پشاور: نو برس کی مدینہ شاہ قبائلی علاقے لوئر کرم ایجنسی کے گائوں اچت میں رہتی ہیں۔ انہوں نے پرائمری کے بعد سکول جانا چھوڑ دیا کیوں کہ گائوں میں لڑکیوں کے لیے کوئی مڈل سکول قائم نہیں تھا۔

مدینہ شاہ نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں اپنی جماعت میں پوزیشن ہولڈر تھی لیکن پرائمری کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی تھی کیوں کہ میرے لیے مڈل سکول میں داخلہ لینا ممکن نہیں تھا۔‘‘

گائوں میں کوئی مڈل سکول نہیں ہے جس کے باعث لڑکیوں کو ایک دوسرے گائوں میں قائم مڈل سکول جانا پڑتا ہے۔مدینہ شاہ کہتی ہیں کہ ایسا ان کے اور گائوں کی دیگر لڑکیوں کے والدین کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ قبائلی روایات میں پردے اور غیرت پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس کے باعث خواتین اور لڑکیوں کا گھر اور گائوں سے باہرقدم رکھنا پسند نہیں کیا جاتا۔

علاقے میں درپیش سماجی و ثقافتی رکاوٹوں سے ہٹ کر بات کی جائے تو وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں سکیورٹی خدشات بھی لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں حائل ہورہے ہیں، پاک افغان سرحد سے متصل علاقوں میں عسکریت پسندوں نے حالیہ چند برسوں کے دوران لڑکیوں کے بہت سے سکولوں کو نشانہ بنایا ہے۔

مدینہ شاہ کرم ایجنسی میں رہتی ہیں جس نے حالیہ چند برسوں کے دوران بدترین فرقہ ورانہ کشیدگی کا سامنا کیا ہے جس کے باعث مقامی شیعہ اور سنی آبادی میں تقسیم مزید گہری ہوئی ہے۔

لوئر کرم ایجنسی کے گائوں باگان سے تعلق رکھنے والی12برس کی شریف النساء مڈل کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں کیوں کہ ان کے گائوں میں لڑکیوں کے لیے کوئی ہائی سکول قائم نہیں تھا۔ شریف النساء کہتی ہیں کہ ہائی سکول ان کے گائوں سے بہت دور واقع دیہاتوں میں قائم ہیں۔ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’میرے والدین میرے لیے یہ محفوظ تصور نہیں کرتے کہ میں کسی اور گائوں میں قائم سکول میں تنہا جائوں۔ایسی لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہوں نے سکول دور ہونے کے باعث اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کردیا۔ سدا اور علی زئی میں قائم سرکاری ہائی سکول شیعہ علاقوں میں قائم ہیں۔ والدین اپنی بیٹیوں کو ان سکولوں میں داخل کروانے کے حوالے سے خوفزدہ ہیں جس کی وجہ شیعہ اور سنی فرقوں میں جاری محاذ آرائی ہے۔‘‘

شریف النساء کہتی ہیں کہ حکومت کو ان کے گائوں باگان میں بھی ہائی سکول قائم کرنا چاہئے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم شعور فائونڈیشن فار ایجوکیشن اینڈ اویئرنیس ( ایس ایف ای اے) کی جانب سے2014ء میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق فاٹا کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 36.90لاکھ ہے اور ان میں خواتین کی آبادی 15.20لاکھ ہے۔ خواتین کی آبادی میں سے 14.7فی صد لڑکیوں کی عمریں تین سے 13برس کے درمیان ہیں اور وہ کبھی سکول نہیں گئیں۔ فاٹا کے سکولوں میں داخلوں کا مجموعی تناسب لڑکیوں کے لیے 27اور لڑکوں کے لیے 73فی صد ہے۔ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے:’’لڑکیوں کے پرائمری کے بعد مڈل میں داخلہ لینے کا تناسب 33فی صد سے کم ہوکر 13فی صد رہ گیا ہے جو ملک بھر میں سب سے کم ہے۔‘‘

وسطی کرم ایجنسی کے رہائشی محمد اصغر کہتے ہیں ، ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو سکول بھیج پاتے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ سکول ان کے گائوں سے طویل فاصلے پر واقع ہے۔ انہوں نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’کرم ایجنسی میں لوگوں کے خاندانی تنازعات اور دشمنیاں ہیں جس کے باعث وہ بیٹیوں کو آزادانہ طورپر گھروں سے دور نہیں بھیج سکتے۔‘‘ محمد اصغر نے کہا:’’ ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات اور لڑکیوں کے سکولوں کی سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے باعث بھی لڑکیاں دوسرے دیہاتوں میں قائم سکولوں میں نہیں جاسکتیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ 250کلومیٹر رقبے پر پھیلی وسطی کرم ایجنسی میں لڑکیوں کا کوئی ایک ہائی سکول بھی نہیں ہے، علاقے میں 22پرائمری اور صرف نو مڈل سکول قائم ہیں۔

