خیبرپختونخوا میں جعلی ادویات کی فروخت کا دھندہ عروج پر، سالانہ ہزاروں افراد جان کی بازی ہارنے لگے

0
2059
Drugs
Photo by NewsLens Pakistan

پشاور (وصال یوسف زئی سے) ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس تقریباً 10لاکھ افراد جعلی ادویات کے استعمال کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان میں اموات کی شرح بلند ترین ہے۔ 2012ء میں پاکستان میں صرف ایک واقعہ میں 120مریض امراضِ قلب کی جعلی ادویات کے استعمال کے باعث جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ انکشاف کسی اور نے نہیں بلکہ سابق وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے 2010ء میں کیا تھا جب انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی تقریباً50فی صد ادویات جعلی اور غیر معیاری ہیں۔
پاکستان نے جعلی ادویات کے کاروبار میں ملوث بلیک مارکیٹ کا کھوج لگانے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بھی قائم کر رکھی ہے۔
پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن سے دستیاب ہونے والے اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً چار ہزار فارمیسیوں کو لائسنس جاری کیے گئے ہیں جب کہ ایک لاکھ میڈیکل سٹور ایسے ہیں جہاں پر غیر قانونی طور پر یہ ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں کمیونیکیشن کے شعبہ کی سابق سربراہ ڈاکٹر شبانہ حیدر کہتی ہیں کہ ایک فارمیسی اور جنرل سٹور کے درمیان واضح فرق ہے کہ فارمیسی پر ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ادویات فروخت کرنا ممنوع ہے جب کہ میڈیکل سٹوروں پر مختلف ادویات جیسا کہ وٹامنز ، نان سٹیروئیڈل مانع سوزش ادویات ( این ایس اے آئی ڈی) ، آگ سے متاثرہ زخموں کے علاج ، درد سے نجات اور بخار کی ادویات فروخت کی جاسکتی ہیں۔ این ایس اے آئی ڈ ی کے علاوہ میڈیکل سٹوروں کو کسی اور قسم کی ادویات فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ فارمیسی اور میڈیکل سٹور میں ایک مماثلت تو یہ شرط ہے کہ دونوں ہی کوالیفائیڈ فارماسسٹ کے بغیر ادویات فروخت نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر شبانہ حیدر نے مزید کہا کہ پاکستان کا معاملہ انتہائی غیرمعمولی ہے جہاں ایک بڑی تعداد میں میڈیکل سٹوروں کو کام کرنے کی کھلی چھوٹ دی جاچکی ہے جب کہ ترقی یافتہ ملکوں میں قطعاً ایسا نہیں ہوتا۔ انہوں نے اس خیال کا اظہاربھی کیا کہ پاکستان میں فارمیسیاں ماہرین اور سرٹیفائیڈ فارماسسٹ نہیں چلا رہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’اگر ہم قوانین کی بات کریں توایک ڈاکٹر تک کو فارمیسی کھولنے کی اجازت نہیں ہے، یہ حق صرف فارماسسٹ کو ہی حاصل ہے جس کی تربیت ادویات فراہم کرنے کے لیے ہوئی ہوتی ہے۔‘‘
پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر کی طرح پشاور میں موجود مافیا بھی لوگوں کے جیون کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی نے خیبرپختونخوا ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2015ء منظور کیا تھا اور اس کانوٹیفیکیشن 13مارچ 2015ء کو جاری کیا گیا۔ اس ایکٹ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ طبی شعبے کو مرکزی دھارے میں لایا جائے اور لوگوں کو مؤثر اور اعلیٰ معیار کی خدمات فراہم کی جائیں۔
ایچ سی سی اب ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی (ایچ آر اے) کی مہ داریاں ادا کرے گا۔ موخرالذکر ادارہ 2002ء میں قائم کیا گیاتھا جس کے مقاصد میں یہ تمام نکات شامل تھے لیکن قوانین و ضوابط نہ ہونے کے باعث یہ مناسب انداز سے کام کرنے سے قاصر رہا۔
سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر محمد ظفر، جو ایچ سی سی قانون کے تحت تشکیل پانے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رُکن بھی ہیں، نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایچ سی سی ایکٹ 2015ء کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قانون و ضابطے تشکیل دیے گئے ہیںجو مختلف ڈاکٹروں اور کلینکوں کے کام کے دائرہ کار کا تعین کریں گے اور اگر کوئی خلاف ورزی کی جاتی ہے توذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔ جعلی ادویات فروخت کرنے اور عطائی ڈاکٹروں کی زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ایچ سی سی اپنا کام پولیس اور ضلعی حکومت کی مکمل معاونت کے ساتھ کرے گی تاکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجاسکے۔‘‘
 نیوز لینز پاکستان کو ایچ سی سی سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ایچ سی سی کی جانب سے ضلعی حکومتوں کو نوٹیفیکیشن کے ذریعے یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ایسے طبی مراکز کے خلاف کارروائی کریں جو قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس کے بعد اپریل 2015ء کے بعد سے اب تک تقریباً740مختلف طبی مراکز سِیل کیے جاچکے ہیں جن میں لیبارٹریاں، سرکاری ہسپتال، ڈینٹل کلینک اور ہسپتال شامل ہیں جو نیم حکیم چلا رہے تھے جب کہ ایک بڑی تعداد میڈیکل سٹوروں کی بھی تھی جہاں تربیت یافتہ فارماسسٹ خدمات انجام نہیں دے رہے تھے۔
ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر پشاور الطاف حسین نے 8ستمبر 2015ء کو نمک منڈی میں ایک ہول سیل ڈیلر کے پیکیجنگ یونٹ پر چھاپا مارا اور ایک لاکھ جعلی ادویات برآمد کیں۔ اسی ماہ پشاور کے دو ڈیپارٹمنٹل سٹوروں سے نامردی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی 290غیر رجسٹرڈ ادویات قبضے میں لی گئیں۔
 خیبرپختونخوا کے چیف ڈرگ انسپکٹر سردار افراسیاب نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بھر میں صرف 30ڈرگ انسپکٹر ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں قائم میڈیکل سٹوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت لازمی طور پر مزید ڈرگ انسپکٹر بھرتی کرے کیوں کہ وسائل کی کمی اور امن و امان کے حالات درست نہ ہونے کے باعث صورتِ حال مزید خراب ہوگئی ہے۔
خیبرپختونخوا کی ڈرگ انسپکشن ٹیم نے جنوری سے جولائی 2015ء کے دوران تقریباً8,960میڈیکل سٹوروں پر چھاپے مارے جن میں سے 344سیِل کیے گئے جب کہ 15افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔
پاکستان فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے صدر احسان اللہ نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں فارماسسٹوں کی کمی ہے جس کے باعث شعبۂ صحت مشکلات کا شکار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا کے مختلف تعلیمی اداروں سے ہر برس ایک ہزار فارماسسٹ فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی خدمات حاصل نہیں کی جاتیں جس کے باعث ہزاروں افراد جعلی ادویات کے مضر اثرات کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں جن کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں تقریباً 10ہزار میڈیکل سٹور کام کر رہے ہیں جنہوں نے کوالیفائیڈ فارماسسٹوں کی خدمات حاصل نہیں کیں۔
احسان اللہ کا کہنا تھا:’’ گزشتہ برس لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ایک خاتون جعلی انجکشن لگنے کے باعث وفات پاگئی تھی۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here