کوئٹہ (عبدالمالک اچکزئی سے) بلوچستان کا سب سے اہم اور بڑا شہر کوئٹہ دور دراز کے علاقوں سے آنے والے دیہاتی لوگوں کے لیے ایک دور میں کشش کا باعث ہوا کرتاتھا۔ وہ نہ صرف شہر کے بازاروں سے خریداری کیا کرتے بلکہ دیگر سرگرمیوں میں بھی شریک ہوتے ، یہ لوگ معروف سینما گھروں میں فلمیں دیکھتے جو شہر کے مختلف علاقوں میں قائم تھے۔ سکیورٹی کے خراب حالات ، دہشت گرد حملوں، فرقہ ورانہ تشدد وہ عوامل ہیں جن کے باعث سینما کا کاروباربدترین طور پر سکڑ گیا ہے۔
امداد سینما کا قوی ہیکل ہال خالی پڑا ہے؛ سات لوگوں کو ہال کے مختلف گوشوں میں پشتو فلم ’’یارانہ‘‘ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جب کہ سینکڑوں نشستیںخالی پڑی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں عوامی مقامات پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے باعث فلم بینوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ ان دنوں جب حالات اس قدر خراب نہیں ہوئے تھے تو سینکڑوں لوگ فلم دیکھنے کے لیے سینما گھروں کا رُخ کیا کرتے تھے لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں جیسا کہ لوگوں کی ایک محدود تعداد سینما بینی کے شوق سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
امداد سینما کے داخلی راستے پر کھڑے ٹکٹ فروخت کرنے والے لڑکے نے نیوز لینز پاکستان کو ٹکٹ بک دکھاتے ہوئے کہا:’’ہم ہر شو کی آٹھ سو سے ایک ہزار تک ٹکٹیں فروخت کیا کرتے تھے لیکن اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صرف سات لوگوں نے ٹکٹیں خریدی ہیں۔‘‘
گزرے ماہ و سال میںپشتون آباد میں تفریح کے لیے ایک اہم مقام تصور کیا جانے والا ’’کیپری سینما‘‘ اس وقت آگ کے شعلوں کی نذر ہوگیا جب نو گیارہ کے بعد افغانستان میں برسرِاقتدار طالبان کی حکومت کے خلاف نیٹو کے حملے کے ردِعمل میں مدارس کے مشتعل طالب علموں نے اسے جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔
کوئٹہ کے معروف مدرسے سے تعلیم یافتہ عالمِ دین 38برس کے مولوی محبوب کہتے ہیں:’’ اسلام میں مر د و خواتین کی حرکت کرتی ہوئی تصاویر دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ تفریح کے لیے کسی دوسرے شخص کے جسمانی اعضا دیکھنا کسی بھی شک و شبہے کے بغیر ایک گناہ ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف بلوچستان میں لسانیات کے شعبہ سے منسلک محقق 36برس کے ناصر احمد کہتے ہیں:’’ میں اس وقت پہلی بار سینما گیا جب کالج میں زیرِتعلیم تھا۔ دوستوں کے اصرار پر فلم ’’ٹائی ٹینک‘‘ دیکھی۔ میَں نے یہ محسوس کیا جیسا کہ کوئی بہت بڑا گناہ کر رہا ہوں۔‘‘
ان کی اس بے آرامی کی وجہ ان کے وہ عقائد تھے جن کے بارے میں انہوں نے اپنے گائوں کے مذہبی عالمِ دین سے سنا تھا جو یہ کہا کرتا:’’ جب کوئی فلم دیکھنے سینما جاتا ہے تو اس کا ’’عقیدہ‘‘ اس سے چھوٹ جاتا ہے اور سینما کے باہر اس کا منتظر ہوتا ہے اوروہ اسی صورت میں اپنا عقیدہ واپس پاتا ہے جب ایک بار سینما سے باہر آجاتا ہے۔‘‘
25برس کا احسان اللہ ہفتے میں ایک بار فلم دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے:’’ اگرچہ گھر میں میرے پاس لیپ ٹاپ، ٹی وی اور کیبل کنکشن ہے لیکن یہاں (سینما) فلم دیکھنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔‘‘
اس نے سوال کیا:’’ تحفظ کی ضمانت کہیں پر بھی نہیں ہے۔ بازار میں چائے کا کوئی کھوکھا ہو یا کھیل کا میدان، چناں چہ سینما کا رُخ کرنے سے کیوں گریز کیا جائے؟‘‘
