کراچی: کراچی کے وسطی علاقے لکی سٹار کے قریب ٹوٹی ہوئی سڑک کے دائیں جانب واقع دکان میں دکان دار گاہکوں کا منتظر ہے۔اسی دوران سفید رنگ کی کار آکر دکان کے سامنےرُکتی ہے، ایک شخص اُتر کر اس دکان پر آتا ہے اور اونٹنی کا دودھ طلب کرتا ہے۔

Camel Milk
:Photo by Farhana Niazi / News lens Pakistan.

دکان کے مالک عدنان کے  مطابق ایک دن میں سو لیٹرتک دودھ فروخت ہوتا ہے اور روزانہ ہی تازہ دودھ منگوایا جاتا ہے جو رات تک ختم ہوجاتا ہے۔

عدنان کے مطابق  ‘زیادہ تر لوگ ہیپاٹائٹس سی ، بلڈ پریشراورکینسر کے مریضوں کے لئے دودھ لینے آتے ہیں کیونکہ  یہ ان کے لیے مفید ہوتا ہے،  اب تو ڈاکٹر بھی مریضوں کو اونٹنی کا دودھ تجویز کرتے ہیں۔’

یہ چار سو روپے فی کلو تک فروخت ہوتا ہے۔ دکاندار عدنان کا کہنا ہے کہ گھارو میں ان کا اپنا فارم ہے اور بعض مرتبہ وہ دبئی سے بھی درآمد کرتے ہیں۔

‘یہ  کاروبار اس قدر منافع بخش نہیں ہے, ہم تو صرف ثواب کمانے کے لیے یہ کام کررہے ہیں۔’

شہر میں برنس روڈ، صدر،  ناظم آباد، کلفٹن سمیت کئی علاقوں میں دکانوں پر اونٹنی کا دودھ دستیاب ہے جو اس سے قبل صرف مضافاتی علاقے ابراہیم حیدری میں ہی فروخت ہوتا تھا۔ بعض علاقوں میں دودھ کی ٹھنڈی بوتلیں مختلف فلیورز کے ساتھ بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ بعض ویب سائٹس پر بھی اونٹنی کے دودھ کی گھر بیٹھے دستیابی کی پیشکش موجود ہے۔

پاکستان کے صحرائی علاقوں کے علاوہ ساحلی علاقوں میں بھی اونٹوں کو پالا جاتا ہے، اونٹ کے دودھ کے حوالے سے پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کئی روایات موجود ہیں۔

کیمل ملک شاپ کے مالک عدنان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس کاروبار کا حجم بڑھا ہے جس کے باعث جگہ جگہ ایسی دکانیں کھل گئی ہیں کیوں کہ لوگوں کا اونٹنی کے دودھ کے حوالے سے اعتماد بڑھا ہے۔

 شہریار ہفتے میں ایک بار اونٹنی کا دودھ استعمال کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میرے جگر میں ورم تھا، اونٹنی کے دودھ کے استعمال سے طبعیت بہتر ہوئی ہے۔

‘میں نے مختلف ڈاکٹروں  سے علاج کرایا ، کئی ٹیسٹ کرائے اور مہنگی ادویات استعمال کیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہو۔ بعدازاں ایک حکیم سے علاج کروایا جنہوں نے اونٹنی کے دودھ کے استعمال کا مشورہ دیا جس کے استعمال سے مجھے فائدہ ہوا ہے۔’

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ویسے تو صحت کی تمام جدید سہولیات دستیاب ہیں لیکن لوگوں میں اسلامی طریقہ علاج بھی مقبول ہو رہا ہے جسے طبِ نبوی بھی کہا جاتا ہے، اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر طب نبوی کے حوالے سے خصوصی مضامین شایع اور پروگرام نشر کیے جارہے ہیں جبکہ ایس ایم ایس کے ذریعے بھی اس کی تشہیر کی جارہی ہے۔