محمد اصغر نے کہا:’’ یہ سکول ایک دوسرے سے اس قد رفاصلے پر قائم ہیں کہ بہت سے دیہاتوں میں ایک بھی مڈل سکول نہیں ہے جس کے باعث بہت سی لڑکیاں مڈل سکول بھی نہیں جاپاتیں اور سکولوں کے اس قدردور ہونے اور غربت کے باعث والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنا ترک کردیتے ہیں۔‘‘

ایجنسی کے ایڈیشنل ایجوکیشنل افسر اور سینئر سرکاری استاد حاجی معین گل کہتے ہیں کہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی کرم ایجنسی سمیت فاٹا میں کہیں بھی ہائر سیکنڈری سکولوں تک رسائی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’معاشی طورپر خوش حال خاندان اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو مزید تعلیم کے لیے پشاور بھیج دیتے ہیں۔ میں نے بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنی بیٹیوں کو پشاور بھیجا ہے۔ اگر حکومت ہمارے دیہاتوں اور قصبوں میں لڑکیوں کے لیے سکول قائم کردے تو بیشتر لڑکیاں اپنی تعلیم جاری رکھیں گے اور اپنی کمیونٹی کی خدمت کریں گی۔‘‘

حاجی معین گل نے کہا کہ لوئر کرم کے کئی دیہاتوں میں ایک بھی ہائی سکول نہیں ہے جن میں باگان، مندوری، چاپری، اچت، ڈول راگھا، لنہا، پولوسین، پاستاوانا، چنارک اور ماناتو وغیرہ شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا:’’ ان علاقوں میں ہر برس بہت سی لڑکیاں سکولوں کے طویل فاصلے پر ہونے کے باعث تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔‘‘

دستورِ پاکستان کی شق 37کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کو تعلیم کی بلامعاوضہ فراہمی یقینی بنائے۔ فاٹا کے ڈائریکٹوریٹ برائے تعلیم کی سالانہ شماریاتی رپورٹ برائے 2013-14ء میں یہ کہا گیا ہے کہ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ سکول اور گھر کے درمیان فاصلہ 1.5کلومیٹر سے زیادہ نہ ہو۔

باچا خان ایجوکیشن ٹرسٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر خادم حسین کہتے ہیں کہ فاٹا سیکرٹیریٹ کے محکمۂ تعلیم کی اہلیت محدود ہے اور فاٹا میں فروغِ تعلیم کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے جس کی وجہ بری طرزِ حکمرانی ہے۔

انہوں نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’لڑکیوں کے لیے سکولوں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے کیوں کہ وہ زیادہ فاصلے پر ہیں۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث والدین اپنی بیٹیوں کو دوردراز کے سکول بھیجنا محفوظ تصور نہیں کرتے اور ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع کردیتے ہیں۔ یہ فاٹا سیکرٹیریٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقے کی آبادی کے تناسب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سکول قائم کرے۔ اگر کسی گائوں میں بچوں کی تعداد دو سو سے اڑھائی سو ہے تو وہاں ایک پرائمری سکول ہونا چاہئے۔ اگر ایک گائوں میں بچوں کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہو تو وہاں ایک مڈل، ایک سیکنڈری اور ایک ہائی سکول قائم کیا جانا چاہئے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر سکول علاقے کی آبادی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قائم کیے جائیں گے تو گھروں اور سکولوں کے درمیان فاصلہ نہایت کم رہ جائے گا۔ لڑکیاں سکول جانا شروع کردیں گی اور فاٹا کی شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا۔

خادم حسین کا کہنا تھا:’’ان وجوہات کے باعث لڑکیوں کی بڑی تعداد مدارس میں داخل ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ ان کے گھروں کے قریب ہیں اور ان تک ان کی رسائی بھی آسانی کے ساتھ ممکن ہوجاتی ہے۔ مدارس میں بچوں کو بلامعاوضہ تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور طالب علم پڑھنا اور لکھنا سیکھ جاتے ہیں۔‘‘

دریں اثنائ،کرم ایجنسی کی طالبہ مدینہ شاہ نے پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد گائوں کے ایک مدرسے میں جانا شروع کردیا ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’ میں اس وقت غمگین ہوجاتی ہوں جب میںیہ دیکھتی ہوں کہ صاحبِ ثروت خاندانوں سے تعلق رکھنے والی میری سہیلیاں سکول جارہی ہیں اور تعلیم حاصل کررہی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی تعلیم اہم ہے لیکن جدید تعلیم عہدِ حاضر کی ضرورت ہے۔

مدینہ شاہ یہ امید رکھتی ہیں کہ ان کا خاندان کسی اور گائوں منتقل ہوجائے گا جہاںسے سکول زیادہ فاصلے پر واقع نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا:’’مندوری میں ایک مڈل سکول قائم ہے لیکن وہ میرے گائوں اچت سے بہت دور ہے اور میں وہاں اکیلی نہیں جاسکتی کیوں کہ مجھے میرے خاندان کی جانب سے اس کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here