اسلام آباد:صوبائی پنجاب انفارمیشن کمیشن سرکاری محکموں سے معلومات کے حصول میں درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ایک ایپیلیٹ ادارہ ہے جو تین برس قبل قائم ہوا اور اس عرصہ کے دوران اس نے توقعات سے بڑھ کر چار ہزار شکایات وصول کی ہیں۔حکام نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ادارے نے قریباً 70فی صد شکایات پر درخواست کنندگان کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔

کمیشن کے انفارمیشن چیف مختار احمد علی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم رواں برس کے اوائل تک سرکاری محکموں کی جانب سے تعاون نہ کئے جانے کی قریباً چار ہزار شکایات وصول کرچکے ہیں جن میں سے قریباً 70فی صد پر درخواست گزاران کے حق میں فیصلہ ہوا۔‘‘

انہوں نے مزید کہاکہ معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت ابتدائی طورپر سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون نہ کرنے کی شرح 90فی صد تھی، خاص طورپر صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں سے متعلقہ محکموں میں یہ رجحان زیادہ رہا۔

پنجاب حکومت نے 2013ء میںحکومتی معاملات کو زیادہ شفاف اور قابلِ احتساب بنانے اور عوام کے حقِ آگاہی کو تسلیم کرنے کے لیے پنجاب ٹرانسپیئرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ متعارف کروایاتھا۔

ان قوانین کے تحت عوام سرکاری محکموں سے معلومات اورکسی بھی طرح کا ریکارڈ حاصل کرسکتے ہیں، ان میں صرف وہ معلومات یا ریکارڈزشامل نہیں ہیں جنہیں قومی سکیورٹی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے خفیہ رکھا گیا ہے۔

پنجاب انفارمیشن کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے 2014-15ء میں یہ کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے قیام کے بعد پہلے سال کے دوران 12سوشکایات وصول کیں جو اگلے برس بڑھ کر 1330ہوگئیں۔

مختار احمد علی نے کہا:’’ قانون کے بارے میں آگاہی نہ ہونااور سرکاری محکموں کی جانب سے امور کو خفیہ رکھنا سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون فراہم نہ کئے جانے کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک ہیں۔

دیگر روایتی نوعیت کی وجوہات میں تربیت کا فقدان اور عملے کی کمی بھی شامل ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات محکمے بہت ہی عمومی نوعیت کی معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیتے ہیںجن میں کچھ منصوبوں کے حوالے سے بجٹ کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

ایک صحافی وسیم عباسی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے پنجاب کے متعدد محکموں کے حوالے سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بہت سی درخواستیں جمع کروائی ہیںجن میں سے بیش تر درخواستوں پر اس وقت عمل ہوا جب میں نے انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کروائی۔‘‘

وسیم عباسی نے ایک دلچسپ مثال کا حوالہ دیا، وہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت قریباً دو درجن خبروں پہ کام کرچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے گزشتہ برس پنجاب کے گورنر ہائوس کو وصول ہونے والے تحائف کی تفصیلات جاننے کے لیے درخواست دی جس کا مقصد یہ تھا کہ صوبے کے گورنر کو ایک برس کے دوران ان کے سرکاری عہدے کی بنا پر کتنے تحفے تحائف حاصل ہوئے ہیں لیکن مجھے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا:’’میں نے بعدازاں پنجاب انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کروائی اور گورنر ہائوس کے متعلقہ افسر نے کہا کہ وہ ’’سکیورٹی وجوہات‘‘ کے باعث یہ معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔بعدازاں پنجاب انفارمیشن کمیشن نے متعلقہ افسر کو طلب کرکے معاملے کی سماعت کی اور بالآخر ایک برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد مجھے میری درخواست پر جواب موصول ہوگیا۔‘‘
وسیم عباسی نے یہ مشاہدہ کیاکہ’’ افسرشاہی کی یہ پالیسی رہی ہے کہ سرکاری معاملات عوام سے پوشیدہ رہیں۔ حتیٰ کہ کچھ شکایات میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ درخواست گزاروں کو بجٹ کی عمومی معلومات تک فراہم نہیں کی جاتیں۔‘‘

مختار احمد علی یہ یقین رکھتے ہیں کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن کے افسر معاملات کو خفیہ رکھنے کے اس ماحول میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے اور حقِ آگاہی کو تسلیم کرنے کو ایک جاری رہنے والے عمل کے طورپر دیکھتے ہیں۔

