پشاور (ثناء اعجاز سے) جان محمد پشاور کی انڈسٹریل اسٹیٹ حیات آباد میں واقع پرنٹنگ و پبلیکیشن فیکٹری کے دروازے کا تالہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ 70برس کے یہ معمر محنت کش پلاسٹک اور کپڑے کی چادروں سے ڈھانپی گئی دیوقامت مشینری کو یکھتے ہیں جو بند پڑی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہیوی مشینری کو ٹھکانے لگایا گیا ہے کیوں کہ یہ عرصہ دراز سے استعمال نہیں ہوئی جس کے باعث اس پر گرد کی دبیز تہہ جم چکی ہے۔فیکٹری میں ویرانی چھائی ہوئی ہے۔

Jan Mohamad a helper opening the the gate of closed printing press: Photo by News Lens Pakistan / Sana Ejaz
Jan Mohamad a helper opening the the gate of closed printing press: Photo by News Lens Pakistan / Sana Ejaz

محمد جان نے جب یہ کہا کہ وہ اس فیکٹری میںکئی برس تک کام کرچکے ہیں اور ایک و قت تھا جب بلاتعطل کام جاری رہتا تھاتو یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا کہ اس ویران مقام پر کبھی چہل پہل رہی تھی۔
انہوں نے خالی نظروں سے فیکٹری کو دیکھتے ہوئے کہا:’’ مالک نے حال ہی میں مشینری کے دو یونٹ انتہائی کم قیمت میں فروخت کیے ہیں۔ میں خوف زدہ ہوں کہ وہ دن جلد آئے گا جب وہ یہ پوری فیکٹری فروخت کردے گا اور محنت کشوں کی کام پر واپسی کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی۔‘‘

خاندان کا واحد کفیل ہونے کے باعث جان محمد اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ وہ گزشتہ چار ماہ سے فارغ ہیں اور اب مایوس ہورہے ہیں۔ان کی ذمہ داری اب صرف مشینری کی حفاظت کرنا، اس کو مناسب انداز سے ڈھانپنا اور گرد اور زنگ صاف کرنا ہے۔ جان محمد کہتے ہیں:’’فیکٹری سے کبھی بہت زیادہ لوگ منسلک تھے، یہ مقام ان کے لیے بہت بڑا نہیں تھا۔ میں یہاں پر اب اکیلا ہوتا ہوں اور اس امید پر مشینری کو صاف رکھتا ہوں کہ ایک روز یہ پھر چالو ہوجائیں گی۔‘‘

رواں برس مارچ میں فرنٹیئر پرنٹرز اینڈ پبلشرز ایسوسی ایشن (ایف پی پی اے)نے خیبر پختونخوا میں برسرِ اقتدار تحریکِ انصاف کی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جس کے تحت پرانی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے پرنٹنگ کے آرڈرزاوپن ٹینڈر پالیسی کے ذریعے اہلیت کی بنیاد پر پرنٹنگ پریسوں کو الاٹ کیے گئے جس کے باعث پنجاب کے پرنٹرز بھی مقابلے کی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ ایف پی پی اے کے مطابق اس پالیسی کے باعث ’’نصابی کتابوں کا 80فی صد سے زائد کاروبار اوپن ٹینڈر کے باعث پنجاب کے پرنٹرز کو منتقل ہوگیا ہے اور یوں مقامی پرنٹرز اپنے یونٹ بند کرنے اور مستقل و کنٹریکٹ پر کام کرنے والے عملے کو فارغ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔‘‘

ایف پی پی اے کے چیئرمین اقتدار علی اخونزادہ کے مطابق اربوں روپے مالیت کی صنعتی مشینری بے کار پڑی ہے کیوں کہ خیبرپختونخوا کے پرنٹنگ پریسوں کے مالکان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اوپن ٹینڈر پالیسی سے قبل پرنٹنگ پریس اور پبلشرز اپنا کاروبار مناسب طور پر کر رہے تھے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا معیار پنجاب کے پبلشرز سے کسی طور بھی کم ہے۔‘‘

اقتدار علی اخونزادہ نے صوبے میں برسرِاقتدار جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پر الزام عاید کیاکہ اس کی جڑیں خیبرپختونخوا کے بجائے پنجاب میں ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ حکومت صوبے کے مالکان اور محنت کشوں کو تباہ کرنے پر تلی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں پانچ سو پرنٹنگ پریس تھے جن پر تین شفٹوں میں آٹھ محنت کش کام کرتے۔ اقتدار علی اخوانزادہ نے کہا کہ تاہم 15ہزار سے زائد محنت کشوں کی گزر بسر پرنٹنگ انڈسٹری سے منسلک ہے۔

Abdur Rehman a daily wager: Photo by News Lens Pakistan / Sana Ejaz
Abdur Rehman a daily wager: Photo by News Lens Pakistan / Sana Ejaz

نیشنل لیبر فیڈریشن ضلع پشاور کے صدر ملک ہدایت خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’خیبرپختونخوا کی پرنٹنگ انڈسٹری سے منسلک 10ہزار سے زائد محنت کش بے روزگار ہوچکے ہیں۔‘‘

