ضلع لیہ موجودہ دور حکومت میں بھی نظر انداز

1
891
ضلع لیہ موجودہ دور حکومت میں بھی نظر انداز سابقہ دور حکومت کے جاری ترقیاتی منصوبہ جات  کے لیے معمولی فنڈز جاری، سڑکوں کی تعمیر کا کوئی نیا منصوبہ منظور نہ ہوسکا جبکہ خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے گزشتہ 8 سال کے دوران لیہ میں 16978 حادثات میں 350 افراد جانبحق، 1000 سے زائد افراد اپاہج اور 13425 مریضوں کو مختلف ہسپتالوں میں ریفر کیا گیا
پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمپین کے دوران کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر عوام سے ووٹ مانگے اور پاکستان کے ہر شہری نے یہ سوچ کر ووٹ دیا کہ 70 سال میں پرانے سیاستدانوں نے قسمت آزمائی اب کی باری پی ٹی آئی یوں اقتدار کی بال پاکستان تحریک انصاف کے کورٹ میں جاگری لیکن اقتدار میں آنے کے بعد تمام وعدے وعدے ہی رہے آج بھی پاکستان بھر کے تمام اکاونٹس آفسز میں میٹھائی کے نام پر ہر نئے آنے والے گونمنٹ ملازمین سے ہزاروں روپےمیٹھائی طلب کی جاتی ہے نہ دینے والا مہینوں خوار ہوتا ہے۔ بسوں میں من مانے کرائے اور پیٹرول پمپس پر اپنی مرضی کے پیمانے بھی تو کرپشن کے ذمرے میں آتا ہے گورنمنٹ ہسپتالوں میں آپریشن یا ڈلیوری کے بعد میٹھائی کے نام پر ہزاروں روپے لینا حق سمجھا جاتا ہے ہر نئی خریدی جانے والی جائیداد پر ہزاروں روپے میٹھائی کے نام پر پٹواری کو دینا بھی تو کرپشن ہے ہر گورنمنٹ آفس میں بڑا آفیسر جہاں لاکھوں کماتا ہے وہیں چھوٹے ملازمین میٹھائی اور مبارکباد کے نام پر ماہانہ لاکھوں روپے گھر لے جاتے ہیں اگر یہ کرپشن نہیں تو ہم معذرت چاہتے ہیں 
پسماندگی دور کرنے کے نام پر جن علاقوں سے ووٹ لیے گئے اور پاکستان تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا وہاں ایک اہم نام پسماندہ ضلع لیہ کا بھی ہے جی ہاں وہی لیہ جس کا بیشتر حصہ صحراء پر مشتمل ہے جہاں سہولیات کی کمی کے پیش نظر کوئی بھی ایک ایسا تعلیمی ادارہ موجود نہیں جس میں آفیسرز تیار کیے جاتے ہوں لیہ سے تعلق رکھنے والے تمام آفیسرز لاہور، ملتان، کراچی یا اسلام آباد کی بڑی یونیورسٹیز اور اکیڈمیز سے تعلیم یافتہ ہیں جس پر یقینا اخراجات کئی گناہ زیادہ آتے ہیں اور غریب والدین اپنے بچوں کو افسر دیکھنے کا خواب لیے ہی راہی عدم ہوجاتے ہیں وہی لیہ جہاں آج بھی بچے ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتےہیں جہاں انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری زیادہ ہے وہ علاقہ جس کے کھیل کے میدان سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیشنل لیول کا کھلاڑی پیدا کرنے سے قاصر ہیں وہ لیہ جسے ہر سال دریائے سندھ نشانے پر رکھے ہوئے ہے لیکن آج تک مناسب انتظامات نہیں کیے جا سکے وہ لیہ جہاں اچھی اور اونچی آواز میں تقریر کرنے والا شیر اسمبلی تو رہتا ہے لیکن اسے فنڈز کبھی نہیں ملے پسماندہ علاقوں کے ہسپتالوں، سکولوں سڑکوں، اور منظور شدہ میگا پراجیکٹس کے فنڈز روکنا یا چند لاکھ روپے جاری کرنا اگر کفایت شعاری اور ترقی ہے تو ہم معذرت چاہتے ہیں
حکومت پنجاب کے سالانہ میزانیہ 2018-19 کے لیے بجٹ بک کے مطابق ضلع لیہ کے منظور شدہ منصوبہ جات  جن میں گورنمنٹ ویمن کالج راجن شاہ پر لاگت کاتخمینہ 128.430 ملین روپے لگایا ہے 5 ملین روپے منظور کیے گئے جبکہ منصوبہ کے لیے رقم کا اجراء صفر ہے، 200 بیڈز پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال کی تعمیر کا تخمینہ1ہزار ملین روپے لگایا گیا ہے 14 ملین روپے اس میزانیہ میں جاری ہونے تھے جبکہ گورنمنٹ پنجاب کی جانب سے اس پروجیکٹ کے لیے بھی فنڈز کا اجراء زیرو ہے ڈیرہ ڈویژن کے اضلاع میں ورکنگ ویمن ہاسٹلز کی تعمیر کی کاسٹ 150 ملین روپے مقرر کی گئی ہے کنسٹرکشن