لاہور( دردانہ نجم سے) صدرِ پاکستان نے گزشتہ دنوں قوم سے درخواست کی کہ وہ رواں برس14فروری کو ویلن ٹائن ڈے نہ منائیں کیوں کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند ماہ قبل ہی صدرِ مملکت نے علما سے سود کو قانون کے دائرہ کار میں لانے کے لیے کہا تھا تاکہ ملک میں بہتر کاروباری ماحول تشکیل دیا جاسکے۔ اسلام میں سود حرام ہے۔
پبلک پالیسی کے ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ صدرِ مملکت کی جانب سے اس نوعیت کے متضاد بیانات دیے جانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی قیادت اسلامی قوانین و اقدار پر مبنی پالیسیوں کے ضمن میں تذبذب کا شکار ہے اور ویلن ٹائن ڈے، بسنت یا یوٹیوب پر پابندی کا معاملہ ہو تو مذہبی عناصر کی منشا کے مقابل بے بس دکھائی دیتی ہے۔
ویلن ٹائن ڈے منانے پر نہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بلکہ خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ میں بھی پابندی عاید کی گئی۔
اسلام آباد کی حکومت نے ویلن ٹائن ڈے پر پابندی کی خبروں کو بعدازاں جھوٹ پر مبنی قرار دے ڈالا۔
تاہم کوہاٹ کی ضلعی حکومت نے پابندی پر عملدرآمد کروانے کے لیے پولیس کو نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ کوہاٹ کی ضلعی حکومت جماعتِ اسلامی کی ہے جو پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے۔
اگر چہ آبادی کی اکثریت حکومت کے نقطۂ نظر سے متفق تھی اور اس نے ویلن ٹائن ڈے منانے سے گریز کیا لیکن بہت سوں نے اس پابندی کو ریاست کی ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے ناپسند کیا اور محبتوں کے اس دن کی خوشیاں بھرپور انداز سے منائیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ شہریوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی کرے۔ یہ فیصلہ ریاست نہیں کرے گی کہ لوگ ویلن ٹائن ڈے منائیں گے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بسنت اور پھر ویلن ٹائن ڈے پر پابندی عاید کرکے انتہا پسند عناصر کی طاقت میں اضافہ کر رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ درحقیقت وہ عناصر ہیں جن کی مدد سے حکومت اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔
آئی اے رحمان نے مزید کہا:’’ ملک میں آبادی کی اکثریت حکومت کی جانب سے ان کی نجی اور مذہبی معاملات میں مداخلت پر کوئی اعتراض نہیںکرتی۔اس صورتِ حال سے نپٹنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اکٹھ کریں اور مذہبی عناصر کے روبرو انکار کرنے کی جرأت پیدا کریں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ ہر سیاسی جماعت کرپشن، نااہلی اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی کے باعث شکست تسلیم کرچکی ہیں۔ پارلیمان میں کوئی معتدل بائیں بازو کی سیاسی جماعت نہیں ہے۔
آئی اے رحمان نے کہا:’’مختصراً حالات کو سدھارنے کے لیے سیاست دانوں کو اصلاح کی ضرورت ہے۔‘‘
قیامِ پاکستان کے چند برس بعد ہی پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے کے لیے کوششوں کا آغاز ہوگیا تھا جس کے باعث ملک تنوع اوراختلافِ رائے کے ساتھ ساتھ امن و امان قائم رکھنے کی روح سے بھی محروم ہوگیا۔
معروف وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن سروپ اعجاز نے نیوز لینز پاکستان سے امریکہ سے ای میل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلے کی اصل جڑ قراردادِ مقاصد بنی۔
انہوں نے مزید کہا:’’ حکومت اپنی رِٹ طویل عرصہ قبل ہی مذہبی طبقے کے سامنے گروی رکھ چکی ہے جس کے باعث وہ نہ صرف طاقت ور بلکہ مرکزی دھارے کا حصہ بھی بنا ہے۔قانونی نظام کی کُلی اصلاح کی ضرورت نہیں بلکہ مذہبی تناظر میں سیاسی پالیسی تشکیل دینا اہم ہے۔‘‘
لاہور میں پتنگ بازی کے ایک اور تہوار بسنت پر بھی پابندی عاید کی جاچکی ہے۔ صدیوں قدیم یہ تہوار ہر برس جوش و جذبے سے منایا جاتا جب خصوصی پکوان، موسیقی،ملبوسات اور فیشن کو خاص طور پر پیش نظر رکھا جاتا۔پتنگ کاٹنے کے مقابلوں میں بے ساختہ قہقہے، نعرے، چھیڑچھا ڑاور ٹھٹھے لاہور کی شناخت اور اس کی ثقافت کا اہم جزو تھے۔