پنجاب انفارمیشن کمیشن کے انفارمیشن کمشنر کا یہ خیال ہے کہ قانون کے تحت شہریوں اور صحافیوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ شکایات کے اندراج سے حالات میں بہتری آئی ہے۔ مذکورہ افسر نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافی اب قانون کو استعمال کررہے ہیں۔

نیوز لینز پاکستان کو پنجاب انفارمیشن کمیشن کے افسران سے یہ معلوم ہوا کہ سرکاری ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے شکایات کی ایک بڑی تعداد صوبائی دارالحکومت اور ایک قلیل تعداد چھوٹے اضلاع میں جمع کروائی گئی ہے۔

گوجرانوالہ ریجن میں محکمۂ تعلیم کے پبلک انفارمیشن افسر طارق جاوید نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’نظام کو بہتر اور زیادہ کارآمد بنانے کے لیے دراصل افسروں اور عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کو یہ عہدہ سنبھالے آٹھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انہوں نے اب تک معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت ایک بھی درخواست وصول نہیں کی۔

ایک سینئر صحافی عمر چیمہ کہتے ہیں کہ اس وقت اس حوالے سے ہونے والی پیشرفتیں ابتدائی مرحلے میں ہیں، وہ خود بھی معلومات تک رسائی کے قانون کی تشکیل کے لیے سرگرم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ افسرِ شاہی معاملات کو خفیہ رکھنے کا رجحان رکھتی ہے جسے ختم کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔ حالات میں بہتری کا انحصار قانون کے درست استعمال پر ہے۔ اگر لوگوں کی بڑی تعداد اس قانون کا استعمال کرتی ہے تو افسرِ شاہی میں معلومات جاری کرنے کا رجحان فروغ پائے گا۔‘‘ عمر چیمہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت درخواستیں جمع کرواتے رہے ہیں۔

قبل ازیں کمیشن اپنی سالانہ رپورٹوں میں سرکاری اداروں کے غیر سنجیدہ رویے کو اس ساری صورتِ حال کی وجہ قرار دے چکا ہے۔ عمر چیمہ نے کہا ، وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن آگاہی کے فروغ کے لیے شکایات اور سرکاری اداروں کے تعاون نہ کرنے کی وجوہات کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کرے۔

’’انہوں نے مزید کہا:’’ افسرِشاہی کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل ہونے پر وقت لگتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ حکومت شفافیت کے تصور پر عمل کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ افسرِ شاہی کی جانب سے اس قانون کو ایک منظم مزاحمت کا سامنا ہے۔ ہم اس ساری صورتِ حال پر صرف اسی وقت قابو پاسکتے ہیں جب ہم انفارمیشن کمیشن یا ایپیلیٹ اداروں کے ذریعے ان شکایات کی فعال انداز سے پیروی کریں۔‘‘

معلومات تک رسائی سے متعلقہ قوانین کے لیے کام کرنے والے ادارے سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹیوز کے پروگرام منیجر زاہد عبداللہ کہتے ہیں کہ عوامی آگاہی کے نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کمیشن کی تشہیر کے لیے کوئی بہت زیادہ بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’حکومتِ پنجاب نے قانون کے نافذ ہونے کے بعد پہلے سال کے دوران تشہیری بجٹ تین کروڑ سے کم کرکے آنے والے برسوں میں اسیصرف10لاکھ کر دیا۔‘‘

زاہد عبداللہ نے مزید کہا کہ پنجاب کے سرکاری اداروں میں معاملات کو خفیہ رکھنے کا رجحان عام ہے اور پبلک انفارمیشن آفیسرز ( پی آئی اوز) کومعلومات کی آزادی کے نئے قوانین کے تحت عوام کے حقوق کے بارے میں تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم پنجاب انفارمیشن کمیشن وسائل کی کمی کا سامنا کر رہا ہے جیساکہ پنجاب حکومت نے اب تک سروس رولز پاس نہیں کئے۔ ادارے کو اس وقت فی الفور عملے کے 43ارکان کی ضرورت ہے تاکہ ادارہ درست طورپر کام کرنے کے قابل ہوپائے۔

زاہد عبداللہ کا کہنا تھا کہ پنجاب ٹرانسپیئرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات کے حصول کے لیے اب تک جمع کروائی جانے والی مجموعی درخواستوں کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ یہ پنجاب انفارمیشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معلومات کو یکجا کرے۔ لیکن وہ ناکافی عملے کے باعث معلومات کے حصول کے لیے جمع کروائی جانے والی درخواستوں پر پیروی کرنے اور سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون کے حصول کے لیے میکانزم تشکیل دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here