پشاور (عطاء اللہ خان سے) 40لاکھ آبادی کے شہر پشاور میں روزانہ کئی ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے جسے ماہرین ’’ سیاہ سونے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن اس کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل نہیں کیا جارہا۔
حکومتِ پشاور کے زیرِانتظام کام کرنے والی خودمختار کارپوریٹ فرم واٹر اینڈ سینیٹری سروسز(ڈبلیو ایس ایس پی) کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پشاور کا رقبہ 1257مربع کلومیٹر ہے اوریہ پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے جس کی 49یونین کونسلوں میں روزانہ 810ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے۔
ڈبلیو ایس ایس پی کے منیجر آپریشنز ناصر غفور نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ شہر میں پیدا ہونے والے 810ٹن کوڑا کرکٹ میں سے روزانہ 70سے 75فی صد تلف کیا جاتا ہے جب کہ باقی شہر میں اسی طرح پڑا رہتا ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ 810ٹن کوڑا کرکٹ کا 75فی صد یعنی 607ٹن ری سائیکلنگ کے لیے اکٹھا کرلیا جاتا ہے جب کہ تقریباً200ٹن شہر میں ہی پڑا رہتا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
ناصر غفور کہتے ہیں:’’ عالمی سطح پر کوڑا کرکٹ کو سیاہ سونا تصور کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اب تک کسی اچھی ملٹی نیشنل کمپنی کی تلاش میں ہیں کہ وہ اس کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کرنے میں ہماری مدد کرے۔‘‘
2014-15ء میں ڈبلیو ایس ایس پی نے پشاور سے 65ہزار ٹن کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگایا جو ایک ’’بڑی مقدار‘‘ ہے اور اسے توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ڈبلیو ایس ایس پی کے مطابق 2015ء میں 15بین الاقوامی کمپنیوں نے شہر میں پیدا ہونے والے کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سکیورٹی کی صورتِ حال کے پیشِ نظر کسی بھی کمپنی نے کام کا آغاز نہیں کیا۔
ڈبلیو ایس ایس پی کے ایک سینئر افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ 10سے زائد ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں نے کوڑا کرکٹ سے 10سے 13میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ ممکن ہے کہ سکیورٹی کے خدشات نے رکاوٹ پیدا کی ہو لیکن افسرِ شاہی کے رویے کے باعث بھی یہ معاہدے نہیں ہوسکے۔
ڈبلیو ایس ایس پی کے مطابق مقامی کمپنیاں تمام کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ ناصرغفور کہتے ہیں:’’ یہ کمپنیاں صرف30فی صد کوڑے کرکٹ کو ہی ری سائیکل کرکے اس سے کھاد بناسکتی ہیںجب کہ باقی 70فی صد کوڑا کرکٹ ضایع ہوجاتا ہے۔ شہر میں مختلف مقامات پر جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ کودوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے ہمیں اضافی اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
ڈبلیو ایس ایس پی کے اعداد و شمار سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ پشاور میں اوسطاً روزانہ0.3سے 0.4کلوگرام کوڑاکرکٹ فی کس پیدا ہوتا ہے۔ شہر کے جنوبی حصے میں ٹھکانے لگائے جانے والے کوڑا کرکٹ میں سے خاکروب، جن میں بچوں کی ایک بری تعداد شامل ہوتی ہے، ری سائیکل کیے جانے کے قابل اشیاء جیسا کہ لوہا، کاغذ، پلاسٹک اور پرانے کپڑے وغیرہ چنتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ کے اس ڈھیر کو مناسب طور پر ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ خاکروب اور منشیات کے عادی افراد کوڑے کرکٹ کے اس ڈھیڑمیں سے کاٹھ کباڑ جمع کرتے ہیں تاکہ اسے فروخت کرسکیں۔
