لنڈی کوتل، خیبرایجنسی: رخسانہ سلطان خیبر ایجنسی کے ضلع لنڈی کوتل میں قائم لڑکیوں کے واحد سکول سے منسلک استانی ہیں، یہ ضلع پاک افغان سرحد سے متصل ہے۔

بدامنی کے شکار قبائلی خطے میں رخسانہ سلطان نے ایک ایسے پیشے اور تدریس کے لیے ان موضوعات کا انتخاب کیا ہے جوعموماً مردوں کے لیے مخصوص ہیں، خاص طور پر جب آپ یہ پیشِ نظر رکھیں کہ وہ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں کام کرتی ہیں جہاں خواتین گھروں سے شاذو نادر ہی باہر نکلتی ہیں، ملازمت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

رخسانہ سلطان فزیکل ایجوکیشن کی انسٹرکٹر ہیں۔ وہ جب لڑکیوں کو فزیکل ایجوکیشن کی تربیت دینے میں مصروف نہیں ہوتیں  تو کمرۂ جماعت میں تدریس کے فرائض انجام دیتی ہیں اور طالبات کے ساتھ کھیلوں کی مختلف سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جسمانی ورزشیں اور کھیل لڑکیوں میں اعتماد پیدا کرتے ہیں جس سے ان کی مردوں کے تسلط کے حامل قبائلی سماج میں آگے بڑھنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے کیوں کہ یہ ایک ایساخطہ ہے جہاں لڑکیوں کے لیے گھر سے باہر نکل کر مختلف شعبوں میں اپنا مقام بنانے کے حوالے سے بہت زیادہ مواقع موجود نہیں ہیں۔

رخسانہ سلطان کہتی ہیں:’’میں نے ایک ایسے پیشے کا انتخاب کیا جس پر مردوں کی اجارہ داری ہے کیوں کہ میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ عورتوں کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ مثال کے طورپر خواتین کھیلوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ میری طالبات صرف کرکٹ یا فٹ بال ہی نہیں کھیلتیں بلکہ لانگ جمپ، ہائی جمپ سمیت مختلف انڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔‘‘

قبائلی سماج میں رخسانہ سلطان کی طرح کی خواتین کے لیے پیشہ ورانہ امور انجام دینا انتہائی مشکل ہے کیوں کہ یہ ایک رجعت پسند معاشرہ ہے جہاں خواتین کے کام کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، حتیٰ کہ والدین تو یہ چاہتے ہیں کہ سکولوں میں ان کی بچیوں کو صرف خواتین اساتذہ ہی پڑھائیں۔ گزشتہ 15 برس سے زائد عرصہ کے دوران خطے میں جاری شورش میں بہت سے سکولوں کو بم دھماکوں میں تباہ کر دیا گیا جس کے باعث شہریوں کے لیے جانی تحفظ اولین ترجیح کے طور پر ابھرا۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ قبائلی علاقوں کے باہر سے تعلق رکھنے والی خواتین اب خیبر ایجنسی میں ملازمت نہیں کرتیں جس کے باعث خواتین پروفیشنلز کی دستیابی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔

فاٹا ریسرچ سنٹر سے منسلک محققہ نائلہ امان خان کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’فاٹا میں خواتین کی سماجی، معاشی و سیاسی حیثیت:عسکریت پسندی کا فروغ اور رجحان‘‘ میں لکھتی ہیں:’’قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مقامی طور پر تربیت یافتہ اور کوالیفائیڈ اساتذہ دستیاب نہیں ہیں۔‘‘ اس رپورٹ میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ’’کوالیفائیڈ خواتین اساتذہ کے نہ ہونے کے باعث فاٹا میں لڑکیوں کے سکولوں کو مؤثر انداز سے چلانا ممکن نہیں ہے۔ روایتی طور پر فاٹا میں چند مقامی خواتین اساتذہ ہی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہی ہیں کیوں کہ فاٹا میں قائم لڑکیوں کے سکولوں سے منسلک خواتین اساتذہ کی اکثریت قبائلی ایجنسیوں سے منسلک خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم سکیورٹی کے حالات درست نہ ہونے کے باعث بہت سی خواتین اساتذہ نے فاٹا آنا بند کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کچھ خواتین اساتذہ کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔‘‘

مقامی خواتین کے ملازمتیں اختیار نہ کرنے کے باعث قبائلی علاقوں میں آباد اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شعبہ تدریس کا انتخاب کیا ہے کیوں کہ وہ نسلی طور پر قبائلی پشتون نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ مقامی سماج میں رچ بس چکی ہیں،  مقامی روایات پر عمل کرتی ہیں اور پردہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں لیکن قبائلی علاقے کی ان مذہبی اقلیتوں نے خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے اپنا جدت پسند تاثر برقرار رکھا ہے ۔ مقامی مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی 35 برس کی یاسمین آرا بھی ایک ایسی ہی استانی ہیں۔

