بنوں: ہوسکتا ہے کہ اتوار کا روز ہر جگہ ہی تفریح کے لیے مخصوص ہو لیکن شمالی وزیرستان میں اتوار کا روز گھر کی چار دیواری میں مقید اور خوابیدہ رہنے کے متراف ہوچکا ہے۔ 2006ء کے بعد سے قبائلی ضلع کے عوام کو ایک ایسے اتوار کے دن کا انتظار ہے جب کرفیو نافذ نہ ہو۔

اتوار کے علاوہ ہر اس دن بھی کرفیو لگا دیا جاتا ہے جب کسی وی آئی پی نے علاقے میں آنا ہو جو ضربِ عضب کے بعد ایک معمول بن چکا ہے، یہ فوجی کارروائی جون2014ء میں افغان سرحد سے متصل ضلع سے عسکریت پسندوں کو پسپا کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔

قبائلی بزرگ مدد خان داوڑ نے نیو زلینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ایک وقت وہ بھی تھا جب قبائلی دنیا سے الگ تھلگ تھے اور وہ لفظ کرفیو کے بارے میں جانتے تک نہیں تھے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’ اب یہ صورتِ حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ کبھی حکومت دفتروں تک محدود ہوتی تھی اور قبائلی آزادانہ نقل و حرکت کرتے تھے، لیکن اب ہمیں سختی کے ساتھ کرفیو اور حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری کی جانے والی ہدایات پر عمل کرنا پڑتا ہے۔‘‘

95برس کے مدد خان داوڑ اپنی جوانی کے ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب ضلع پر برطانوی راج کی عملداری تھی، وہ کہتے ہیں کہ جب غازی اور آزادی کے لیے سرگرم کارکن برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کررہے تھے،تو انہوں نے ایک بار برطانوی فوج کے دستے پر حملہ کیا لیکن اس وقت بھی کرفیو نہیں لگایا گیا۔‘‘

انہوں نے دور خلا میں گھورتے ہوئے اپنے ماضی کو یاد کیا اور کہا:’’ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے ہم سے کبھی گھروں میں مقید رہنے کا کہا ہو۔‘‘

مدد خان داوڑ نے کہا:’’ میں نے پہلی بار لفظ کرفیو چند برس قبل سنا تھا۔‘‘

ان کے مطابق کرفیو قبائلیوں کے لیے ایک نیا تجربہ تھا اور وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ یہ کس طرح نافذ کیا جاتا ہے۔ اس غلط فہمی کے باعث اکثر اوقات مقامی قبائلی موت کا شکار ہوجاتے جب انہیں کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر گولی مار دی جاتی۔

شمالی وزیرستان کے گائوں کھادی کے رہائشی حاجی اکبر خان کہتے ہیں:’’ ایک شخص سارا دن کس طرح گھر میں قید رہ سکتا ہے؟‘‘
وہ کہتے ہیں:’’ ہمیں اپنے کھیتوں میں جانا ہوتا ہے، مویشیوں کے لیے چارہ لانا ہوتا ہے اور کھیتوں کو پانی دینا ہوتا ہے۔ مجھے صبح کے وقت بہت جلدی کھیتوں میں جانا پڑتا ہے تاکہ کرفیو کے دوران میرعلی اور میرنشاہ کے درمیان سے گزرنے والی مرکزی شاہراہ پار نہ کرنی پڑے۔‘‘

حاجی اکبر خان کہتے ہیں کہ کرفیو کے روز وہ رات گئے گھر واپس آتے ہیں جب شاہراہ پر فوجی دستے کی نقل و حرکت رک جاتی ہے۔ اگر فوجی گشت کے دوران کچھ غلط ہوجائے تو حاجی اکبر خان کھیتوں کے قریب اپنے رشتہ داروں کے گھر ٹھہرتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے عسکریت پسندی کے خلاف نبرد آزما ہیں، 2005ء اور 2006ء میں اس شورش میں انتہائی شدت پیدا ہوگئی۔ سکیورٹی فورسز پر بم دھماکوںا ور خودکش حملوں کی ایک بڑی تعداد کے باعث قبائلی ضلع کی تمام سڑکوں پر کرفیو نافذ کردیا گیا۔

