لاہور ( دردانہ نجم سے) مختلف مذاہب کے سکالرز کہتے ہیں کہ مذہبی رہنماء گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کرکے عام آدمی کے رویے میں تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں لیکن وہ اپنی اخلاقی و مذہبی ذمہ داری پورا کرنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کررہے۔
نیوز لینز نے مختلف مذاہب کے نمائندوں سے یہ جاننے کے لیے بات کی کہ وہ دنیا کو’’موسمیاتی تبدیلی‘‘کی صورت میں درپیش اہم ترین مسئلے کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا نہیں۔
ڈائسز آف رائیونڈ چرچ سے منسلک ایولین آر بھجن کہتی ہیں:’’ مقدس تورات اپنے پیروکاروں پر یہ پابندی عاید کرتی ہے کہ وہ زمین اور اس کے وسائل کے تحفظ کے لیے کام کریں۔ مقدس تورات کے باب اول کے مطابق خدا ئے بزرگ و برتر نے زمین اور انسان بنائے، جو یکتا ہے اور ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے لیکن اسے منتظم کاکردار بھی سونپا گیا ہے۔ ذاتی معاشی مفاد کے لیے زمین کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ ’’زمین پر بالا دستی سے قطعٔ نظر پیروکاروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کردار ادا کریں۔‘‘ (باب1:28-30)
انہوں نے کہا کہ پاکستانی چرچ نے اس حوالے سے سنجیدگی سے کام نہیں کیا اورنہ ہی عوام سے کوئی تعلق قائم کیا ہے۔ مذہبی رہنمائوں کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو آگاہ کریں کہ ان کی زندگیاں اور سرگرمیاں کس طرح ماحول پر اثرانداز ہورہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہبی رہنما بہت زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہے اور ان کو کوئی بھی مثال قائم کرنے سے قبل یہ تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے۔ باعثِ افسوس امر تو یہ ہے کہ روحانیت پر زور دیا جاتا ہے اور اس پہلوپر بہت کم بات کی جاتی ہے کہ زمین پر زندگی کس طرح گزاری جائے۔
یونیورسٹی آف دی پنجاب سے منسلک اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ انسان ہی زمین کا ماحول تباہ کریں گے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے قرآن کی مذکورہ آیت کی تلاوت کی۔
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔‘‘ (سورۃ الروم30:41)
اُن سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا واعظین ماحول میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کررہے ہیں؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ ہمارے مذہبی رہنماء خود کو معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے سماجی مسائل سے الگ کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر حماد لکھوی نے کہا کہ انہوں نے خود کو مسجد تک محدود کرلیا ہے اور مسجد یامدرسے کی حدود سے باہر جو کچھ ہورہا ہے، اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
آل پاکستان ہندوریلیجئس موومنٹ کے سربراہ ہارون سراب دیال نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوازم میں صراحت سے سبزہ اُگانے اور اس کے کائنات پر اثرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شری کرشن نے اپنے پیروکاری کو گوردھن پروت کی پوجا کرنے کی ہدایت کی تھی جو بنیادی طور پر پہاڑوں پر لہلہاتا ایک جنگل ہے، اس پوجا کا مقصد سبزے کے لیے احترام پیدا کرنا ہے۔تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ہندوئوں کے مذہبی رہنماء ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کررہے۔
ہارون سراب دیال نے مزید کہا :’’ہماری مذہبی کتابوں ویدوں میں نہ صرف درخت اُگانے بلکہ اگر کوئی کاٹا جاتا ہے تو اس کی جگہ نیا لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ہم تک موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے علم بین الاقوامی تنظیموں کے محققین کی وساطت سے پہنچا ہے، مذہبی گروہوں یا علما نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہندو سکالرز دنیا میںہونے والی ترقی سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کا موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے علم بنیادی نوعیت کا ہے۔
پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلیجئس اینڈ سکھ ازم کے نمائندے چرن جیت سنگھ نے بھی سکھوں کے مذہبی رہنمائوں کے کردار پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا:’’ ہم نے بڑے اور خوب صورت گوردوارے تعمیر کرنے پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں لیکن جب ماحول کو محفوظ بنانے کی بات ہو تو جمالیاتی و معاشی اعتبار سے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ گورو گرنتھ صاحب میں واضح طور پر فطرت اور اس کے تحفظ کے بارے میں بات کی گئی ہے اور سکھ مذہب کے پیروکاروں کو دنیا کو صاف اور غلط سرگرمیوں سے پاک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے لیکن ہمارے مذہبی رہنمائوں نے ان تعلیمات پرعمل نہیں کیا۔‘‘
پاکستان 2011ء میں اس وقت موسمی تبدیلی کے مہلک اثرات سے متاثر ہوا تھا جب ملک کا تقریباً نصف حصہ بدترین سیلاب کے باعث پانی میں ڈوب گیا تھا۔ گزشتہ برس کراچی میں گرمی کی لہر کے باعث 12سو افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران مون سون کی غیر مستقل بارشوں اور موسم کے باعث پاکستان میں زراعت کا شعبہ بدترین طور پر متاثر ہوا ہے۔ جرمنی کے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے جرمن واچ انڈیکس کے مطابق 2010ء کے سیلاب کے باعث ملکی جی ڈی پی میں چھ فی صد کمی آئی تھی۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان( ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان) نے لندن سکول آف اکنامکس و سیاسیات اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے تعاون سے موسمی تبدیلی کے زراعت اور فوڈ سکیورٹی پر اثرات کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس کے مطابق 2040ء تک ملک بھر میں اوسط درجۂ حراست میں 0.5ڈگری اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا جس سے ملک میں پیدا ہونے والی تمام فصلوں کی پیداوار آٹھ سے 10فی صد کم ہوگی اور یوں فی ایکڑ 30ہزار روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here