اسلام آباد (رحمت محسود سے)ایک پاکستانی افسر کے مطابق طویل عرصہ سے تاخیر کا شکار ہونے والے پاکستان، افغانستان و تاجکستان سہ فریقی ٹرانزٹ تجارت کے اس اہم ترین منصوبے پر افغانستان کی جانب سے بھارت کو شامل کرنے کے اصرار پر ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے لیکن پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے باعث اس تجویز کو یکسر رَد کردیا ہے۔
وزارتِ تجارت کے مذکورہ افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے،نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ خارجہ تعلقات کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے جس کے باعث دونوں ممالک اہم امور پر آگے نہیں بڑھ پا رہے۔
نیوز لینز پاکستان نے جب اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے سے اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کے لیے درخواست کی تو اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

: Photo by News Lens Pakistan
: Photo by News Lens Pakistan

وزارت کے افسر نے ذہن کے دریچوں کو وا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، افغانستان و تاجکستان سہ فریقی ٹرانزٹ تجارت کے منصوبے پر نظرثانی کے لیے واحد اجلاس اسلام آباد میں گزشتہ برس مارچ میں ہوا تھا۔
مذکورہ افسر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی سیکرٹری تجارت شہزاد ارباب، افغانستان کے قائم مقام وزیر تجارت و صنعت مزمل شنواری اور تاجکستان کے نائب وزیر تجارت سعید رحمان نے کچھ ماہ قبل ماہرین کے اولین اجلاس میں اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طویل گفت و شنید کے دوران تمام تین فریقین نے مشاورتی عمل کو فیصلہ کن بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔تینوں فریقوں میں تکنیکی گفت و شنید کے لیے فوکل پرسن تعینات کرنے پر بھی اتفاق ہوا اور ایک اور اجلاس دوشنبے میں ہوا جس میں سہ فریقی تجارتی معاہدے کا اولین ڈرافٹ تیار ہوا۔
مذکورہ افسر کا مزید کہنا تھاکہ اجلاس میں اس امید کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ معاہدے کے حتمی مسودے پر رواں برس کابل میں دستخط ہونے کا امکان ہے۔
وزیرِ تجارت خرم دستگیر خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رابطہ سازی اور وسطی ایشیا کی ریاستوں و افغانستان کے لیے گوادر و کراچی کی بندرگاہوں تک تیز تر رسائی دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ تجارت کے لیے ایک کم آمدن اور بہتر آپشن ہے۔ وزیر تجارت نے مزید کہا:’’ معیشت اور تجارتی تعلقات کو دیگر سیاسی اور سکیورٹی امور سے الگ رکھا جانا چاہیے۔‘‘
دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقریباً 14برس ہوچکے ہیں جس نے پاکستان و افغانستان کی معیشت اور دونوں ملکوں کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر ڈالا ہے۔
حکومتِ پاکستان کے سابق مشیرِ خزانہ اشفاق حسن خان نے کہا:’’ افغانستان، بھارت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ یہ بھارت کی خواہش ہے کہ وہ اس منصوبے میں شامل ہو۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ موجودہ سیاسی بیانیے میں پاکستان، بھارت کو یہ سہولت فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے اس امید کا اظہارکہا کہ اگر اس حوالے سے بریک تھرو ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت میں بلکہ پورے خطے میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا۔
اشفاق حسن خان نے کہا:’’ بھارت کو پاکستان کے حوالے سے اپنے مؤقف میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈین وزیراعظم نریندرمودی کو عوام کی ترقی و خوش حالی کے وسیع تر مفاد کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
وزارتِ تجارت کے افسر نے کہا کہ ارباب شہزاد نے اپنے افتتاحی خطبے میں کہا تھا کہ خطے کے ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار سے ممالک میں پرجوش تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ارباب شہزاد نے مزید کہا تھا:’’ پاکستان ، وسطی ایشیائی وپڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے پرجوش ہے اور ملک کے جنوب میں گرم پانیوں کے ذریعے ان ممالک کو دنیا سے جڑنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔‘‘
مزمل شنواری نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ خطے کے معاشی انضمام کا باعث ثابت ہوگا۔انہوں نے کہاتھا:’’ پاکستان، افغانستان و تاجکستان کاسہ فریقی تجارتی معاہدے پراتفاق تینوں ملکوں کے لیے بالخصوص اور خطے کے لیے بالعموم انتہائی مفیدثابت ہوگا۔‘‘