سابق وزیرِ تعلیم اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سردار حسین بابک نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد مقامی صنعت کے فروغ کے لیے صرف صوبائی پرنٹنگ پریسوں کو ہی آرڈر دیے جانے چاہئیں۔

تاہم صوبائی وزیرِ تعلیم عاطف خان نے نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہاکہ قبل ازیں ٹیکسٹ بک بورڈ کو پرنٹنگ آرڈر ’’الاٹ ‘‘ کرنا غلط تھا کیوں کہ حکومتی افسر اور وزرا اقربا پروری کی بنیاد پر کوٹہ جاری کرتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ حکومت کو جب پرنٹنگ کا کوٹہ ’’پسند و ناپسند‘‘ کی پالیسی کے تحت دینے کے بارے میں معلوم ہوا تو اسے تبدیل کردیا گیا۔‘‘

عاطف خان نے کہا کہ پرنٹنگ پریس بند ہونے اور محنت کشوں کے بے روزگار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فرنٹیئر پرنٹنگ پریس اینڈ پبلشرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے اوپن ٹینڈر میں حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہا:’’پرنٹنگ پریس کے مالکان کے رویے کے باعث محنت کش ملازمت سے محروم ہوئے ہیں۔ ہم نے کم قیمت پر چھپائی کے لیے اوپن ٹینڈر پالیسی لاگو کی ہے۔اس سارے عمل میں میرٹ کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔‘‘

اساتذہ اور سکولوں کی کتابوں کے ڈسٹری بیوٹرز کہتے ہیں::’’پنجاب سے نصابی کتابوں کی اشاعت کے باعث سکولوں کو کتابوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے کیوں کہ پنجاب سے شایع ہونے والی کتابوں کو خیبرپختونخوا کے سکولوں تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔‘‘
نصابی کتابوں کے ایک ڈسٹری بیوٹر محمد عمران کہتے ہیں:’’جماعت نہم اور دہم کی کیمیا اور جماعت دہم کی بیالوجی کی کتابیں بازار میں اب تک دستیاب نہیں ہیں۔‘‘ محمد عمران صوبے کے 190 مڈل اور ہائی سکولوں کو کتابیں فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سکولوں کو کتابیں فراہم کرنے میںمزید ’’ ایک یا دو‘‘ ہفتے لگ جائیں گے۔

ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والی ایک استانی نورین بی بی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جماعت پنجم کے طالب علموں کو ریاضی اور اُردو، جماعت چہارم کے طالب علموںکو پشتواور جماعت سوم کے طالب علموں کو انگریزی اور جنرل نالج کے مضامین نہیں پڑھا سکتیں کیوں کہ ان مضامین کی کتابیں اب تک سکولوں میں نہیں پہنچیں۔

صوبائی وزیرِ تعلیم کے حلقۂ انتخاب مردان کو بھی کتابوں کی کمی کا سامنا ہے۔ مردان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون عابدہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹیاں سکول جاتی ہیں لیکن وہ یہ شکایت کرتی ہیں کہ جماعت سوئم اور چہارم کی جنرل نالج، انگریزی اور اُردو کی کتابیں سکول اور نہ ہی مارکیٹ میںدستیاب ہیں۔
سابق وزیرِ تعلیم سردار حسین بابک کہتے ہیں کہ نصابی کتب کی پنجاب کے پرنٹنگ پریسوں سے اشاعت پر خاصا وقت لگ جاتا ہے جس کے اثرات ’’ بالآخر صوبائی نظامِ تعلیم پرمرتب ‘‘ ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ نصابی کتب کے ٹینڈر سے پبلک سروس کمیشن کے افسروں کی پنجاب سے تعیناتی تک ، پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے وسائل استعمال کرکے پنجاب میں اپنا ووٹ بنک محفوظ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘

ٹیکسٹ بک بورڈ کے سابق صوبائی پراجیکٹ کوارڈینیٹر راشد خان پیندا خیل کے مطابق مسابقت کی فضا پیدا کرنے کے لیے تشکیل دی گئی اوپن ٹینڈر پالیسی کی تشکیل ایک مثبت اقدام ہے لیکن کتابوں کی بروقت فراہمی کا عمل متاثر ہواہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ ہم ناقص کاغذ، سیاہی اور لیمینیشن پر پرنٹنگ پریسوں کو سزا دیا کرتے تھے اور اکثر و بیش تر ضابطوں اور معیار پر عمل نہ کرنے کے باعث ان کا کوٹہ منسوخ کردیتے۔ میرا نہیں خیال کہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی کمیٹی ان بنیادوں پر پنجاب کے پرنٹنگ پریسوں کو سزا دے سکتی ہے۔‘‘

راشد خان پیندا خیل نے کہا کہ ممکن ہے اوپن ٹینڈر پالیسی کے باعث مسابقت کی فضا پیدا ہونے سے صوبائی خزانہ بچ جائے لیکن اس پالیسی کے ٹیکسٹ بک بورڈ کمیٹی اور پنجاب کے پرنٹنگ پریسوں کے درمیان روابط نہ ہونے اور کتابوںکی فراہمی میں تاخیر کی صورت میں’’مضمرات‘‘ بھی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here