 65 برس کے محمد طارق  دل اور شوگر کے مریض ہیں، وہ عجوا کھجور استعمال کرتے ہیں۔

‘میں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک حکیم سے عجوا کھجور اور اس کی گٹھلیوں  کے فوائد سے متعلق سُنا تھا، اب میں عجوا کھجور کی گٹھلیوں کا سفوف استعمال کرتا ہوں ،اس سے میری طبیعت کچھ بہتر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ عجوا کھجور کے استعمال سے شوگر نہیں بڑھتی۔ ہر روز کھجور نہیں کھاتا، تین دن میں تین کھجوریں کھاتا ہوں اور پھر تین روز کا وقفہ دیتا ہوں۔’

عجوا کھجور سے متعلق اسلامی روایت ہے کہ پیغمبرِ اسلام مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں عجوا کھجور  کا درخت لگایا تھا اور بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس سے کئی امراض میں شفا ملتی ہے۔

اسما فرید گھریلو خاتون ہیں، انہیں گزشتہ کئی برسوں سے شوگر کا مرض لاحق ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ‘میں باقاعدگی سے کلونجی استعمال کرتی ہوں کیونکہ قرآن میں لکھا ہے اور یہ سنت بھی ہے کہ کلونجی میں ہر علاج کے لیے شفا ہے۔ شوگر کنٹرول کرنے کے لیے نیم کے پتوں کا سفوف استعمال کرتی ہوں۔’

لباس اور بینکنگ کے بعد اب اسلامی طریقہ علاج بھی تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے۔ مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہارون  احمد  کا کہنا ہے کہ ٹی وی چینلز اس طریقہ علاج  کو فروغ دے رہے ہیں اورکینسر سے شفایابی کا دعوی بھی کرتے ہیں ۔ شوگر کے مریض کو کوئی اگر ٹھیک کردے تو میں نوبیل پرائز دے دوں گا لیکن لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔

” وجہ یہ ہے کہ ایلوپیتھک طریقہ علاج بہت مشکل ہوچکا ہے۔ کسی بڑے ہسپتال جائیں تو متعدد بلڈ ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں جو بہت مہنگے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ہر مرض کے فوری علاج کے حوالے سے بھی لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ روحانی اور مذہبی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ حکیم اور عالم حضرات کا دعویٰ ہے کہ ایسے امراض بھی ٹھیک ہوجائیں گے جو بہت پیچیدہ  ہیں اور اُن کا علاج ایلوپیتھک سائنس میں نہیں ہے۔’

پاکستان میں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن یہ دعوی کرتی ہے کہ صوبہ سندھ میں دو لاکھ عطائی ڈاکٹر کام کررہے ہیں۔ اگر ہر عطائی ڈاکٹر کے پاس روزانہ کم سے کم دس مریض بھی آئیں تو ایک اندازے کے مطابق روزانہ 20 لاکھ لوگ عطائی ڈاکٹروں سے اپنا علاج کرواتے ہیں۔

پی ایم ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق  سندھ میں سرکاری طور پر 825 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔

 پی ایم اے کے سابق صدر ڈاکٹر شیر شاہ کے مطابق اس وقت کراچی میں دس ہزار کے قریب ڈاکٹر پریکٹس کررہے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں روزانہ تقریباً ڈیڑھ سو آپریشن کیےجاتے ہیں۔

Hajama
:Photo by Farhana Niazi / News lens Pakistan.

