شاہراہ ریشم 2.0: سیاحت کے فروغ کے لیے پی ٹی ڈی سی کچھ کرنے سے قاصر

0
2056

گلگت (سمیر حسیب سے) وزیرشاہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے پاکستان اور چین کے درمیان بننے والی نئی شاہراہ پر ٹریفک کو تیزرفتاری کے ساتھ آتے جاتے دیکھ رہے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم افسانوی اور قدیم گزرگاہ شاہراہِ ریشم کا حصہ ہے جس نے مشرق اور مغرب یعنی وسطی ایشیائ، انڈیا، ایران اور چین کی بحیرۂ روم تک رسائی ممکن بنائی ‘ یہ سڑکوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تھا جس کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارت اور ثقافتی روایات آپس میں خلط ملط ہوئیں۔ سہ پہر کے سورج کی سوندھی کرنوں میں کوئی بھی زمانۂ قدیم کی اس افسانوی سڑک کے روبرو سرنڈرکرسکتا ہے جس پر ہمہ وقت تاجروں اور بھکشوئوں کے قافلے ریشم، مصالحہ جات اور مذہبی فلسفے ماورائی شہر ژناڈو سے لاتے اور لے جاتے۔
تجارت اور سیاحت کا یہ تناظر، جس سے حاصل ہونے والی خوش حالی، ایک بار پھر 46ارب ڈالر کے پاک چین کاریڈور (سی پی ای سی)کی صورت میں عیاں ہوئی ہے ۔ شاہراہِ ریشم، پاک چین اقتصادی راہداری اور اس سے متصل سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کے نیٹ ورک کا ورژن 2.0نہ صرف تجارت کے فروغ کے لیے اہم ہوگا بلکہ سیاح بھی دل کو چھو لینے والے مناظر کی سیاحت کے لیے گلگت ، بلتستان کا رُخ کریں گے۔ یا جیسا کہ وزیرشاہ امید کرتے ہیں۔ لیکن کیا وہ اور ان کے ہوٹل، جہاں پر وہ ملازمت کرتے ہیں،نے 21ویں صدی کی شاہراہِ ریشم کی بحالی کے بعدکے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالا ہے؟ کیا زبیر شاہ اور گلگت میں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین، ملک کے ایک روشن ویژن اور صنعتی وبرسرِاقتدار اشرافیہ کے استقبال کے لیے آنے والے دنوں میں پرجوش انداز سے کام کرنے کے لیے تیار ہیں؟
زبیر شاہ کا خیال اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ ادارہ حکمرانوں کے رحم و کرم پر رہا ہے جنہوں نے اس کا غلط استعمال کیا اور ان کی اس روش میں تبدیلی نہیں آئے گی۔‘‘انہوں نے سکیورٹی وجوہات کے باعث اپنا اصل نام ظاہر نہیں کیا۔
زبیر شاہ گلگت کے رہائشی ہیںاور گزشتہ 15برسوں سے پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ منسلک ہیں جس کے تحت اس وقت پاکستان بھر میں 35ہوٹل و موٹل اور چار ریستوران منتظم کیے جا رہے ہیں جن میں سے بیش تر اگرچہ دور دراز علاقوں میں قائم ہیںلیکن یہ مقامات سیاحت کے اعتبار سے بہترین ہیں۔ صرف گلگت بلتستان میں 10موٹل منتظم کیے جارہے ہیں جن سے 60مستقل ملازمین منسلک ہیں۔
ایک وقت تھا جب پی ٹی ڈی سی ملک کے سیاحتی پروگرام کی شناخت تھی، یہ کچھ پرانے ضرور تھے لیکن آرام دہ رہائش کے لیے موزوں تھے ‘ حقیقت تو کچھ یوں ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے متعدد وجوہات کی بنا پر ان کی بہتری اور تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ وزیرشاہ نے کہا کہ لیکن ان میں سے جو بڑے ہوٹل تھے تو ان کو منتظم کرنے اور چلانے کے حوالے سے سیاسی اثر ورسوخ میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا جب کہ گزشتہ 15برسوں سے جاری شورش نے بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان پیپلز پارٹی کا گزشتہ دورِ حکومت بدترین تھا۔ اس نے ادارے کی ساکھ اور ڈھانچے کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدِ اقتدار میں بیش تر ہوٹل بند رہے کیوں کہ عملے کو تنخواہوںکی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔ سابق منیجنگ ڈائریکٹر شاہجہان کیتھران کے دور میں اپنوں کو نوازنے کے لیے بہت زیادہ بھرتیاں کی گئیں۔ امن و امان کے حالات بھی پی ٹی ڈی سی کے زوال کی ایک اہم وجہ ثابت ہوئے۔‘‘
صابر شاہ نے کہا کہ عملے کی اضافی بھرتی کے باعث کارپوریشن کے معاشی وسائل محدود ہوگئے جو کئی مہینوں تک تنخواہوں کی ادائیگی میں ناکام رہی۔ میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے سیاسی بنیادوں پربھرتی کیے گئے عملے کے باعث بھی پی ٹی ڈی سی کے ریزارٹ زوال کا شکار ہوئے جو کبھی ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کا اولین انتخاب ہوا کرتے تھے۔
