اسلام آباد(رحمت محسود سے)ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شعبۂ صحت پہلے سے ہی نظرانداز کیا جارہا ہے جس کے باعث برن سنٹرز کی شدید کمی کے باعث آگ سے جھلسنے والے مریضوں کی زندگیوں کو سنجیدہ نوعیت کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں کیوں کہ ان کا مناسب علاج نہیں ہوپاتا۔
قومی ہیلتھ سروس کی وزارت سے منسلک ایک اعلیٰ افسر نے نیوز لینز پاکستان سے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ سال 2015-16ء میں سالانہ مصارف کے لیے مختص کیے گئے 4.451ٹریلین کے بجٹ میں سے مجموعی طور پر 20.88ارب روپے ’’نظرانداز کیے جانے والے شعبۂ صحت‘‘ کے لیے مختص کیے گئے ہیںجو مسائل کا شکاراس شعبے کے لیے انتہائی کم بجٹ ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پی آئی ایم ایس) اسلام آباد کے برن کیئر سنٹر سے منسلک ڈاکٹر آئزک اشعر نے کہا کہ ملک میں صرف تین برن سنٹرز ہیں جن میں سے دو فوج کے زیرِانتظام کام کر رہے ہیں جہاں عام مریض علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کیا:’’ برن کیئر سنٹر میں اعلیٰ معیار کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (جے پی ایم اے) کی جانب سے ترتیب دی گئی رپورٹ میں اس تاسف کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے شعبۂ صحت میں آگ سے جھلسنے والے مریضوں کا علاج سب سے زیادہ نظرانداز کیا جارہا ہے۔
برن سنٹرز کی کمی کے باعث چھ ماہ کی حاملہ خاتون نے اپنا بچہ کھو دیا جب اس کا برن کیئر سنٹر میں بروقت علاج نہیں ہوپایا۔
دو بچوں کی ماں تقریباً35برس کی نازیہ بی بی نے اپنا بچہ اس لیے کھویا کیوں کہ اس کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے برن کیئر سنٹر میں انتہائی اہم طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ نازیہ کے ایک مرد رشتے دار اسرار اللہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ برن کیئر سنٹر میں صرف ان مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جن کا کوئی واقف کار ہو جب کہ ہم کسی سے واقفیت رکھتے تھے اور نہ ہی علاج کے لیے کوئی پیسہ تھا۔ ‘‘
جب جنرل سرجن ڈاکٹر مست علی خان سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے سب سے پہلے نازیہ کا علاج کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ طبی قواعد کے مطابق آگ سے جھلسنے والے ایک مریض کے 33فی صد حصے پر زخم آئے ہوں تو اسے فوری طور پر ہسپتال میں داخل کرلیا جاتا ہے۔
اسرارا للہ نے یاد کرتے ہوئے کہا: ’’ لیکن نازیہ کے 40فی صد جسم، بازوئوں، ہاتھوں اور معدے ،پر زخم آئے تھے لیکن پاکستان انسٹی آف میڈیکل سائنسز کی انتظامیہ نے اسے اس بنیاد پر داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے پاس مریضوں کو داخل کرنے کی مزید گنجائش نہیں ہے۔‘‘
نازیہ اس وقت آگ سے جھلسی جب اس نے چولہے میں مٹی کا تیل ڈالا تاکہ اپنے بچوں کے لیے کھانا پکا سکے، وہ اسلام آباد سے سات گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قصبے سے تعلق رکھتی ہے۔
ڈاکٹر آئزک اشعر نے کہا کہ نازیہ کی طرح آگ سے جھلسنے والے مریضوں کی ایک بڑی تعداد مناسب علاج کے نہ ہونے کے باعث موت و حیات کی کشمکش کا سامنا کر رہی ہے کیوں کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے واحدبرن کیئر سنٹر میں بیک وقت 20سے زائد مریضوں کا علاج ہی کیا جاسکتاہے۔
ایک طبی ماہر ڈاکٹر امان اللہ خان کہتے ہیں کہ آگ سے جھلس کر جسم پر لگنے والے زخم زندگی کی بقاء کے لیے خطرات کا باعث بنتے ہیں اور آگ سے جھلسنے والے ایک مریض کو فی الفور طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے جو ’’ ترجیحی بنیادوں پر تنہائی میں فراہم کی جائیں۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ دوسرے لفظوں میں آگ سے جھلسنے کے باعث جسم پر آنے والے زخم معذوری میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔‘‘
برن کیئر سنٹر میں زیرِ علاج آگ سے جھلسنے والے مریض یہ استفسار کرتے ہیں کہ وہ ووٹ ڈالنے کیوں جائیں جب ان کے منتخب نمائندے ہی ان کو بہتر طبی سہولیات تک فراہم کرنے کا بندوبست نہیں کرسکتے۔ایک اور مریضہ 34برس کی عشرت فاطمہ بھی برن کیئر سنٹر میں زیرِ علاج ہیں، ان کے چہرے ، چھاتی اور ہاتھوں پر زخم آئے ہیں،وہ کہتی ہیں کہ وہ انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ان کی حالت بہتر ہورہی ہے جب کہ وہ آگ سے جھلسنے کے واقعہ کے کئی روز بعد ہسپتال میں داخل ہوئیں۔مریضوں کی ایک بڑی تعداد کے تیمارداروں نے شکایت کی کہ غریب مریضوں کی اکثریت کے لیے یہ نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ وہ کسی واقفیت کے بغیر برن کیئر سنٹر میں علاج کروائیں۔

