فنڈز کے اجراء کے بارے میں بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ بحالی کے منصوبوں کو مکمل کرنے میں معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے جس کے باعث یہ رسست روی کا شکار ہوگئے ہیں۔ شازیہ سعید نے مزید کہا:’’ تاہم نقل مکانی کرنے والے تمام 35لاکھ متاثرین اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں جنہیں ایرا کے تکنیکی عملے نے ڈیزائن کیا ہے۔‘‘
حکومت و غیر سرکاری تنظیموں کا بحالی کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنا اپنا نقطٔ نظر ہے ۔ سب سے آزادانہ اور غیر متعصب بیان محمد نذیر گل نے دیا جواس المیے میں زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگرچہ 10برس بیت چکے ہیں لیکن ہم ہنوز اس تباہی کے بعد خود کو گرفت میں لے لینے والے خوف سے نجات حاصل نہیں کرپائے۔ عارضی گھروں، تباہ حال تعمیرات اور جابجا بکھرے ملبے کے ڈھیر کے باعث یہ المیہ ذہنوں سے محو نہیں ہوسکا۔‘‘
محمد نذیر گل نے اگرچہ تسلیم کیا کہ مرمت اور غیر ملکی امدادی اداروں کی جانب سے بحالی کا کام جاری ہے لیکن اگر تباہی کی شدت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو ’’اب تک بہت تھوڑا کام ہواہے جب کہ اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔‘‘
 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here