گلگت بلتستان: نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان

0
1701

سکردو: طالب علم اور اساتذہ ان خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں منشیات کی آسانی کے ساتھ دستیابی کے باعث سکول جانے والے بچوں کا منشیات کے عادی ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

اساتذہ اوروالدین کی جانب سے شکایات کے موصول ہونے کے علاوہ نیوزلینز پاکستان نے بھی اپنے طورپر تحقیق کی اور پولیس رپورٹوں سے مدد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ منشیات فروشوں سے بھی معلومات حاصل کی گئیں جن سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صرف سکردو میں17 سے 20 برس کی عمر کے 17 سو سے زائد نوجوان منشیات کے عادی ہو چکے ہیں۔

ایک منشیات فروش نے نیوز لینز پاکستان سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا:’’منشیات استعمال کرنے والوں کی اکثریت جماعت ہفتم اور اس سے بڑی جماعتوں میں زیرِتعلیم ہے۔ قریباً 90 فی صد طالب علم چرس کے عادی ہیں جب کہ 10 فی صد دیگر منشیات جیسا کہ افیون، ہیروئن اور الکوحل وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘

سکردو کے محکمۂ تعلیم کے پاس سکولوں میں زیرِتعلیم منشیات کے عادی بچوں کے حوالے سے کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کیوں کہ اس نوعیت کی معلومات کے باعث سکول کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ان وجوہ کے باعث ہی نجی سکول بھی اس نوعیت کے معاملات کی تفتیش کے حوالے سے تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ وہ ایسا کوئی ریکارڈ بھی مرتب نہیں کرتے جن سے متعلقہ معلومات حاصل ہوں اور مسئلے کی شدت کا تعین کیا جا سکے۔

مقامی سکول سے منسلک ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ اس سے ان کے سکول کی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ہے، کہا، ’’سکولوں کی جانب سے برتی جانے والی اس لاپرواہی کے باعث منشیات استعمال کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو پولیس کے ریکارڈ پر انحصار کرنا پڑتا ہے (اوروہ بھی ایسے معاملات میں جب کوئی طالب علم منشیات استعمال کرتے ہوئے گرفتار ہوجائے۔)

مذکورہ استاد نے کہا کہ خطے کے 40 سے 50 سرکاری سکولوں و کالجوں میں اوسطاً 35 فی صد بچے منشیات کے عادی ہیں۔ نیوز لینز پاکستان نے جب مختلف سکولوں کی انتظامیہ سے استفسار کیا کہ انہوں نے طالب علموں کو منشیات سے دور رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں یا منشیات کے عادی بچوں کے خلاف کیا تادیبی کارروائی کی گئی ہے تو کسی بھی سکول نے واضح مؤقف کا اظہار نہیں کیا۔ تاہم اساتذہ نے کہا کہ بہت سے طالب علموں کو منشیات کے استعمال کے باعث سکول سے نکالا جا چکا ہے۔ 

پولیس ذرائع نے تصدیق کی کہ 2015ء میں منشیات کے عادی 200 نوعمروں کو گرفتارکیا گیا تھا، یہ تعداد 2016ء میں بڑھ کر 1500 ہو گئی۔ سکردو پولیس سٹیشن کی جانب سے موصول ہونے والے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں 24 بڑے منشیات فروش ہیں جو جاگلوٹ اور دیگر شہروں سے منشیات لا کر مقامی علاقوں میں فروخت کرتے ہیں۔

