کوئٹہ (حزب اللہ خان سے) کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے شائقین نے کہا ہے کہ 29مارچ کو کوئٹہ میں ہونے والے ایک ہفتے پر محیط کھیلوں کے فیسٹیول کا اختتام ہوا جونہ صرف ایک ایسی سرگرمی تھی جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی بلکہ یہ بلوچستان کے مسائل سے توجہ ہٹانے کا باعث بھی بنی لیکن اس میں وہ کھیل شامل نہیں تھے جو مقامی بلوچ اور پشتون آبادی کی ثقافت کے نمائندہ ہوتے۔
ایک تماشائی احسن خان نے کہا:’’ بلوچستان کے ثقافتی کھیلوں میں بزکشی، کشتی، چائوک، گھڑدور اور نشانہ بازی شامل ہیں لیکن محکمۂ کھیل نے ان کھیلوں کو گزشتہ تین برس سے اس فیسٹیول میں شامل نہیں کیا۔ اگر ان کھیلوں کو بھی فیسٹیول میں شامل کیا جائے تولوگ اس میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث ہمارے ثقافتی کھیل دم توڑ رہے ہیں جنہیں فروغ دینے کے لیے طویل سفر طے کرنا ہوگا۔‘‘
اگرچہ کھیلوں کے سالانہ مقابلوں جیسا کہ بلوچستان سپورٹس فیسٹیول کا کھیلوں اور مقابلے کی فضا کے فروغ میں انتہائی اہم کردار ہے لیکن کھیلوں کو سماج کے ایک انتہائی اہم جزو کے طور پر ترقی دینے کی ضرورت ہے اور بلوچستان کے تناظر میں ایسا کرنا خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے جہاں گزشتہ کئی برسوں سے جاری عسکریت پسندی کے باعث لوگ زندگی کے رنگوں اور امید سے محروم ہوچکے ہیں۔
کوئٹہ میں ہونے والا کھیلوں کا یہ فیسٹیول کبھی سالانہ بنیادوں پر ہوا کرتا تھا لیکن برسوں تک جاری رہنے والی عسکریت پسندکارروائیوں کے باعث اس کا انعقاد تاخیر کا شکار ہوگیا ، عسکریت پسندی کی اس لہر میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب اکبر خان بگٹی جان کی بازی ہار ہوئے۔وہ 2006ء میں ہونے والے فوجی آپریشن میں ہلاک ہوئے تھے۔
احسن خان کہتے ہیں:’’ ایک جانب تو لوگ دہشت گردی کے واقعات کے باعث ذہنی دبائو اور پریشانی کا شکار ہیں تو دوسری جانب لوگوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کے لیے کھیلوں کے میدان ہیں اورنہ ہی مقابلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔وہ معاشرے جہاں کھیلوں کے میدان قائم ہیں اور لوگوں کی زندگی میں کھیل ایک روزمرہ سرگرمی کا درجہ رکھتے ہیں،لوگ ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند ہیں۔ایسے معاشروں کے افراد زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث ریاست اور معاشرے کو فیسٹیولز سے کچھ بڑھ کرکرنے اور کھیلوں کو نہ صرف ثقافت کا ایک جزو بنانے بلکہ کھلاڑیوں کو مقابلے کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت بھی ہے۔
احسن خان نے مزید کہا:’’ان فیسٹیولز کو ثقافت کا حقیقی نمائندہ بناکر اور قومی سطح پر ترقی دے کر معاشی فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔‘‘
گزشتہ تین برسوں سے صوبائی حکومت، پاکستانی فوج کے تعاون سے مارچ کے ماہ میں کھیلوں کے فیسٹیول کا انعقاد کر رہی ہے جس کا آغاز موسمِ بہارکے پہلے دن یانوروز کو ہوتا ہے۔رواں برس اس فیسٹیول کا انعقاد 22سے 29مارچ تک کیا گیا جس میں 2,700کھلاڑیوں نے29مختلف کھیلوں میں حصہ لیا۔
بلوچستان کے ایڈیشنل سیکرٹری کھیل نذر محمد کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے بلوچستان سپورٹس فیسٹیول کے انعقاد پر 134ملین روپے خرچ کیے ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ کھلاڑیوں کی سپورٹس فیسٹیول میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے اور ان کو سہولیات پہنچانے کے لیے حکومت نے ان کے اعزازیے کو 10ہزار روپے سے بڑھا کر 50ہزار روپے کر دیا۔‘‘
نذر محمد نے کہا کہ صوبے کی مختلف ڈویژنز میں کھیلوں کے فیسٹیولز کے انعقاد کا مقصد صحت مند سرگرمیوں کا فروغ اور لوگوں کو تفریح فراہم کرنا تھا۔