تاہم سعید رحمان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے میں شامل ملکوں کے تعلقات معاشی نوعیت کے ہیں جو مزید گہرے ہورہے ہیں۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا تھا:’’ ٹرانسپورٹ کی ایک مشترکہ راہداری کے قیام سے علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور بیرونی سرمایہ کار وںکو جب شاندار معاشی مواقع نظر آئیں گے تو وہ اس جانب راغب ہوں گے۔‘‘
قائدِاعظم یونیورسٹی کے سکول آف اکنامکس سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انور شاہ نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا :’’معاہدے پراگر دستخط ہوجاتے ہیں تو اس سے پاکستان معاشی طور پر ترقی کرے گا۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے باعث پاکستان اس معاہدے کے ذریعے ایک بڑی منڈی تک رسائی حاصل کرلے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں سے پاکستان میں بہت سے شعبوں کو فائدہ حاصل ہوگا اور ملازمت کے مواقع دُگنا ہوجائیں گے جس سے پاکستان کو اپنے ایک بڑے معاشی مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
وزارت کے مذکورہ افسر نے کہا کہ قبل ازیں پانچویں افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوارڈینیشن اتھارٹی نے تفصیل سے ان مسائل پر تبادلۂ خیال کیا جن کا دونوں ملکوں کے بزنس مین سامنا کر رہے ہیں۔
نیوز لینز پاکستان کو دستیاب ہونے والی دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ اس حوالے سے بہت سے حل طلب مسائل پر بات ہوئی جن میں الیکٹرانک کوائف کا تبادلہ، ٹرانزٹ کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اقدامات، کراچی کی بندرگاہوں پر تجارتی سرگرمیوں کے لیے سہولیات فراہم کرنا، سہ فریقی تجارت کے ساتھ ساتھ ٹرانزٹ کے لیے سنگل گڈز ڈیکلریشن فارمیٹ، مشترکہ بزنس کونسلوں کا قیام، پاکستانی مزدوروں کے لیے ملٹی پل انٹری ویزہ،گڈز ڈیکلریشن کے حوالے سے پاکستانی مصنوعات کی برآمد کے لیے دونوں ممالک کے درمیان طورخم پر کسٹم کواپریشن کا معاہدہ (سی سی اے) اور دیگر ضوابط شامل ہیں۔
ڈاکٹر انور شاہ نے کہا کہ تینوں ملکوں کے درمیان راہداری کے قیام سے افغانستان کی تجارتی برادری کے ٹرانزیکشن پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آئے گی جس سے ان کے کاروبار کو وسعت ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرنے کے ضمن میں ٹرانزیکشن کی لاگت کو کم کرنے کے لیے طریقۂ کار کو سادہ بنانے اور کاروباری برادری کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔مثال کے طور پر کلیئرنس ، سرحد پر ٹرکوں کی طویل قطاروں اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے بارہا جانچ کیے جانے کے مسئلے کو حل کرنے سے کاروباری لاگت کم ہوجائے گی۔‘‘
وزیرتجارت خرم دستگیر خان نے کہا کہ ٹی آئی آر کنونشن پر دستخط تجارتی سہولیات فراہم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے اور یہ گزشتہ 13برس سے پاکستان کے زیرِغور ہے۔
اقوامِ متحدہ کے معاشی کمیشن برائے یورپ کی ویب سائٹ کے مطابق ٹی آئی آر کنونشن سرحد کے اطراف میں معاہدہ کرنے والے ملکوں کے درمیان مصنوعات کی ٹرانزٹ کے حوالے سے ایک قانونی فریم ورک ہے جس کے تحت کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کرنا ضروری نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے معاشی کمیشن برائے یورپ نے 1975ء میں ٹی آئی آر کنونشن تشکیل دیا جو 1978ء میں نافذ العمل ہوا۔ مزیدبرآں 68ممالک اور یورپی یونین اس کنونشن میں فریق ہیں۔
آل پاکستان آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین لئیق زادہ بھتانی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹرانسپورٹیشن اور تجارت سے متعلقہ سرگرمیاں بڑی حد تک کم ہوگئی ہیں۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ 2011ء کے بعد سے ٹرانسپورٹیشن کے شعبہ میں 25فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ 2005ء سے 2011ء تک ہم ایک ہزار آئل ٹینکر افغانستان بھیجا کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد صرف 100رہ گئی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کی کاروباری برادری کی اکثریت افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی معاہدے کے حوالے سے آگاہ نہیں ہے لیکن وہ رکاوٹوں کے بغیر تجارت کرنا چاہتے ہیں۔
ایک افغان ٹرک ڈرائیور یونس خان نے کہا کہ ہم کراچی میںافغانستان سامان بھیجنے کے لیے مہینوںمنتظر رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ کاروباری سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ہم دونوں ملکوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ کاروباری روابط دیکھناچاہتے ہیں کیوں کہ بہت سے خاندانوں کا رزق ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here