منشیات فروش عموماً پھل و سبزی فروش کا بہروپ دھار لیتے ہیں اور سکولوں کے قریب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ طالب علموں کو منشیات کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ منشیات فروش ایسے بھی ہیں جو طالب علموں کو منشیات کی فروخت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ سکردو پولیس سٹیشن کے مطابق انہوں نے حال ہی میں ایک منشیات فروش کو گرفتار کیا ہے جس کے فون میں سکول جانے والے بچوں کی تصویریں تھیں جو نا صرف چرس استعمال کرتے تھے بلکہ وہ اسے فروخت بھی کرتے تھے۔
ضلع سکردو کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس راجہ مرزا حسن کہتے ہیں کہ پولیس نے منشیات فروخت کرنے والے کسی بھی بچے کے خلاف اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس مستقل بنیادوں پر مشکوک علاقوں میں چھاپے مارتی رہتی ہے لیکن اسے اب تک ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ کسی خاص سکول کے طالب علم منشیات کے عادی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکردو میں پانچ سے چھ مقامات ایسے ہیں جہاں منشیات فروخت کی جاتی ہے لیکن پولیس کے کریک ڈاؤن کے باعث منشیات فروش اپنا ٹھکانہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے ڈائریکٹر تعلیم بابرخان نے کہا کہ’’ ان کو اب تک ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی جس سے یہ ظاہرہو کہ طالب علموں نے سکولوں کی حدود میں منشیات کا استعمال کیا ہو۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ طالب علم سکول کے اوقاتِ کار کے بعد منشیات کا استعمال کرتے ہوں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اگر نیوز لینز پاکستان ایسے سکولوں کی نشاندہی کرتی ہے جہاں طالب علم منشیات کا استعمال کرتے ہیں تو وہ محکمۂ تعلیم کو ان کے ناموں کے بارے میں آگاہ کرے تاکہ متعلقہ سکول کی انتظامیہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے طالب علموں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھ سکے۔

ممنوعہ منشیات استعمال کرنے پر سکول سے بے دخل کیے جانے والے ایک طالب علم نے کہا کہ وہ گزشتہ دو برس سے چرس اور الکوحل کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں منشیات آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’تاہم پولیس کے کریک ڈاؤن کے وقت منشیات کی ترسیل کچھ وقت کے لیے رُک جاتی ہے۔ اس وقت منشیات فروش اور منشیات کے عادی افراد قریبی شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔‘‘ مذکورہ طالب علم نے ان پولیس رپورٹوں سے بھی اتفاق کیا جن میں یہ کہا گیا ہے کہ منشیات فروش اکثر و بیشتر منشیات کے عادی نوجوانوں کو جنسی سرگرمیوں کی جانب راغب کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی منشیات کے استعمال کی عادت اب قریباً ختم ہو چکی ہے۔

ڈسٹرکٹ انسپکٹر سکولز سکردو غلام محمد حیدری نے کہا کہ ان کو سکولوں میں ممنوعہ منشیات کے استعمال کے بارے میں اب تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ جب ایک سماج میں منشیات آسانی کے ساتھ دستیاب ہوں تو طالب علموں کا ان کا عادی ہونا بعید از قیاس نہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’لیکن اس وقت کسی بھی تعلیمی ادارے کی حدود میں ایسی کوئی سرگرمی انجام نہیں دی جا رہی۔‘‘

سینئر ماہر تعلیم محمد حسن حسرت نے کہا کہ جب نوعمر اور بالخصوص نوجوان بڑے پیمانے پر منشیات استعمال کرنے لگیں تو سماج کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’گلگت بلتستان کے طالب علموں میں منشیات کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان پریشان کن ہے اور اس کا فوری طور پر تدارک کیا جانا چاہئے۔‘‘

سکردو کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال سے منسلک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر شاہدہ کہتی ہیں کہ غربت اور سماجی محرومیاں وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث طالب علم منشیات استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک بچہ ایسے بالغوں کے درمیان رہتا ہے جو منشیات یا الکوحل استعمال کرتے ہیں تو اس سے اس بچے کے منشیات استعمال کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہدہ کہتی ہیں:’’منشیات استعمال کرنے والے بچوں یا نوجوانوں کی اکثریٹ انتہائی حساس ہوتی ہے ۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ سخت برتاؤ کرنے کی بجائے ان کی ضروریات کے بارے میں آگاہ ہونا چاہئے اور وہ ان کے لیے ایک معاون کا کردار ادا کریں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here