ضلع پشاور چار ٹائونوں اور 93یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ زرعی اور ماحولیاتی مینجمنٹ کے ماہر میاں مقبول حسین کے مطابق ان ٹائونوں اور کونسلوں کی 40لاکھ آبادی کے لیے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے کے لیے صرف دو مقامات ہزار خوانی اور لنڈی اخون احمد ہی مخصوص کیے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کوڑاکرکٹ میں سے مختلف اشیا چننا شہر کے ہزاروں غریب لوگوں کی گزر بسر کے لیے واحد سرگرمی ہے۔ میاں مقبول حسین کے مطابق خاکروبوں کی جانب سے ری سائیکل کیے جانے کے قابل اشیاء جیسا کہ شیشے اور مختلف دھاتوں کو جمع کرنے کے لیے کوڑا کرکٹ کو آگ لگانا’’ ایک تشویش ناک اور خطرناک عمل‘‘ ہے۔
اُن کے مطابق کوڑا کرکٹ پھینکے جانے سے قبل ہی ری سائیکل کیے جانے کے قابل تقریباً نصف اشیاء چن لی جاتی ہیں۔ وہ ایک ویب سائٹ bioenergycosult.com پر لکھتے ہیں:’’ ری سائیکل کیے جانے کے قابل اشیاء ، جو گھروں میں رہ جاتی ہے، کی مقدار کی شرح مختلف ہے اور حکام اس وقت تک یہ حاصل نہیں کرسکتے جب تک یہ براہِ راست کوڑے کرکٹ میں نہیں پھینکی جاتیں۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں:’’ صرف مخصوص مقامات پر پہنچنے والی ری سائیکل کیے جانے کے قابل اشیاء ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اگر گھروں سے کوڑا کرکٹ جمع کرنے کا نظام متعارف کروایا جاتا ہے تو میونسپلٹی ری سائیکل کیے جانے کے قابل 90فی صد اشیاء حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گی۔‘‘
یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ انرائرنمنٹل سائنسز سے منسلک پروفیسرڈاکٹر شفیق رحمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوڑا کرکٹ کو کھلے آسمان تلے ٹھکانے لگانا جمالیاتی طور پر کراہت انگیز ہے جس سے ہزاروں ایکڑ زمین متاثر ہوتی ہے جسے زرعی اور تعمیراتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ شہر سے دور ایسے مقامات پر کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگایا جائے جہاں آبادی نہ ہو۔
کوڑا کرکٹ بنیادی طور پر تین اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے: قدرتی طور پر ری سائیکل ہونے والے کوڑا کرکٹ میں بچ جانے والی خوراک، جانوروں کا فضلہ، پتے، گھاس پھوس اور لکڑی شامل ہوتی ہے، قدرتی طور پر ری سائیکل نہ ہونے والے کوڑا کرکٹ میں پلاسٹک، ربڑ، کپڑااور مختلف دھاتیں جب کہ ری سائیکل ہوسکنے والی اشیا ء میںکاغذ، گتہ اور ہڈیاں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر شفیق رحمان کہتے ہیں کہ عالمی معیار کے مطابق کوڑا کرکٹ کو شہروں سے اکٹھا کرکے عارضی مقامات پر منتقل کیا جانا چاہئے جہاں قدرتی طور پر ری سائیکل ہونے والے کوڑا کرکٹ کو الگ کیا جائے۔قدرتی طور پر ری سائیکل نہ ہونے والے کوڑا کرکٹ کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جائے اور ری سائیکل کیے جانے کے قابل، دوبارہ استعمال کے قابل اور تلف کیے جانے کے قابل کوڑا کرکٹ کو الگ الگ کرلیا جائے۔
وہ مزید کہتے ہیں:’’ پشاور میں ری سائیکلنگ کے لیے الگ کرنے کے اس طریقے پر عمل نہیں کیا جارہاجس کے باعث شہر میں کوڑے کے ڈھیر میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ فطری طور پر ری سائیکل ہونے والا مواد انتہائی قیمتی ہوتا ہے کیوں کہ یہ کھاد میں تبدیل ہوسکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر شفیق رحمان کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں میں ری سائیکل ہونے کے قابل کوڑا کرکٹ کو کنکریٹ کے کنویں میں مختلف تہوں میں رکھا جاتا ہے، ہرتہہ کو مٹی یا ریت سے ڈھانپا جاتا ہے اور ری سائیکل ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بیکٹیریائی