لاہور( دردانہ نجم سے) پنجاب حکومت کی جانب سے خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے منظور ہونے والے ایکٹ2016ء کی مذہبی تنظیموں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے جو یہ تصور کرتی ہیں کہ یہ خواتین کے بہت زیادہ حق میں ہے۔
پاکستان کی سب سے پرانی مذہبی سیاسی پارٹی جماعتِ اسلامی نے 15مارچ کو منگل کے روزلاہور کے علاقے منصورہ میں اپنے ہیڈکوارٹرز میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں اس قانون کی مذمت کی گئی اور حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ قانون خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرتا ہے جس میں نفسیاتی، جنسی اور معاشی طور پر ہراساں کرنابھی شامل ہیں۔یہ قانون خواتین سے چھیڑخانی اور سائبر کرائمز کا احاطہ بھی کرتا ہے۔
اس قانون کے تحت ٹول فری نمبر، شیلٹر ہومز، ضلعی سطح پر حقوقِ نسواں کی کمیٹی اورمراکز کے قیام کے علاوہ ایک جی پی ایس بریسلٹ تیار کیا جاچکا ہے جس کے ذریعے خواتین پر تشدد کے مجرموں کے ٹھکانے اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی جو اس قانون میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق خواتین پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، 2012ء میں اس نوعیت کے واقعات کی تعداد5391تھے جو 2013ء میں 5387تھی،2014ء میں ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہوا اور ان کی تعداد 5967ہوگئی جو 2015ء میں 6505ہوگئی۔ 2015ء میں ان جرائم میں ملوث صرف ایک فی صد مجرموں کو ہی سزا سنائی گئی جن کی مجموعی تعداد 81تھی جب کہ 2012ء میں یہ تعداد 378تھی،2013ء میں 316اور 2014ء میں 211مجرموں کو سزا سنائی گئی۔
مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی جانب سے شدید ترین احتجاج کیا گیا ہے جنہوں نے اس حوالے سے پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات بھی کی اور مولانا کے مطابق وزیراعظم نے اس قانون پر نظرثانی کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’ وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے خواتین پر تشدد کی روک تھام کے قانون 2016ء کے حوالے سے ہمارے تحفظات کو سنا ہے۔ انہوں نے قانون میں ترمیم کا وعدہ کیا ہے تاکہ یہ قرانِ حکیم کی تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔‘‘
پنجاب کے وزیرِقانون رانا ثناء اللہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف خواتین کے تحفظ کے ایکٹ میں ترمیم یا اسے واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ انہوں نے مذہبی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ قانون میں شامل ان نکات کی نشاندہی کریں جو غیراسلامی یا غیر آئینی ہیں۔‘‘
رانا ثناء اللہ نے مزید کہا:’’حکومت کو تاحال مذہبی جماعتوں کی جانب سے کوئی تجاویز موصول نہیں ہوئیں۔ مذہبی جماعتیں طویل عرصہ سے حقوقِ نسواں کے خلاف ہیں حتیٰ کہ اگر اس کا مطلب ان کی تعلیم یا ملازمت کرنا بھی ہو۔ مذہبی جماعتیں قران و سنت کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل، یہ ایک آئینی ادارہ ہے جسے یہ اختیار دیاگیا ہے کہ وہ موجودہ قانون میں اسلامی نکات شامل کرنے کے حوالے سے پارلیمان کو تجاویز دے، نے تحفظِ حقوقِ نسواںکے قانون کی عجیب و غریب انداز میں مذمت کرتے ہوئے اسے دو قومی نظریہ کی روح کے منافی قرار دیا ۔
نیوز لینز پاکستان سے چمبہ ہائوس میں اپنے دورۂ لاہور کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنی نرالی منطق کا دفاع کرتے ہوئے کہا:’’دو قومی نظریہ مسلمانوں کا تشخص غیر مسلموں سے جدا کرتا ہے اور اگر ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان، غیر مسلموں کے راستے پر چلیں جیسا کہ اس قانون کے تحت مقصودہے تو ایسی کسی بھی کوشش کو دو قومی نظریہ کی روح کے منافی خیال کیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ صرف خواتین کے تحفظ کے لیے قانون تشکیل دینے کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ پورے خاندان کے تحفظ کے لیے قانون بنائے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے استدلال پیش کیا کہ یوں خاندان کا ہررُکن اپنے عزیز و اقارب کا احترام کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