مقامی سیاسی انتظامیہ علاقائی ریڈیو سٹیشن اور گاڑیوں میں نصب لائوڈ سپیکروں کے ذریعے فوجی دستوں کی گشت سے قبل کرفیو کے بارے میں اعلان کرتی ہے۔ حاجی اکبر خان کہتے ہیں کہ ضلع میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت کے باعث کرفیو کا نفاذ معمول بن چکا ہوں۔ قبائلی عمائدین نے جرگہ کے ذریعے فوجی حکام سے رابطہ قائم کیا، جس میں یہ اتفاق کیا گیا کہ سکیورٹی فورسز صرف اتوار کے روز نقل و حرکت کریں گی تاکہ عسکریت پسندوں کی جانب سے حملے کی صورت میں جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکے۔

جرگہ کے ایک رُکن نے معلومات کی حساسیت کے پیشِ نظر نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا:’’ بہت ساری درخواستوں اور ملاقاتوں کے بعد بالآخر فوج ہماری خواہش پر کرفیو کو ایک دن تک محدود کرنے پر تیار ہوگئی۔‘‘

اس کے باوجود ایک دن کے کرفیو کا مطلب قبائلیوں کے لیے بہترین حالات میں بھی پریشانی اور بدترین حالات میں المیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرفیو کے دوران نقل و حرکت پر پابندی کے باعث ساز و سامان کی رسد میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ کرفیو کے باعث بہت سی اموات ہوئی ہیں کیوں کہ مریضوں کو بروقت ہسپتال نہیں لے جایا جاسکا۔

شمالی وزیرستان کی تحصیل سپن وام کے ایک رہائشی نے نیوزلینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سالی کی وفات بھی اسی وجہ سے ہوئی کیوںکہ کرفیو کے دن وہ ڈلیوری کے لیے ہسپتال نہیں جاسکی تھی۔

قبائلی، جن کا نام ان کی شناخت محفوظ رکھنے کے لیے پوشیدہ رکھا گیا ہے، نے کہا:’’ ہم نے کرفیو میں نرمی کا انتظار کیا، سکیورٹی چیک پوسٹ پر فوجی دستوں سے آگے جانے کی اجازت مانگی لیکن انہوں نے نہیں دی۔ اس سہ پہر ڈلیوری کا عمل درست طورپر انجام نہ پانے اور مناسب نگہداشت نہ ملنے کے باعث میری سالی وفات پاگئی۔‘‘

مقامی لوگوں کے مطابق ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کولاش کی تدفین کے لیے اپنے گائوں تک جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ان کو شمالی وزیرستان کے نزدیک ترین شہر بنوں میں روک لیاجاتا ہے اور لاش گائوں لے جانے کے لیے کرفیومیں نرمی کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو 24گھنٹوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔

ایک مقامی قبائلی اعجاز خان کہتے ہیں:’’میرے چچا پشاور میں وفات پاگئے ، ہم نے ان کی لاش شمالی وزیرستان میں ان کے گائوں منتقل کرنا تھی لیکن جب ہم بنوں پہنچے تو ہم سے کہا گیا کہ ہم کرفیو ختم ہونے کا انتظار کریں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پورے خاندان اور گائوں کے لوگوں کو لاش کی تدفین کے لیے 24گھنٹوں سے زیادہ دیر تک انتظار کرنا پڑا۔

تاہم حکام یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز کو ہونے والے جانی و مالی نقصان کے باعث کرفیو نافذ کرنا ضروری ہوگیا تھا تاکہ فوج کو 2005ء اور2006ء میں پیش آنے والے واقعات سے بچا جاسکے۔

سیاسی انتظامیہ کے ایک افسر نے، نام ظاہر کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا:’’ ہم کرفیو کے باعث مقامی شہریوں کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کا ادراک رکھتے ہیں لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔‘‘
شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی کہتے ہیں کہ کرفیو کا دورانیہ’’ خاصا کم‘‘ کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالات بتدریج بہتر ہوجائیں گے لیکن اس پر کچھ وقت لگے گا۔

کامران آفریدی نے کہا:’’ ہم آپریشن ضربِ عضب کے باعث کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ عسکریت پسند امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ شہری انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کرفیو کے باعث شہریوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں آگاہ ہیں لیکن خطے میں مکمل امن کا نفاذ اہم ہے۔

میرعلی سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی کہتے ہیں:’’ اگر علاقے سے عسکریت پسندوں کا انخلا عمل میں آچکا ہے تو تب بھی اس کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے جب ہم اب بھی کرفیو کے زیراثر رہنے پر مجبور ہیں؟‘‘

انہوں نے استفسار کیا:’’ اگرشمالی وزیرستان سے عسکریت پسندوں کا انخلا عمل میں آچکا ہے تو حکومت ہماری زندگی کیوں مشکل بنا رہی ہے؟‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here