وکیمیائی عمل اور موسمیاتی اثرات اس کوڑا کرکٹ کو کھاد میں تبدیل کردیتے ہیں جسے زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ کو جب کھلے آسمان تلے ٹھکانے لگایا جاتا ہے تو بارش کا پانی اس میں سے گزر کر زمین میں جذب ہوجاتاہے جسے لوگ ٹیوب ویلوں کے ذریعے استعمال میں لاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا:’’ بارش کا آلودہ پانی ندیوں اور بعدازاںزیرزمین پانی میں شامل ہوجاتا ہے جس سے آلودگی پیدا ہوتی ہے اور مختلف بیماریوں جنم لیتی ہیں۔ یہ لوگوں کی صحت اور آبی مخلوقات کے لیے مضر ہے کیوں کہ کوڑا کرکٹ پر مکھیوں، جراثیم ، اور دیگر گوشت خور جانوروں کے جتھے جمع رہتے ہیں جس سے لوگوں کی صحت اور ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر شفیق رحمان کے مطابق زمین کے کم از کم استعمال، مؤثر مینجمنٹ، تمام کوڑا کرکٹ کو جمع کرنے کے علاوہ اسے مختلف اقسام میں تقسیم کرکے ہم ماحول کو محفوظ بناسکتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں’’ ہم ان خطرات کے مقابل بے بس ہوں گے اور ان سے ہم مستقبل قریب میں نپٹ نہیں سکیں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 2008ء سے 2013ء کے درمیان دنیا کے 16سو شہروں میں ایک تحقیق کی جس سے یہ منکشف ہوا کہ کراچی دنیا کا پانچواں، پشاورچھٹا اور راولپنڈی ساتواں آلودہ ترین شہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ تحقیق ہوائی آلودگی سے متعلق تھی لیکن کوڑا کرکٹ کو عمومی طور پر جلا کر تلف کیا جاتا ہے جس سے ضرر رساں گیسیں خارج ہوتی ہیں جو فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔
انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) خیبر پختونخوا کو شہریوں کی جانب سے کوڑا کرکٹ کو کھلے آسمان تلے ٹھکانے لگانے، جن میں ہسپتالوںکا فضلہ بھی شامل ہوتا ہے، اور ان کو جلانے کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہوچکی ہے۔
ای پی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ممتاز علی کہتے ہیںکہ انہوں نے ان شکایات پر کارروائی کی ہے اور ہائی کورٹ کے گرین بنچ میں مقدمات زیرِسماعت ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم تجاویز دے چکے ہیں جنہیں ڈبلیو ایس ایس پی اور کسی بھی دوسری میونسپلٹی کو کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے اپنے مخصوص مقامات پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ ہسپتال کے فضلے کو ان مقامات پر ٹھکانے نہ لگایا جائے اور کھلے آسمان تلے نذرِ آتش کرنے کی بجائے زمین میں دبا دیا جائے۔‘‘
ممتاز علی کہتے ہیں کہ ہسپتال کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے قانون 2015ء کے مطابق ہسپتال کی انتظامیہ ہی اس حوالے سے ذمہ دار قرار پاتی ہے تاہم بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شہر کے بڑے ہسپتالوں میں تو اس حوالے سے ٹیکنالوجی موجود ہے جب کہ چھوٹے ہسپتال ایسی ٹیکنالوجی نصب کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کیوں کہ یہ خاصی مہنگی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ روزانہ ہی ہسپتالوں کا فضلہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں شامل ہوتا ہے جو انسانی صحت اور ماحول کے لیے ضرر رساں ہوتا ہے۔‘‘
ممتاز علی کے مطابق موجودہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ ادارے اور افراد ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ انوانمنٹل پروٹیکشن ٹربیونل کی مدت 2014ء میں ختم ہوگئی تھی جس کے باعث تقریباً سات سو مقدمات التوا کا شکار ہوچکے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here