انہوں نے اس قانون پر ایک اور اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خاندان کی حرمت پامال ہوگی کیوں کہ یہ خواتین کو گھر چھوڑنے اور اپنے شوہروں یا خاندان کے دیگر ارکان کے بارے میں شکایت کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ آیا پولیس گھریلو تشدد سے خواتین کے تحفظ کے لیے کسی قانون کی عدم موجودگی کی صورت میں ان کی جانب سے درج کروائی جانے والی شکایات کا تدارک کرتی ہے یا نہیں؟ نیوز لینز پاکستان نے پولیس سٹیشن آراے بازار لاہور کینٹ کے ایس ایچ او قمر عباس سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔
انہوں نے کہا:’’ میں نے پولیس کی ملازمت کے 25برس کے دوران ایسی لاتعداد شکایات وصول کی ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ تقریباً 20فی صد مقدمات گھریلو تشدد سے متعلق ہوتے ہیں۔ قابلِ دست اندازی جرم کی صورت میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور ملزموں کو مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جاتا ہے۔ ناقابلِ دست اندازی جرم کی صورت میں ہم مصالحت کروانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ فریقین کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچ جائیں۔‘‘
اگرچہ مذکورہ پولیس افسر اس اَمر کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے کہ یہ نیا قانون کوئی تبدیلی لائے گا، انہوں نے اتفاق کیا کہ وہ خواتین ، جو پولیس سٹیشن کا رُخ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں، ممکن ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد شکایات کے اندراج کے لیے حقوقِ نسواں کے ضلعی مراکز میں جاتے ہوئے تحفظ محفوظ کریں جن کی سربراہی وومن پروٹیکشن افسران کریں گی۔
قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر تابندہ اسلام سے جب نیوز لینز پاکستان نے مذکورہ قانون کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے عمومی تاثر کے بارے میں بات کی تو انہوں نے پرزور انداز میں اس کی نفی کی۔
ان کا کہنا تھا:’’ اسلام خواتین پر تشدد کو روکتا ہے اور اگر سماج میں ایسے جرائم عام ہیں تو مذہبی جماعتوں کو ان کی روک تھام کے لیے قانون کے نفاذ کی مذمت کرنے کی بجائے اسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ایک ایسا شخص جو اپنی بیوی پرتشدد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا،اسے اس قانون کے حوالے سے کسی قسم کی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
قانون دان تابندہ اسلام نے کہا کہ اس قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے جو مردوں یا ’’شوہروں‘‘ کے خلاف ہو جیسا کہ مذہبی تنظیمیں اسے پیش کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
تاہم انہوں نے طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے حوالے سے تشویش کا اظہارکیاخاص طور پر جب ایک عورت کا اپنے شوہر سے جھگڑا ہوتا ہے جو عمومی طور پر انا پرست ہوتا ہے اور عورت کو اپنے سے کم تر خیال کرتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی خواتین کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ قانون اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لیا تھا۔انہوںنے کہا :’’ مذہبی جماعتوں کی جانب سے شور و غوغا پریشان کن ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے غلط طور پر پیش کیا جارہا ہے۔‘‘
پنجاب اسمبلی کی خواتین ارکان پر مشتمل کمیٹی کاحقوقِ نسواں کے تحفظ کے بل کے لیے حمایت حاصل کرنے اور اسے اکثریتی ووٹوں سے منظور کروانے میں اہم ترین کردار رہا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی خواتین ارکان پر مشتمل کمیٹی کی رُکن عظمیٰ بخاری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مذہبی جماعتوں کے دہرے معیار کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا:’’ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے سربراہ رانا ثناء اللہ تھے ، انہوں نے مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کی جنہوں نے اس قانون کی حمایت کرنے پر رضامندی ظاہر کی تاہم اگلے ہی دن منصورہ میں انہوں نے اپنا مؤقف تبدیل کرلیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون پر تنقید سیاسی حربے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here