انہوں نے کہا:’کھیلوں کے اس’ فیسٹیول میں شامِ موسیقی بھی شامل تھی جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکاروں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اوربلوچستان کے عوام کو لطف اندوز کیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ فیسٹیول میں حصہ لینے والی ٹیموں کو ضلعی سطح پر کھیلوں کے مختلف ٹورنامنٹس کے بعد میرٹ کی بنیاد پر منتخب کیا گیا تھا۔ نذر محمد کا کہنا تھا:’’صرف وہ ٹیمیں ہی سپورٹس فیسٹیول میں حصہ لے سکتی ہیں جنہوں نے ڈویژن کی سطح پر فائنل تک رسائی حاصل کی ہو۔‘‘
فیسٹیول میں 29 مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوئے جن میں فٹ بال، کرکٹ، ہاکی، سائیکل سواری، شطرنج ، سکواش، باکسنگ، بیڈمنٹن اور دیگر شامل تھے۔
تاہم فیسٹیول میں حصہ لینے والے متعدد کھلاڑی یہ خیال کرتے ہیں کہ سیاسی مداخلت کے سبب کھلاڑیوں کے انتخاب کا عمل متاثر ہوا جس کے باعث بہت سے باصلاحیت کھلاڑی درست طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا سکے۔
مسلم باغ کی ضلعی فٹ بال ٹیم کے رُکن بایزیدخان کہتے ہیں:’’ فیسٹیول کے لیے صرف وہ کھلاڑی ہی منتخب ہوئے جوسیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کرپشن ختم کرے اور ہر ڈویژن میں ایک غیر جانب دار کمیٹی کھلاڑیوں کا انتخاب کرے۔ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ صرف ان کھلاڑیوں کا انتخاب کرے جو اس کے اہل ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسے صوبے میں جہاں غربت کی شرح انتہائی بلند ہے، صرف وہ کھلاڑی ہی کھیلوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو مالی وسائل رکھتے ہوں جن میں سازو سامان، تربیت اور کھیلوں کی مقامی تنظیم کی رُکنیت شامل ہے۔
بایزید خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت کھلاڑی غربت کے باعث کھیلوں میں حصہ نہیں لے سکتے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے کھلاڑیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے ان کی سرپرستی کرے تاکہ ان کو غربت کی اس دلدل سے نکالا جاسکے۔‘‘
مزید برآں 27سو کھلاڑیوں اور 29سے زائد کھیلوں کے لیے ایک میدان ہونے کے باعث بھی تمام کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرپاتے کیوں کہ مختلف کھیلوں کے لیے مختصر وقت مختص کیا جاتا ہے۔بایزید خان نے کہا:’’ ایوب سٹیڈیم (کوئٹہ میں) میں کھیلوں کے چار بڑے میدان ہیں ‘ حکومت کو چاہیے کہ وہ مختلف مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے لیے ایوب سٹیڈیم کو کھولے تاکہ ہر کوئی ان کھیلوں میں حصہ لینے کے علاوہ لطف اندوز ہوسکے۔‘‘
لیکن طاہر مندوخیل جیسے تماشائی کے لیے اس فیسٹیول کا مطلب صحت مند سرگرمیوں اور مقابلوں سے بڑھ کربھی کچھ ہے۔ یہ ایک ایسے صوبے میں امن و امان اور حالات معمول پر آنے کے احساس کو اجاگر کرتا ہے جہاں لوگ طویل عرصہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ ہم حکومتِ بلوچستان کی جانب سے اس شاندار فیسٹیول کے انعقاد پر اس کے شکر گزارہیں۔ موسمِ بہار جب شروع ہوتا ہے تو پڑوسی ممالک جیسا کہ ایران، افغانستان، انڈیا اور ترکی میں نوروز کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ فیسٹیول کا انعقاد درست وقت پر کیا جاتا ہے اور ہم ایک خوب صورت موسم میں مختلف کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘‘
طاہر مندوخیل کے مطابق صرف کھیلوں کی سرگرمیوںمیں ہی مختلف مسالک، مذاہب، ثقافتوں اور نسلوں کے لوگوں کو یکجا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اگر ہم کھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں کو قیامِ امن ، خوش حالی اور ترقی کے لیے استعمال کریں تو اس سے سماج میں حقیقی معنوں میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ کھیلوں میں سماجی گروہوں کو مضبوط کرنے، خوشیوں کو تقسیم کرنے اور لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جب کہ کھلاڑیوں کے سماجی پس منظر سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایسے نوجوان جو مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں، وہ منفی سرگرمیوں جیسا کہ جرائم اور منشیات سے بچ سکتے ہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here