پشاور (عطاء اللہ خان) خانزالہ پشاور کے بحالیٔ معذوراں کے مرکز میں گزشتہ چار برسوں سے کرکٹ کھیل رہے ہیں ،وہ اس سے قبل اپنا اولین میچ کھیل کے عام میدان میں کھیلنے کے قابل ہوئے ، وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ’’عام‘‘ کھلاڑیوں کے لیے ایک معمول ہے۔

شراکتی فورم برائے نوجواناں ( وائی پی ایف) کے کوارڈینیٹر محمد رفیق کہتے ہیں:’’خیبرپختونخوا میں خانزالہ کی طرح کے معذور کھلاڑیوں کا المیہ یہ ہے کہ صوبے میں ایسا کوئی پارک یا سٹیڈیم نہیں ہے جہاں وہیل چیئر لے کر جائی جاسکے اور بنیادی ضروریات جیسا کہ بیت الخلا ہوں۔‘‘

خیبرایجنسی، یہ قبائلی ضلع پاک افغان سرحد سے متصل ہے، کے معذور کرکٹر خانزالہ کہتے ہیں کہ وہ ’’کامیابی حاصل‘‘کرنے کے مقصد کے ساتھ جی رہے ہیں۔ وہیل چیئر کے مرہونِ منت اس کھلاڑی نے یہ فکر اس وقت اختیار کی جب انہوں نے اپنی ٹیم پشاور ویئریرز کو رواں برس مئی میںاولین آئوٹ ڈور وہیل چیئر ٹورنامنٹ میں کامیابی دلوائی۔

خانزالہ کہتے ہیں:’’ میں نے آخری میچ کاآخری اوور کرایا، مخالف ٹیم کو کامیابی کے لیے چھ رنز درکار تھے اور اپنی ٹیم کو کامیابی دلوائی۔وہ صرف دو رنز ہی بنا سکے جب کہ میں نے آخری اوور میں دو وکٹیں حاصل کیں اور اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروایا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم کی فتح نے ان کو خوشی سے سرشار کردیا۔ خانزالہ نے کہا:’’ جی بالکل، میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر ہمیں وہیل چیئرز، کھیلوں کے میدان اور دیگر سہولیات فراہم کردی جائیں توہم کسی بھی ٹیم کی طرح بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔‘‘

خانزالہ اور ان کے ساتھی معذور کھلاڑی پشاور ویئریرز سے منسلک ہیں جو خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ سپورٹس کی جانب سے رواں برس مئی میں منعقد کیے جانے والے اولین خیبرپختونخوا وہیل چیئر سپورٹس ٹورنامنٹ میں یہ سہولیات حاصل کرنے کے قابل ہوئے، یہ ٹورنامنٹ Friends of Paraplegic  اور معذور افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کی معذور افراد اور کھیلوں پر کی گئی تحقیق کے مطابق ’’ کھیلوں کی عالمی سطح پر پذیرائی کے باعث سماجی روابط کے فروغ میں ان کا کردار مثالی ہے۔ ایک ہی طرح کی معذوری کا شکار افراد کو یکجا کرنے سے کھیل ان کو معمول کی زندگی پر لاتے ہیں، معذور افراد اپنی معذوری کے حوالے سے تجربات بیان کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور اُن لوگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرتے ہیں جو ان کے چیلنجوں اور اہلیت کو سمجھتے ہیں۔‘‘

مذکورہ تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ دوستانہ روابط قائم کرکے معذور افراد اپنی ذات اور گروہ کی شناخت کے حوالے سے مثبت سوچ تشکیل دیتے ہیں کہ وہ سماج سے الگ نہیں ہیںاور دوسرے لوگوں کی طرح ہی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق:’’ کھیلوں کے ذریعے معذور افراد کے دوستوں اور والدین میں روابط قائم ہوتے ہیں۔ معذور افراد کے والدین اکثر و بیش تر خود کو سماجی طور پر تنہا تصور کرتے ہیں۔ اپنی ہی طرح کے تجربات کے حامل خاندانوں کے ساتھ سماجی روابط ان کو ایک دوسرے کی معاونت کرنے اور اس قابل بناتے ہیں کہ وہ معذور افراد کو یکساں حقوق دلوانے کے لیے مہم چلا سکیں۔‘‘