میڈیا میں آنے والی خبروںکے مطابق اپریل 2015ء میں سابق ایم ڈی شاہجہان کھیتران کو سات سو ملازمین غیر قانونی طورپر بھرتی کرنے اور اختیارات کے غلط استعمال پرگرفتار کرلیا گیا۔
ادارے کی ناقص کارکردگی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے باعث حکام کارپوریشن کی نجکاری کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ تاہم ماضی میں پی ٹی ڈی سی کے موٹلز کی نجکاری کے تجربے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کا امکان زیادہ نہیں ہے۔ 1998ء میں تین بڑے ہوٹلوں لاہور کے’’ فلیٹیز‘‘، پشاور کے’’ ڈینز‘‘ اور مری کے ’’سیسل‘‘ کی نجکاری کی گئی۔پی ٹی ڈی سی کے ان تمام ہوٹلوں میں شیئرز تھے۔
صابر شاہ، جن کی کارپوریشن کے ساتھ طویل وابستگی کے باعث اعلیٰ مینجمنٹ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، نے کہا:’’ معاملات پیچیدہ ہیں لیکن میں آگاہ ہوں کہ پی ٹی ڈی سی کی نجکاری کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔‘‘
صابر شاہ اور دیگر ملازمین جنہیں باقاعدگی سے تنخواہ ادا کی جارہی ہے‘ کہتے ہیںکہ اگرچہ ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہے لیکن گلگت بلتستان میں قائم موٹلز کی کارکردگی بہتر ہے اور رواں برس یہ سیاحوں سے کھچا کھچ بھرے رہے جس کے باعث تنخواہوں کی ادائیگی کا معاملہ حل کرنے میں مدد ملی۔
تاہم پی ٹی ڈی سی اور اس کے موٹلز کا مستقبل اب بھی غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں قائم تمام موٹلزکا انتظام صوبائی حکومتوں نے سنبھالنا تھا لیکن وفاق پی ٹی ڈی سی پر اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کے باعث یہ معاملہ اب تک حل طلب ہے۔
پی ٹی ڈی سی کے ایک سینئر اہل کار، جو راولپنڈی میںتعینات ہیں، کے مطابق وفاق کی صوبوں اور خاص طور پر خیبرپختونخوا کے ساتھ سرد جنگ جاری ہے جو صوبوں میں پی ٹی ڈی سی کے زیرِانتظام جائیدادوں کا کنٹرول سنبھالنا چاہتی ہے۔ ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا:’’پی ٹی ڈی سی کے انتظامی امور حاصل کرنے کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان سرد جنگ جاری ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب ختم ہوگی، تاہم وفاق اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے جس کے بارے میں متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا جاچکا ہے۔‘‘
گلگت میں اہل کار یہ کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی ڈی سی کا انتظام صوبوں کے حوالے کر دیا جائے تو موٹلز ایک بار پھر عوام میں مقبول ہوسکتے ہیں۔ اسسٹنٹ ٹورازم افسر عمران اللہ بیگ کہتے ہیں:’’ میں یہ تجویز دوں گاکہ پی ٹی ڈی سی کے موٹلز کا انتظام صوبوں کے سپرد کر دیا جائے۔‘‘ وہ گزشتہ ایک دہائی سے پی ٹی ڈی سی سے منسلک ہیں اور مختلف ریزارٹس میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
عمران اللہ بیگ نے تجویز پیش کی کہ گلگت ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرز پر ایک نگران ادارہ قائم کیا جائے جو سیاحت سے متعلق تمام معاملات کو منتظم کرے۔ انہوں نے کہا:’’حکومت کے تعاون سے چلنے والی ٹرانسپورٹ سروس نیٹکو (NATCO)کا انتظام بھی اتھارٹی کو سنبھال لینا چاہیے تاکہ سیاحوں کوبہتر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ نیٹکو اور پی ٹی ڈی سی کے لیے الگ الگ تجربہ کار اور پیشہ ورانہ ڈائریکٹروں کی خدمات حاصل کی جائیں اور وسائل کو منتظم کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے مشکل حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
عمران اللہ بیگ نے کہا:’’ اس وقت ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے کیوں کہ جب ہم کوئی کمرہ کرایے پر دیتے ہیں تو سیاحوں کے گروپ یا خاندان کے سربراہ کی تفصیلات ریکارڈ میں درج کرلیتے ہیں جب کہ دیگر افراد کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں کی جاتیں۔ پی ٹی ڈی سی کا عملہ تربیت یافتہ ہے اور اس کے ہوٹل پہاڑی علاقوں میں قدرتی مناظر سے مالامال مقامات پر قائم ہیں۔ پی ٹی ڈی سی کے پاس اس وقت موجود تمام وسائل کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک پُرجوش ٹیم اور سیاسی عزم کارپوریشن کا مستقبل تبدیل کرسکتا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here