شہر میں  حجامہ  بھی تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے۔ صرف چند برسوں میں کئی حجامہ سینٹر قائم ہوچکے ہیں،  جو ہر مرض کا علاج کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام لوگوں کے علاوہ  تعلیم یافتہ اور امیر طبقہ بھی اس طرف راغب ہو رہا ہے ۔

شہر کے پوش علاقے  کلفٹن دو تلوار کے قریب ایک عمارت میں  بھی ایک ایسا حجامہ سینٹر قائم ہے۔ دو کمروں پر مشتمل  کلینک کے باہر ایک ٹیبل پر سیکرٹری براجمان ہے جبکہ انتظار گاہ کی نشستوں پر خواتین اپنی باری کا انتظار کررہی ہیں۔

نیوز لینز  نے جب اس کلینک کا دورہ کیا تو کلینک سے نقاب میں ملبوس ایک لیڈی ڈاکٹر باہر نکلتی ہیں اور سیکرٹری کو کچھ ہدایات دے کر واپس چلی جاتی ہیں۔ اندر جاکر دیکھا تو  بیڈ پر ایک خاتون جسم پر کپ لگائے دراز ہیں جس میں گوشت ایک لوتھڑے کی مانند جمع ہے اور اس میں سے ہلکا ہلکا سا خون رس رہا ہے۔

یہ خاتون  کمر درد کے علا ج کے لیے یہاں آئی تھیں اور انھیں یقین تھا کہ حجامہ سے اُن کا یہ مسئلہ ٹھیک ہوجائے گا۔

ڈاکٹر امبر مشتاق جو کہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور فیملی میڈیسن کی ماہر ہیں، وہ کئی سال سے حجامہ کررہی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کا آن لائن کورس کیا جس کے بعد لندن جاکر حجامہ کے حوالےسے ایک ڈگری بھی حاصل کی۔

” حجامہ کے ذریعے سے ذیابیطیس، بلڈ پریشر، درد جیسے کمر درد ، آدھے سر کا درد  مائیگرین ، ڈپریشن، جلدی بیماریاں، تھائیرائیڈ کی بیماری ، ذہنی دباؤ  اور بانجھ پن میں واضع فرق نظر آتا ہے۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ حجامہ ہر بیماری کا علاج ہے۔ اگر کوئی سرجری کا مریض ہے یا کینسر کی آخری سٹیج پر ہے تو ہم اسے ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی پہلی سٹیج پر ہے تو ہم اس کا حجامہ کرتے ہیں۔ ’

ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر شرجیل کا کہنا ہے کہ حجامہ  کے ذریعے سے درد والی بیماریوں کا علاج تو ممکن ہے تاہم دائمی امراض اور دیگر پیچیدہ امراض کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔

‘اس کے ذریعے درد کا علاج ممکن ہے کیوں کہ پین گیٹ نظریے کے مطابق درد کو درد مارتا ہے۔ لیکن ہیپاٹائٹس،  کینسر، شوگر اور ایسے دیگر امراض کا علاج ممکن نہیں ہے۔’

ڈاکٹر امبر کا کہنا ہے کہ ‘حجامہ سے یہ ہوسکتا ہے کہ پہلی مرتبہ کپ لگوانے سے وہ درد پہلے پہل اُبھر کر باہر آجائے۔ لیکن پھر اس کے بعد وہ ٹھیک ہوجاتا ہے۔’

ڈاکٹر امبر خود ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر ہیں تاہم وہ دوسروں کو حجامہ کا مشورہ دیتی ہیں کیوں کہ اُن کے مطابق ایلوپیتھک دواؤں کی وجہ سے جسم میں ٹاکسنز (زہریلے مواد) جمع ہوجاتے ہیں جن کو ختم کرنے میں حجامہ بہت اچھا ہے۔’

ڈاکٹر امبر کے کلینک میں مسز ناجیہ خورشید سے ملاقات ہوئی جو جسم کے مختلف حصوں میں درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے حجامہ کروانے آتی ہیں۔

‘میری کزن نے بتایا کہ یہ علاج سنت ہے اس کو کروانے سے فرق پڑتا ہے۔ پہلے پاؤں کے لیے کروایا تھا آرام  آگیا اب بازو میں درد کے لیے کروارہی ہوں تو اب بھی کافی فرق محسوس ہوا ہے۔’

بعض ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اب غیر تربیت یافتہ افراد بھی کپ لگارہے ہیں جس کی وجہ سے انفکیشن بھی پھیل سکتا ہے اور ہیپاٹائٹس اور ایڈز جیسی موذی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