شہرمیں قائم سینما کے مالکان میں سے ایک نے، سکیورٹی وجوہات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر، نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سینما سے صرف چند میٹرز کی دوری پر قائم کار پارکنگ کی آمدن سینما سے ایک ہزار فی صد زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا:’’ آپ آگاہ ہی ہیں کہ اس قطعۂ زمین پر ایستادہ عمارت کروڑوں روپے مالیت کی ہے اور کوئٹہ میں سینما کا کاروبارموزوں نہیں رہا۔شائقین کی ایک محدود تعداد ان ہالوں کا رُخ کرتی ہے کیوں کہ حکومت کی جانب سے فلمی صنعت اور سینما گھروں کی معاونت نہیں کی جاتی جس کے باعث ہم نہ صرف ان کو بند کرنے بلکہ اپنا کاروبار تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ متعدد برسوں کے دوران لوگ کوئٹہ بھر میں عوامی اجتماعات پر ہونے والے حملوں کے باعث، جن میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں،سینما گھروں کا رُخ کرنے کے حوالے سے تذبذب اور خوف کا شکار ہیں جس کے باعث کوئی بھی سینما گھروں میں نہیں جانا چاہتا۔
 بھارتی فلمی صنعت کے عروج کے دنوں میں کوئٹہ اور پشاور کے نوجوان فلمیں دیکھنے کے لیے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے سینما گھروں کا رُخ کیا کرتے۔ 70برس کے حاجی مرتضیٰ خان کہتے ہیں:’’ ہم انڈین اور پشتو فلمیں دیکھنے کے لیے کابل جایا کرتے کیوں کہ ہمارے سینما گھروں میں انڈین فلموں کی نمائش نہیں کی جاتی تھی۔ وہ پُرامن دور تھا: ہم جیون کا ہر رنگ کشید کیا کرتے۔ ہم گروہوں کی صورت میں کابل جاتے اور کوئی بھی حیران نہیں ہوتا تھا، نہ ہی ہم اور نہ ہی افغان شہری۔ انہوں نے مزید کہا:’’اب زندگی یکسر بے رنگ ہوگئی ہے کیوں کہ جب امن و امان نہ ہو تو زندگی روکھی ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں کسے فلم دیکھنے کی پرواہ ہوگی؟‘‘
انہوں نے کہا کہ اخبارات بم دھماکوں، دہشت گرد حملوں، ہدفی قتلوں اور فرقہ ورانہ تشدد کی خبروں سے بھرتے ہوتے ہیں جنہوں نے ہر ایک کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ آپ کو موت کا دیوتا کسی وقت بھی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے کیوں کہ عسکریت پسندی چہار سو پھیلی ہوئی ہے۔
کوئٹہ کے ایک بزرگ شہری 68برس کے عزیز خان نے کہا:’’ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد دنیا کی دو بڑی نظریاتی طاقتیں خطے میں میں ایک دوسرے کے مدِمقابل آگئیں۔70ء اور 80ء کی دہائی سے قبل کوئی بھی مجاہدین یا طالبان کے بارے میں آگاہ نہیں تھا۔ ایک جانب ’’ کمیونسٹ انتہا پسند‘‘ تھے اور دوسری جانب ’’مذہبی انتہاپسند‘‘… پشاور اور کوئٹہ ان عناصر کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہوتے رہے جن کے باعث نئے نظریات نے اس پُرامن معاشرے پر اپنی یلغار کر ڈالی۔‘‘
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ 1960ء کی دہائی تک سماج میں پرامن ہم آہنگی تھی۔ انہوں نے کہا:’’ کوئٹہ شہر میں بارز اور سینماگھرتو تھے ہی حتیٰ کہ رجسٹرڈ قحبہ خانے بھی قائم تھے۔ سیاسی نظریات کمیونزم اور شدت پسندمذہبی انتہا پسندی کے تصادم کے باعث یہ سب رفتہ رفتہ ختم ہوگئے جس میں پیٹروڈالر فنڈنگ کے ہونے کی وجہ سے مزید تیزی آئی۔‘‘
جب یہ سینما گھر نہ چل سکے تو کاروباری مراکز میں تبدیل ہونے لگے۔ ایک برس قبل ہی ’’عصمت سینما‘‘ کی جگہ پر اب ایک شاپنگ مال بن گیا ہے جہاں روزانہ سینکڑوں گاہک آتے ہیں۔
ثقافتی امور کی ماہر اور گندھارا آرگنائزیشن فار کلچر کی سربراہ ثنا اعجاز خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ سینما صرف تفریح کا ایک ذریعہ ہی نہیں ہے، یہ لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے شعور کی آبیاری بھی کر رہا ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان کے صوبوں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں گزشتہ ایک دہائی سے مستقل طور پر شورش بپاہے۔سینما کی صورت میں تفریح وقت کی ضرورت ہے۔ پشتون معاشرے میں مرد اور عورتوں میں ایک فاصلہ برقرار ہے؛ تفریح کے کوئی متبادل ذرائع نہیں ہیں، چناں چہ لطف اندوز ہونے کے لیے سینما بینی ہی باقی رہ جاتی ہے۔ میں کہوں گی کہ ہمارے المیہ زدہ معاشرے کے لیے سینما وینٹی لیٹر کا کام کرسکتا ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبۂ ابلاغیات کے سربراہ سلیمان راجہ نے کہا:’’ خاندان کوئٹہ میں سینما گھروں کا رُخ کریں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فلمی صنعت پر جمود طاری نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی جیسا کہ وی سی آر ، پھر سی ڈی اور اب یو ایس بی اور آن لائن سٹریمنگ سینما گھروں کے متبادل کا کردار ادا کرنے لگی ہے۔ ان آلات کے ذریعے کوئی بھی شخص صرف 30روپے میں ایک مکمل فلم دیکھ سکتا ہے۔‘‘