Burn victim under treatmen at BCC in PIMS Islamabad : Photo by News Lens Pakistan/
Burn victim under treatmen at BCC in PIMS Islamabad : Photo by News Lens Pakistan/

عشرت فاطمہ نے کہا کہ علاج کے لیے بہتر سہولیات فراہم کی گئی ہیں لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ دیہات کی سطح پر برن یونٹ قائم کرے جس کے باعث متاثرہ مریض فوری طور پرطبی امداد حاصل کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر آئزک اشعر نے کہا کہ اس کا جسم 50فی صد جھلس گیا تھا لیکن وہ اب تیزی سے صحت یاب ہورہی ہے۔
نیشنل ہیلتھ سروس کی وزارت سے منسلک افسر سے جب اس بارے میں استفسار کیا گیا کہ کیا حکومت ملک میں مزید برن سنٹر قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے محض یہ کہا:’’ مزید برن سنٹر یا ملک کے بڑے ہسپتالوں میںبرن یونٹ قائم کرنے کے لیے حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے طویل اجلاس ہورہے ہیں۔‘‘
18ویںآئینی ترمیم کے بعد شعبۂ صحت اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جنہوں نے زندگی بچانے والے اس شعبہ کے لیے انتہائی قلیل بجٹ مختص کیا ہے۔
ڈاکٹر آئزک اشعر نے کہا کہ موسم سرما میں آگ سے جھلسنے کے واقعات میں سو فی صد اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ گیس کی غیر اعلانیہ بندش ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ جب گیس کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہوتی ہے تو بہت سے خاندان رات کے وقت گیس ہیٹرز کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔ چناں چہ جب گھر میں کوئی اپنا ہیٹر آن کرتا ہے تو دھماکہ ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ حکومت یا نجی شعبے کی جانب سے برن سنٹر قائم کرنے کے لیے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاسکے۔
ڈاکٹر آئزک نے مزید کہا کہ برن کیئر سنٹر ایک سرکاری ادارہ ہے جب کہ دو برن سنٹر فوج کے زیرِانتظام کام کر رہے ہیں لیکن وہاں پر کسی عام شہری کے علاج کا تصور کرنا ہی قرینِ قیاس ہے۔
انہوں نے کہا:’’ آگ سے جھلس جانے والے مریضوں کا علاج خاصا مہنگا ہے جس پر 25سے 50ہزار روپے یومیہ اخراجات اٹھتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر آئزک نے مزید کہا کہ موسمِ سرما کے دوران برن کیئر سنٹر میں تقریباً15سومریضوں کا ماہانہ علاج کیا جاتا ہے۔ برن کیئر سنٹر میں ایک ماہ کے دوران سب سے زیادہ 20مریض جان کی بازی ہارے جو دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
ایک دوسرے بستر پر 12برس کی لڑکی عائشہ دراز تھی جس کا چہرہ مٹی کے تیل کی بوتل کے اچانک آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے کے باعث اب پہچانا نہیں جارہا تھا۔

BCC medical staff seeing-off a burn victim after treatment : Photo by News Lens Pakistan/
BCC medical staff seeing-off a burn victim after treatment : Photo by News Lens Pakistan/

بہت سے مریضوں کو کامیاب سرجری کے بعد برن کیئر سنٹر کے عملے کی جانب سے مسکراتے چہروں اور تحفوں کے ساتھ الوداع کیا جارہا تھا۔ تاہم ڈاکٹر آئزک اشعر نے کہا کہ حکومت کو ہر ضلعی و تحصیل ہسپتال میں برن سنٹر قائم کرنے چاہئیں جس سے پاکستان انسٹی آف میڈیکل سنٹر کے برن کیئر سنٹر پر دبائو کم ہوگا اورمریضوں کا ان کے گھروں کے قریب علاج ممکن ہوسکے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here