لاہور: غیرت کے نام پر قتل ایک ناقابلِ حل مسئلے کے طور پر برقرارہے کیوں کہ موجودہ قوانین اور ان کا نفاذ اس عفریت کو روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں جو ہنوز کسی خوف کے بغیر بڑھ رہا ہے۔ ماہرینِ قانون اور انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے اب تک ہونے والے 99.99فی صد واقعات میں سمجھوتہ ہوگیا جس کے باعث مجرموں کو سزائیں نہیں مل پائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ عدلیہ کی جانب سے وضع کی گئی تعزیرات پاکستان میں نقائص ہیں جس کے باعث غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات کے منصوبہ سازوں کو قانونی فائدہ حاصل ہوجاتا ہے۔

ایسے واقعات میں مرنے والے افراد کی اکثریت چوں کہ خواتین پر مشتمل ہوتی ہے جو خاندان و سماج کے لیے بدنامی کا باعث بن رہی ہوتی ہیں جس کے باعث لوگ خاندان کو مزید بے عزتی، جس کی وجہ معصوم مرنے والی بنی ہوتی ہے، سے بچانے کے لیے زندگی کے ضیاع کو قبول کرلیتے ہیں ۔

عورت فائونڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ممتاز مغل نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ رواں برس اب تک غیرت کے دو سو واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں سے زیادہ پنجاب میں ہوئے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ صرف ایک معاملے میںدیہی پنجاب سے تعلق رکھنے والی متاثرہ فریق نے مقدمے کی پیروی کی اورایک ماہ قبل مجرم کو 10برس قید کی سزا سنائی گئی۔

انہوں نے مزیدکہاکہ دیگر معاملات اس وقت باہمی رضامندی سے حل کرلیے جاتے ہیں، جب شکایت کنندگان، جو عموماً مرنے والے کے رشتہ دارہوتے ہیں، قاتل کو معاف کردیتے ہیں۔اگر غیرت کے نام پر خاتون کے قتل کے واقعہ میں شوہر یا سسرالی رشتہ داروں میں سے کوئی ملوث ہو تو یہ معاملہ دیت (اسلامی قوانین کے تحت قتل کے معاملا ت میں زرِ تلافی ادا کیا جاتا ہے) کی بنیاد پر حل ہوجاتا ہے۔

ممتاز مغل نے انکشاف کیا کہ اس تناظر میں غیرت کے نام پرخواتین کے قتل کے 90فی صد واقعات میں متاثرہ فریق کا اپنا خاندان ملوث تھا۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے 2015ء کے اعداد و شمار میں غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کے 987واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ان واقعات میں سے بیش ترمیں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا اور ان میں سے اکثریت میںموجودہ یا سابق شوہرملوث تھا ۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے یہ بھی دیکھا کہ متاثرہ خواتین کی اکثریت کی ازدواجی حیثیت یا تو شادی شدہ تھی یاوہ علیحدگی اختیار کرچکی تھیں۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ قتل کے ان واقعات کے پس پردہ محرکات میں اہم ترین مبینہ غیر ازدواجی تعلقات، خاتون کی اپنی پسند کی شادی کرنا اور گھریلو جھگڑے شامل تھے۔

وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2012ء سے ستمبر 2015ء تک غیرت کے نام پر قتل کے 860واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ عورت فائونڈیشن نے 2015ء میں غیرت کے نام پر قتل کے 178واقعات ریکارڈ کیے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن سدرہ ہمایوں نے نیو زلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے مجموعی واقعات میں سے 75فی صد پنجاب میں ریکارڈ کیے گئے۔

نیوز لینز پاکستان نے ایک مفرور جوڑے ڈیرہ اللہ یار ، بلوچستان کے سر فدا اور حسینہ سے بھی بات کی جو 2008ء میں غیرت کے نام پر قتل ہونے سے بہ مشکل بچے تھے جب انہوں نے ایک مقامی عدالت میںنکاح کیا تھا۔