 کچھ لاہوریوں نے پتنگ کاٹنے کے کھیل کو ایک خطرناک مقابلے میں تبدیل کر دیا جب انہوں نے دھاتی تاروں کا استعمال کرنا شروع کیا جو ہوا میں جاتیں تو تیز دھار چھڑیوں کا روپ دھار لیتیں۔ پتنگ کٹتی تو جو اس کی زد میں آتا، وہ فوری طور پر موت کے منہ میں چلا جاتا۔ دھاتی تار پھرنے سے بہت سے بچے، ہاکرز، پیدل چلنے والے عام شہری اور موٹرسائیکل سوار اموات کا شکار ہونے کے علاوہ معذور یا پھر زخمی ہوچکے ہیں۔جب یہ تاریں پاور کیبل سے ٹکراتی تو شہر کی روشنیاں گُل ہوجاتیں اور آگ بھڑگ اٹھنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا۔
حکومت نے اس بربریت انگیز عمل کو روکنے اور دھاتی تاریں بنانے والوں کو سزا دینے کی بجائے بسنت پر ہی پابندی عاید کر دی۔
حکومت کے مطابق دھاتی تاریں استعمال کرنے والوں کاسراغ لگانا مشکل ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے جب وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بہت سے دلائل دیے جنہیں اپنا تذبذب پوشیدہ رکھنے کے لیے خاصی تگ و دو کرنا پڑی کہ حکومت کیوں کر بسنت کے تہوار پر عاید پابندی ختم نہیں کرسکتی؟
انہوں نے کہا:’’ کوئی ایسا میکانزم موجود نہیں ہے جس کے تحت بسنت کے دوران دھاتی تاروں کے استعمال سے کسی کے گلے یا کوئی اور اعضا کٹنے کے ذمہ دار کا تعین کیا جاسکے۔‘‘
جب ان سے یہ استفار کیا گیا کہ حکومت دھاتی تاروں کی تیاری پر پابندی کیوں کر عاید نہیں کردیتی؟ وزیراطلاعات نے پہلے تو یہ جواب دیا کہ بنیادی طور پر تندی ( کپاس کے دھاگے کی ایک قسم جس پر چاولوں کے آمیزے کا لیپ ہوتا ہے) کے مینوفیکچررز نے ہی دھاتی تاریں بنانا شروع کیںچناں چہ اگرہم ان پر پابندی عاید کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف ان کا کاروبار بند ہوگا بلکہ بہت سے غریب گھرانے متاثر ہوں گے یا بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
تاہم جب نیوز لینز پاکستان نے قانون پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا تو وزیرداخلہ پرویز رشید نے غالباً سوچنے کی زحمت نہیں کیااور کہا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں قوانین پر عملدرآمد کروانا مشکل ہے جس کے باعث یہ بہتر ہے کہ ایسی چیزوں پر پابندی عاید کردی جائے جس سے انسانی زندگیوں کے ضیاع کا خطرہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے قواعد و ضوابط موجود ہیں لیکن ان پر درست طور پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے۔
پرویز رشید نے مزید کہا:’’ ہم حیوان بن چکے ہیں اور برسوں درکار ہیں کہ ہم لوگوں کی زندگیوں کا احترام کرنا سیکھ جائیں۔‘‘
ان کو جب یہ یاد دلایاگیا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تہذیب یافتہ بنانے کے مواقع فراہم کرے تو انہوں نے اپنا پرانا بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا:’’ یہ دھاتی تاریں امراء اپنے فارم ہائوسز میں بناتے ہیں اور ہم کسی کے گھر میں اس کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے داخل نہیں ہوسکتے‘ ہم ان لوگوں کو دھاتی تاریں بنانے سے نہیں روک سکتے۔‘‘
نیوز لینز پاکستان نے جب کوہاٹ میں ویلن ٹائن ڈے پر پابندی کے حوالے سے جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق سے بات کی تو اسی نوعیت کا دوٹوک جواب ملا۔
انہوں نے ویلن ٹائن ڈے کی مذمت کرتے ہوئے پُرمزاح انداز میں کہا:’’ ہم ہندوئوں یا یہودیوں کے تہوا ر تومناسکتے ہیں لیکن ویلن ٹائن ڈے قابلِ قبول نہیں ہے۔‘‘
ایک اور عجیب جواب دیتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ جماعت عوامی مقامات پر غیر اخلاقی حرکات کے حوالے سے تشویش رکھتی ہے لیکن لوگ نجی زندگیوں میں جو کچھ کرتے ہیں، اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
دن کے اختتام پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے بسنت پر دھاتی تاروں کے استعمال کے باعث ہونے والے حادثات کے پیشِ نظر بسنت پر پابندی عاید کی ہے تو وہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے معصوم پتنگ بازوں کو کیوں کر گرفتار کر رہی ہے؟ جیسا کہ حال ہی میں فیصل آباد میں ایسی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here