 انہوں نے کہاکہ حکومتِ پاکستان کو فلم انڈسٹری کے فروغ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کیوں کہ پاکستانی نوجوان تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اور باصلاحیت ہیں۔ سلیمان راجہ کا مزید کہنا تھا:’’ ہم فلم ’’وار‘‘ دیکھ سکتے ہیں جو حقیقتاً دلچسپ ہے۔ اس فلم سے یہ ظا ہر ہوتا ہے کہ ہماری فلمی صنعت میں صلاحیت موجود ہے اور ہنوز یہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور صرف اس کے احیاکی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے اس نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کیا کہ لوگوں نے ’’عسکریت پسندی‘‘ کے خطرے سے خوف زدہ ہوکر انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا رُخ کرنا چھوڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ جوش و خروش سے شو دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور حال ہی میں ہزاروں لوگوں، جن میں نوجوان اور خواتین بھی شامل تھیں، نے کوئٹہ فیسٹیول میں پرجوش انداز سے حصہ لیا ہے۔
سلیمان راجہ نے مزید کہا کہ سینما گھروںکو تعاون فراہم کرنے کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور تب ہی سینما گھروں میں لوگ کشش محسوس کریں گے جیسا کہ ماضی میں کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اگر ہم اپنی فلم انڈسٹری کو تعاون فراہم نہیں کرتے توبھارتی سینما سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرلے گا جب کہ اس سے ہماری فلمی صنعت متاثر ہوگی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مقامی ثقافتوں اور زبانوں جیسا کہ پشتو، پنجابی، سندھی اور بلوچی پربھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘‘
راحت سینما کو اس وقت آگ کے شعلوں کی نذر کیا گیا جب شیعہ ہزارہ کمیونٹی نے 2003ء میں فرقہ ورانہ عسکریت پسندوں کے حملے میں متعدد افراد کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ حکام نے سینما گھر کے تباہ حال ڈھانچے کی بحالی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے اور اب اسے ایک نرسری میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔
کوئٹہ کے باسی 56برس کے نذیر خان پانیزئی کہتے ہیں:’’ کوئٹہ میں 9سینما گھر قائم تھے جہاں لوگ اب ماضی کی طرح جوش و جذبے سے نہیں جاتے کیوں کہ وہ خوف زدہ ہیں کہ عسکریت پسندوں کی کارروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘‘
وزیراعلیٰ کے پالیسی ریفارم یونٹ بلوچستان سے منسلک ماہرِ معاشیات بدر خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ سینما پر مناظر کی تبدیلی سے خوش کن احساس ہوتا ہے لیکن پشتون معاشرے میں مذہبی انتہاء پسندی کے باعث اس تفریحی ذریعے کا کردار انتہائی محدودہوچکا ہے جو لوگوں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ موسیقی نہ سنیں اور نہ ہی دوسرے کے چہروں کو حرکت کرتی ہوئی تصویروں کے طور پر دیکھیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ سینماکی صنعت کی بحالی سے نہ صرف رواداری بلکہ خوش حالی کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے جس کے باعث عوام میں امن اور ہم آہنگی پیدا ہوگی جب کہ پسماندہ اور دوردراز کے علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کو فروغ بھی حاصل ہوگا۔ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوگی تو سرمایہ کاری بڑھے گی اور یہ ترقی کرتا ہوا ایک شعبہ بن سکتا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here