فدا کہتے ہیں:’’ میرے والد غوث بخش کو ہماری شادی کے 48گھنٹوں کے اندر اندر میری بیوی کے رشتہ داروں نے قتل کردیا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کو مزید انسانی جانوں کے ضیاع سے گریز کے لیے ’’غیرت کے نام پر ہونے والے ہر جرم‘‘ میں فریق بننا چاہئے۔

سینئر قانون دان زین قاضی نے کہا کہ جرگہ (غیر رسمی عدالتی نظام) کی ان علاقوں میں موجودگی ، جہاں قبائلی نظام ہنوز موجود ہے، نے ایک ناقابلِ فہم صورتِ حال پیدا کی ہے جہاں معافی کی ثقافت ریاست کے اندر پاکستان کے فوجداری عدالتی قوانین کے یکساں نفاذ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں سزا میں تخفیف کے حوالے سے پیدا ہونے والے حالات کے دوران ملزموں کی جانب سے ’’فوری اشتعال‘‘ کی قانونی اصطلاح بنیادی دفاع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔‘‘

کیمپ پراجیکٹ2014ء کے تحت کی جانے والی تحقیق میں کہاگیا ہے کہ 73فی صد پاکستانی امتیازی قوانین کو غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کی وجہ تصورکرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ یہ قوانین غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات کی دوسری بڑی وجہ ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکن اور ماہرینِ قوانین غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات کے تناظر میں پاکستان کے فوجداری عدالتی نظا م میں خامیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔

تعزیرات پاکستان کی شق 304کہتی ہے:’’ ولی یعنی سرپرست ، ترجیحی طور پر مرنے والی کا باپ دیت قبول کرکے قاتل کو معاف کرسکتا ہے جس کا لغوی مطلب فوجداری قانون کی دفعہ 302کے تحت موت یا عمر قید کی بجائے خون بہا ہے۔‘‘

سدرہ ہمایوں نے کہا:’’ پاکستان کے پدری معاشرے میں خاتون کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہی خاندان اپنی بیٹیوں کی زندگی کے عوض خون بہا لینے کا انتخاب کرتے ہیں اور مجرموں کو موت یا عمر قید کی سزا نہیں دلواتے۔‘‘

ڈیموکریٹک کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دو اضلاع میں کی گئی تحقیق بعنوان ’’ قتل کے معاملا ت پر سمجھوتے کے اثرات‘‘ 2005ء انتہائی تلخ حقائق بے نقاب کرتی ہے۔
اس تحقیق کی مصنفہ ڈیموکریٹک کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تنویر جہاںنے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم نے غیرت کے نام پرخواتین کے قتل کے 100فی صد واقعات میں سمجھوتے کا مشاہدہ کیا ہے جب ولی (باپ، سرپرست) دیت کے قانون کے تحت اپنے بیٹے یا دیگر رشتے داروں کو معاف کردیتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ عورت کے قتل کا خون بہا مرد کی نسبت نصف ہے جو 2015ء میں 175000تھا۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی عورت کا قتل کرسکتا ہے اور مرنے والی کے خاندان کو ایک لاکھ روپے سے بھی کم ادا کرکے انصاف سے بچ سکتا ہے۔

تنویر جہاں نے مزید کہا کہ حکومت اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے غیرت کے نام پر قتل کو ’’ناقابلِ مصالحت جرم‘‘ قرار دینے کی کوشش کررہی ہے۔

21جولائی کو پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی نے غیرت کے نام پر جرائم کابل 2016ء متفقہ طور پر منظور کیا۔

وزارت قانون و انصاف کے مشیر ملک حکم خان نے نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بل میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے مجرم کے لیے ساڑھے بارہ سال کی عمرقید کی سزا لازمی قرار دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم نئے بل کے تحت متاثرہ فریق کا خاندان اب بھی قاتل کی سزائے موت معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بل پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا جس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here