بحالیٔ معذوراں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیلپ ایج انٹرنیشنل سے منسلک انکلوژن اکائونٹیبلٹی آفیسر کامران خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کھیلوں کی سرگرمیوں جیساکہ پشاور میں آئوٹ ڈور وہیل چیئر کرکٹ ٹورنامنٹ کے انعقاد سے صوبے کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے معذور کھلاڑی کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا:’’ چار مختلف اضلاع کے معذور کرکٹرز اس ایونٹ میں حصہ لینے کے قابل ہوئے کیوں کہ منتظمین صحت مندانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کے ادارے نے دوردراز کے اضلاع جیسا کہ دیر اور بنوں کی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کے مطابق ان کو صوبائی دارالحکومت میں یکجا کرنا ایک خوش کن تجربہ تھا۔ کامران خان نے کہا:’’ اب ہم ان کو یہاں پر یکجا کرچکے ہیں، ہم معذور کھلاڑیوں کی معاونت کرنے اور ان کی قومی پلیٹ فارمز تک رسائی بڑھائے کے حوالے سے کوشاں ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا:’’ میں جب ان کھلاڑیوں کو وہیل چیئر پر مقابلہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یہ معذور افراد کا کھیل دکھائی نہیں دیتا۔ یہ کسی بھی دوسرے کھیل کی طرح پرجوش ہے۔ اگر ہم ان کو ایک دوستانہ ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیںتو اس سے یقینی طور پر ہر شعبۂ زندگی میں ان کی فعال شرکت بڑھے گی۔ وہ ہماری طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘

عرفان خان پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں ،وہ پشاور ویئریرز سے منسلک ہیںاور وہیل چیئر پر کھیلتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وہ چار برس قبل تک نارمل لوگوں کی طرح کرکٹ کھیلا کرتے تھے لیکن ’’ پیشہ ورانہ زندگی میں پہنچنے والے دھچکے کی وجہ سے‘‘فالج کا شکار ہوگئے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ میں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور اس رویے کے باعث ہی میں اپنی ٹیم کو اولین وہیل چیئر کرکٹ ٹورنامنٹ کی ٹائٹل ٹرافی میں فتح دلوانے میں کامیاب رہا۔میں معذور ہونے کے بعد اپنی زندگی میں تبدیلی محسوس کرتا ہوں لیکن ایک ایسا کھیل کھیلنے کے لیے آپ کو جسمانی صحت کے علاوہ عزم و حوصلہ بھی درکار ہوتا ہے۔ کھیلوں کی سرگرمیاں میرے جسم و دماغ کو مضبوط رکھتی ہیں۔‘‘

یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ سوشل ورک کے طالب علم کلیم اللہ، جو ان ٹورنامنٹوں کے دوران معذورکھلاڑیوں کی رضاکارانہ طور پر مدد کرتے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ سماج کی جانب سے معذور افراد کو بہت زیادہ قبول نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا:’’ کھیلوں کے ٹورنامنٹوں سے معذور افرد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان کو اپنی حالت بہتر بنانے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔کھیلوں کے باعث ہی زندگی کے حوالے سے ان کا زاویۂ نگاہ صحت مندانہ ہوجاتا ہے۔ کھیلوں کے ٹورنامنٹوں اور مقابلوں سے ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ سماج کا حصہ ہیں اورجب وہ ہم سب کی طرح کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں تو ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ان کی خواہشات کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘

شراکتی فورم برائے نوجواناں سے منسلک محمد رفیق نے حکومت کی معذور افراد کے حوالے سے بے حسی پر تنقید کی اور کہا :’’ یہ قابلِ افسوس اور غیر ذمہ دارانہ روش ہے کہ لائبریریوں، کافی شاپس، ہاسٹلوں اور حتیٰ کہ امتحانی مراکز کو وہیل چیئر کے لیے قابلِ رسائی نہیں بنایا گیا۔‘‘

انہوں نے کہا:’’ ہم اس حوالے سے قانون پر کام کررہے ہیں تاکہ کھیلوں کے میدانوں کو معذور افراد کے لیے قابلِ رسائی بنایا جاسکے۔ اس وقت چوں کہ کھیلوں کا کوئی موزوں میدان نہیں ہے جس کے باعث پشاور میں ہونے والے وہیل چیئر ٹورنامنٹ میں چار سے زیادہ ٹیمیں شرکت نہیں کرسکتی تھیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here