ڈاکٹر شرجیل بلوچ کے مطابق ‘غلط جگہ پر حجامہ کا کپ لگادینے سے اس کا اُلٹا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ اور غیر تربیت یافتہ افراد کے حجامہ کرنے سے بھی اس کے اُلٹے نتائج برآمد ہوسکتےہیں۔’

ایک رپورٹ کے مطابق  چار کروڑ افراد وائرل ہیپاٹائٹس سے متاثر ہورہے ہیں جن میں سے صرف ایک تہائی کیسز ہیپاٹائٹس سی کے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں تقریباً  ایک کروڑ افراد جو کہ آبادی کا چھ فی صد ہیں ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہیں۔

اِن حجامہ کلینکوں میں فی کپ کی قیمت دو سے اڑھائی سو کے درمیان وصول کی جاتی ہے۔ جبکہ مریض کو تین سے چار مرتبہ کلینک آنا ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حجامہ کرنے والے کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں، اس وجہ سے ان کا کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ہے کہ وہ کس کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

ڈاکٹر بلال احمد ایک  فارماسسٹ ہیں، وہ بھی کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں پانچ سال سے حجامہ کلینک چلارہے ہیں۔ اُن کا اس موضوع پرپی ایچ ڈی کا مقالہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اُن کے مطابق درخواستوں کے باوجود حکومت نے کوئی قانون سازی نہیں کی۔

‘پی ایم ڈی سی  کے دائرہ اختیار میں یہ آتا ہی نہیں ہے کیونکہ اس میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی اسی آتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ہومیو پیتھک طریقہ علاج کو اب جاکر قانونی بنایا گیا ہے تو پھر حجامہ تو ایک بالکل نیا طریقہ علاج ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔’

اس حوالے سے نیوز لینز پاکستان نے پی ایم ڈی سی کی پی آر او حنا شوکت سے ٹیلیفون پر بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ پی ایم ڈی سی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

‘ہمارے دائرہ اختیار میں ایم بی بی ایس اور ڈینٹسٹ آتے ہیں۔ اس حوالے سے قانون سازی کرنا یا کروانا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ میڈیکل آفیسر کی ذمہ داری ہے۔’

نیوز لینز پاکستان نے اس سلسلے میں ڈائریکٹر صحت کراچی ڈاکٹر عبدالشکور عباسی سے بات کی تو  انھوں نے کہا کہ اُنھیں ٹھیک سے معلوم نہیں شاید یہ روحانی یا پھر یونانی طریقہ علاج ہے۔

‘میرے خیال میں یہ طریقہ علاج غلط ہے، اس سے مختلف بیماریاں جیسا کہ ایڈز اور کینسر پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں چناں چہ حجامہ سنٹرز کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔’

‘ہومیو پیتھک داکٹرز تو اپنے کالج سے کوالیفائیڈ ہوتے ہیں۔ ان حجامہ والوں کا کچھ نہیں پتا کہ وہ کہاں سے سیکھتے ہیں، ہر کوئی اپنی دکان کھول کر بیٹھا ہوا ہے۔’

تاہم ڈاکٹر عبدالشکورعباسی کا کہنا تھا کہ وہ بااختیار نہیں ہیں کہ ان کے خلاف کوئی اقدام کرسکیں۔

یاد رہے صوبائی قانون کے مطابق رجسٹرڈ معالجین کے علاوہ کوئی بھی حکیم یا نیم حکیم، کمپاؤنڈریا نرس  ڈاکٹر کا لفظ استعمال نہیں کرسکتے اور اینٹی بائیوٹکس سمیت خطرناک ادویات کا نسخہ بھی نہیں دے سکتے۔ قانون کے مطابق خلاف ورزی پرایک سال کی قید کے علاوہ جرمانہ بھی عاید کیا جاسکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here