یاسمین آراء خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل میں پیدا ہوئیں، انہوں نے لڑکیوں کے ایک مقامی سکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ پرائمری ٹیچنگ کورس (پی ٹی سی) بھی کیا کیوں کہ مقامی سطح پر اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ 2007ء میں یاسمین آرا نے لنڈی کوتل میں ہی قائم گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول اشک خیل میں پرائمری کی استانی کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔ 

انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم نے رجعت پسند پشتون سماج میں کبھی خود کو اقلیت تصور نہیں کیا کیوں کہ مقامی آبادی ہمارے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آتی ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث قریباً 60 فی صد مسیحی خواتین نے لڑکیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے شعبۂ تعلیم کا انتخاب کیا ہے۔‘‘

اسسٹنٹ ایجنسی ایجوکیشن آفیسر حیدر علی آفریدی کہتے ہیں کہ لنڈی کوتل میں لڑکیوں کے 55 سکول قائم ہیں جن میں ایک ہائر سیکنڈری اور چار سرکاری مڈل سکول شامل ہیں۔ ان سکولوں میں 20 ہزار سے زائد لڑکیاں زیرِ تعلیم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کو ہر سکول میں تین اساتذہ کی ضرورت ہے لیکن کوالیفائیڈ خواتین اساتذہ کے نہ ہونے کے باعث وہ ان سکولوں میں تدریس کے لیے مسیحی خواتین بھرتی کرتے ہیں۔

حیدرعلی آفریدی نے مزید کہا:’’اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین اساتذہ پوری ذمہ داری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’پرائمری اور ہائر سیکنڈری سکولوں میں اب بھی خواتین اساتذہ کی بہت سی آسامیاں خالی ہیں۔ خواتین کی ملازمتوں کے حوالے سے عائد ثقافتی بندشیں اب ختم  ہو رہی ہیں اور امید ہے، آنے والے چند برسوں کے دوران ہم خواتین اساتذہ کی کمی کا سامنا نہیں کر رہے ہوں گے۔‘‘

مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک اور استانی کائنات اینڈریاز کہتی ہیں کہ انہوں نے شعبۂ تدریس کا انتخاب اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس پیشے کا انتخاب اپنے والدین کی مدد کرنے کے لیے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ تدریس ایک قابلِ احترام پیشہ ہے لیکن وہ نرس بننا چاہتی تھیں۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’میں میڈیکل فیلڈ میں جانا چاہتی تھی لیکن میرے والدین نے مجھ سے کہا کہ میں شعبۂ تدریس کا انتخاب کروں۔ شعبۂ تدریس کے  علاوہ میرے سامنے کوئی اور انتخاب نہیں تھا کیوں کہ فاٹا میں خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ میں اب اپنی ملازمت سے خوش ہوں اور مسلمان اور اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو یہ کہتی ہوں کہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے شعبۂ تدریس کا انتخاب کریں۔‘‘

کرن ایڈون نے حال ہی میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مکمل کی ہے، وہ لنڈی کوتل کے ایک نجی سکول میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدین اور بھائی بے روزگار ہیں جس کے باعث وہ یہ ملازمت کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر خواتین کے شعبۂ تدریس کا انتخاب نہ کرنے کے باعث ان کی بہت ساری کزنز سرکاری و نجی سکولوں میں ملازمت کر رہی ہیں۔

لنڈی کوتل میں مسیحی کمیونٹی کے سربراہ ارشد مسیح کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کے مسلمانوں والے نام رکھے ہیں اور وہ پشتو بولتے ہیں جو مقامی آبادی کی زبان ہے۔ تاہم اقلیتی کمیونٹی کے مقامی سماج میں رچ بس جانے اور ملک کے لیے بہت ساری خدمات انجام دینے کے باوجود ان کے ساتھ اب بھی پاکستان میں دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی اور آئینی حقوق کے لیے ایک طویل جدوجہد کے بعد ریاست پاکستان نے اقلیتی کمیونٹی کے ارکان کو ’’بی کیٹیگری‘‘ کا ڈومیسائل جاری کرنا شروع کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’مسیحی اگرچہ پاکستان میں ایک اقلیتی کمیونٹی تصور کیے جاتے ہیں لیکن انہوں نے مختلف اداروں میں خدمات انجام دے کر پاکستان کے لوگوں اور ریاست کی خدمت کی ہے اور اب ہماری ان خدمات کے اعتراف کا وقت آ گیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here