پشاور (شیراز اکبر سے) خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے ایک نجی سکول میں زیرِتعلیم جماعت ششم کے طالب علم حامد شاہ تعلیمی امور پر توجہ مرتکز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ وہ جماعت میں حاضر تو ہوتے ہیں لیکن تعلیم پر ان کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ ان کے اس رویے نے ان کی استانی کو پریشان کر دیا ہے کیوں کہ وہ ان کی جماعت کے قابل ترین طالب علموں میں سے ایک ہیں۔
حامد کے سکول میں طبیعات کی اُستانی مریم خان کہتی ہیں:’’ تعلیمی اداروں پر حملوں کے بعد سے ہم نے صرف حامد کے ہی نہیں بلکہ دیگر طالب علموں کے رویے میں بھی نمایاں تبدیلی کا مشاہدہ کیا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا:’’وہ مضطرب اور کھویا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے۔‘‘
سب سے پہلے تو دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا جس میں 140بچے شہید ہوئے جس سے پوری قوم صدمے کی کیفیت میں آگئی ، دہشت گردی کی اس کارروائی کی میڈیا پر بھرپور کوریج کی گئی جس نے اس قتلِ عام کی دہشت ناک تصاویر دکھائیں جو گھروں میں خوف زدہ بچوں نے دیکھیں اور اس بارے میں اپنے پریشان والدین سے بات کی۔ دہشت گردوں نے حملے کے بعد ایسے مزید حملے کرنے کی دھمکی دی چناں چہ کچھ عرصہ کے لیے سکول بند کر دیے گئے۔ والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے حوالے سے خوف زدہ تھے ۔ سکول تو ازسرِ نو کھل گئے لیکن انہوں نے سکیورٹی کے تمام تر انتظامات کیے۔ اساتذہ کو یہ اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے نہ صرف ہتھیار رکھ سکتے ہیں بلکہ پولیس نے ان کو استعمال کی تربیت بھی فراہم کی۔
اور ایک بار پھر حملہ ہوا۔ جنوری 2016ء میںصوبہ خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ کی باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گرد داخل ہوئے اور 21طالب علموں کو شہید کر دیا۔ویڈیو ٹیپ پیغام میں خبر دار کیا گیا کہ آرمی پبلک سکول اور اب باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گرد وں کی جانب سے اس نوعیت کے مزید حملے کیے جائیں گے ۔ان دہشت گرد حملوں کے بعد سکول چند دنوں کے لیے بند رہے‘ خوف اورغیر یقینی صورتِ حال نے نہ صرف بچوں بلکہ والدین اور اساتذہ کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔
اگرچہ سکول کھل چکے ہیں لیکن وہ بچے جنہوں نے ٹی وی پر میڈیا کوریج کے دوران حملوں کے حوالے سے پریشان کن گفتگو سنی ہے‘ وہ اس حوالے سے زیادہ متفکر ہیں کہ اگر ان کے سکول پر حملہ ہوتا ہے تو وہ کیا کریں گے۔ مریم خان نے کہا:’’ طالب علم پریشان دکھائی دیتے ہیں؛ وہ سارا دن یہ گفتگو کرتے رہتے ہیں کہ اگر ان کے سکول پر دہشت گرد دھاوا بولتے ہیں تو وہ کس طرح راہِ فرار اختیار کریں گے؟ ان کی گفتگو صحت مند سرگرمیوں جیسا کہ تعلیمی امور اور کھیلوں کے بجائے دہشت گردی کے موضوع پر مرکوز ہوتی ہے۔‘‘
بہت سے اساتذہ کے ایسے طالب علم، جنہیں وہ ذہین خیال کیا کرتے تھے، تعلیمی اداروں پر حملوں کے بعد سے ذہنی تنائو کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے ہم جماعتوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔
پشاور کے ایک نجی سکول کے سربراہ شاہزیب خان کے مطابق جب آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد ہونے والی طویل چھٹیوں کے بعد طالب علم سکول واپس آئے تو حاضری کی شرح کم تھی کیوں کہ والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین نے رفتہ رفتہ بچوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیا اور یوں معمول کی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے نے والدین، بچوں اور اساتذہ میں خوف اور تشویش بڑھا دی ہے جیسا کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تعلیمی اداروں کے کھلنے کے بعد ہوا تھا۔
شاہزیب خان نے مزید کہا:’’ سکول کے ماحول میں تبدیل دیکھ کر، جیسا کہ دیواروں کو نہ صرف مزید اونچا کر دیا گیا ہے بلکہ ان پر خاردار تاریں بھی نصب کی جاچکی ہیں، گارڈز تعینات ہیں، سکول کی حدود میں داخل ہونے والے طالب علموں کے بستوں کی جانچ کی جاتی ہے،بچوں کے اپنے تحفظ کے حوالے سے خوف میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ طالب علموں اور اساتذہ کی تعلیمی اداروں کے حوالے سے فکر اب یکسر تبدیل ہوچکی ہے جو اسے ایک ایسا مقام خیال کرتے ہیں جو محفوظ نہیں ہے۔‘‘
آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی پر حملوں کے بعد تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے اٹھائے جانے والے مضحکہ خیز آمیز حفاظتی اقدامات نے بھی بچوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ شاہزیب خان نے کہا:’’ بچوں کے ساتھ اس نوعیت کے رویے کے باعث ان میں تشویش بڑھی ہے اور وہ تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ مرتکز نہیں کر پارہے۔‘‘
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد والدین اور بچوں میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کی نسبت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے حتیٰ کہ آرمی پبلک سکول میں  دہشت گردحملے میں ہلاکتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شاہزیب خان نے کہا:’’ اس کی وجہ یہ ہے کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد لوگوں پر یہ ادراک ہوا ہے کہ تعلیمی ادارے اب دہشت گردوں کا ایک اہم ہدف بن چکے ہیں۔‘‘
جنوری میں ملک سعد پولیس لائنز میں شہر کے نجی و سرکاری سکولوں کے مالکان وسربراہان کے ساتھ ہونے والے ایک اجلاس میں سینئر پولیس افسر عباس مجید مروت نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی پولیس کے اہل کاروں کی تعداد 68ہزار ہے جب کہ صوبہ بھر میں تعلیمی اداروں کی تعداد 64ہزار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں کو اپنے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے کیوں کہ پولیس فورس کی کمیابی کے باعث وہ ہر تعلیمی ادارے کی سکیورٹی کے انتظامات نہیںکرسکتی۔ عباس مروت کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کو سکیورٹی کے انتظامات بڑھانے ہوں گے جن میں اساتذہ کو اپنے دفاع کے لیے مسلح کرنا بھی شامل ہے۔
لیکن سکول کے سربراہ شاہزیب خان کا خیال ہے کہ اساتذہ کو اپنی حفاظت کے لیے مسلح کرنا غیر عاقبت اندیشانہ اقدام ہے۔ انہوں نے کہا:’’ اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کیوں کہ جب طالب علم اپنے استاد کو کمرۂ جماعت میں مسلح دیکھیں گے تو ان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
تاہم پشاور کے ایک سکول میں تدریسی امور کی انجام دہی پر مامور شبانہ کا خیال ہے کہ اساتذہ کو اسلحے کے استعمال کی مکمل تربیت فراہم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے لیکن اس کے لیے یہ شرط عاید کی جائے کہ وہ سکول کی حدود میں اس کی کم سے کم نمائش کریں گے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں میں،جو حادثے کے بعد صدمے کی کیفیت میں ہوں، ذہنی تنائو اور جارحانہ پن کی علامتیں ظاہر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ نفسیات سے منسلک لیکچرار ڈاکٹر رومانہ زیب نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ لوگ زندگی میں دو طرح کی آفات کا سامنا کرتے ہیں، ایک تو فطری آفات ہوتی ہیں اور دوسری انسان خود پیدا کرتا ہے۔انسانوں کی پیدا کردہ آفات کے اثرات کا علاج کسی بھی ماہر نفسیات کے لیے مشکل ہے جیسا کہ حملے میں متاثر ہونے والے طالب علموں کے معاملے میں دیکھنے میں آرہا ہے۔اس کی وجہ ان کی عمر ہے جو ان میں خوف کے سرایت کر جانے کا باعث بنتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے سکولوں نے غیر نصابی سرگرمیاں ایک ایسے وقت میں نہ صرف اپنے تعلیمی اداروں کی حدود میں بلکہ بیرونِ سکول بھی روک دی ہیں یا ان پر سرے سے پابندی عاید کر دی ہے جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ڈاکٹر رومانہ زیب کا مزید کہنا تھا:’’ سکولوں کو غیر نصابی سرگرمیاں کم از کم سکولوں کی حدود میں ضرور جاری رکھنی چاہئیں تاکہ طالب علموں پر نفسیاتی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سکولوں کے حوالے سے کیے گئے سکیورٹی انتظامات جیسا کہ دیواروں پر خاردار تاریں نصب کرنا، طالب علموں کے بستوں کی جانچ اور اساتذہ کو مسلح کرنے سے طالب علموں کی ذہنی صحت اور ظاہری تاثر متاثر ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن سکیورٹی کے حالات اس قسم کے ہیں کہ اس نوعیت کے انتظامات کرنا ناگزیر ہیںجب کہ ان کے طالب علموں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ رومانہ زیب نے مزید کہا:’’ حفاظتی انتظامات تو کیے جائیں لیکن بچوں اور والدین کو ضرور اعتماد میں لیا جائے کہ ایسا طالب علموں کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا :’’ حکومت کو چاہیے کہ وہ طالب علموں اور اساتذہ کی تشویش کے علاج کے لیے سائیکو تھراپی ورکشاپس کا انعقاد کرے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ سکولوں کو اپنے طور پر ورکشاپوں کا انعقادکرنے کی ضرورت ہے جب کہ سکولوں میں ایسے طالب علموں اور اساتذہ ، جو خوف اور ڈپریشن کا شکار ہیں، کے علاج کے لیے ماہرِ نفسیات کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here