ورکے کے آغاز کے لیے منظور کی گئی رقم 10 ملین روپے ہے جبکہ اس پروجیکٹ کے لیے بھی حکومت پنجاب نے ایک دھیلا جاری نہیں کیا، حکومت پنجاب کے لیہ میں چوتھے منظور کیے گئے بڑے منصوبے میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ شامل ہے جس کی تعمیر کے اخراجات 14.912 ملین روپے مقرر کی گئی ہے اس منصوبے کے لیے10 ملین روپے جاری ہونے تھے لیکن فنڈز ندارد ہیں یوں حکومت پنجاب کی جانب سے لیہ کے منظور شدہ 4 نئے منصوبہ جات پر 1293 ملین روپے اخراجات آئیں گے 39 ملین روپے کی گرانٹ منظور کی گئی اور ایک روپیہ بھی جاری نہ کیا گیا۔ ضلع لیہ کے چاروں ترقیاتی منصوبہ جات میں سے بہادر سب کیمپس بہاءالدین زکریا یونیورسٹی  کے زیر تعمیر توسیعی منصوبہ کی تکمیل کے لیے 343.613 ملین روپے درکار ہیں 104.547 ملین روپے کی گرانٹ منظور کرنے کے بعد صرف 17.425 ملین روپے جاری کیے گئے۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چوک اعظم میں گائنی وارڈ، میڈیکل سٹور اور مین بلڈنگ کے لیے 10 ملین روپے کی گرانٹ درکار تھی جس کے لیے 10 ملین روپے منظور کیے گئے جبکہ 4 لاکھ 26 ہزار روپے جاری ہوسکے۔ اسٹیبلشمنٹ آف بہادر لائبریری ڈسٹرکٹ کمپلیکس لیہ کے لیے 130 ملین روپے کی ڈیمانڈ تھی 10 ملین روپے منظوری کے بعد جاری ہوئے جو بقایاجات کی ادائیگی میں صرف ہوگئے۔ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے 10.654 ملین روپےدرکار ہیں جس میں سے 5.654 ملین روپے منظور ہوئے اور صرف 9 لاکھ 43 ہزار روپے کی گرانٹ جاری ہو سکی جو بقایاجات میں پورے ہوگئے۔ یوں ضلع لیہ کے گزشتہ دور میں شروع کیے گئے بلڈنگ ورکس کے لیے مختلف منصوبہ جات کی تکمیل اور انہیں فعال کرنے کے لیے 494.267 ملین روپے درکار ہیں اور محکمہ کے پاس موجود ڈویلپمنٹ گرانٹ برائے جاری ترقیاتی منصوبہ جات کا فقط 4 لاکھ 26 ہزار روپے ہے 
خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے حادثات اور اموات کے برعکس رواں مالی سال میں لیہ میں سڑکوں کی تعمیر کا کوئی منصوبہ منظور نہ ہوسکاسابق دور حکومت کے شروع پروجیکٹس میں سے لیہ تا چوک اعظم دورویہ سٹرک 26 کلو میٹر پر لاگت کا تخمینہ 3092.902 ملین روپے لگایا گیا ہے جس میں سے 332.577 ملین روپے خرچ ہوچکے ہیں 60 ملین روپے جاری کیے گئے ہیں چکنمبر 160A تا ایم ایم روڑ تک سڑک کی لمبائی 26 کلومیٹر ہے جس کا تخمینہ لاگت265.410 ملین روپے ہے اور جون 2018 تک 142.757 ملین روپے خرچ بھی کیے چا چکے ہیں بقیہ گرانٹ 2019-21 تک 40،40 ملین روپے 3 اقساط جاری کی جائیں گے۔ تعمیر سڑک ہیرا اڈا تا گھلو موڑ براستہ قصبہ لدھانہ 37 کلو میٹر پر تخمینہ لاگت 260.576 جبکہ 209.969 ملین روپے خرچ ہوئے بقیہ فنڈز 30.202 ملین روپے 2 اقساط میں جاری ہوں گے۔ توسیع و امپورمنٹ کاظمی چوک تا قاضی آبادتخمینہ لاگت 788.25 ملین روپے ہے 35 ملین خرچ ہو چکے 2019،2021،2022 میں بالترتیب 16.275 ملین، 14 ملین اور 13.552 ملین روپے گرانٹ جاری ہوگی۔ تعمیرپختہ سڑک دربار میاں رانجھا تاپیر جگی 20.89 کلومیٹر پر لاگت کا تخمینہ 98.150 ملین روپے ہے جبکہ 77.344 خرچ ہوچکے ہیں بقایا گرانٹ دو فنانشل ائیرز میں جاری ہوگی۔ تعمیر سڑک دین پور تا بستی واڑھ کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ 12.782 ہے جس پر 10.199 ملین روپے خرچ آچکے ہیں حکومت پنجاب نے بقایا 2.583 ملین روپے کی گرانٹ جاری کر دی ہے اور یہ سڑک اسی مالی سال کے دوران مکمل ہوجائے گی
 جبکہ ضلع لیہ کی سڑکوں پر گزشتہ 8 سالوں میں 16 ہزار 978 سے زائد حادثات رونما ہوئے 350 سے زائد شہری حادثات کے نتیجہ میں اپنے پیاروں کو آہوں اور سسکیوں میں روتا چھوڑ کر راہی عدم ہوگئے 1 ہزار سے زائد لوگ زندگی بھر یا طویل عرصہ کے لیے  معذور ہوگئے 13ہزار 425 زخمیوں کو لیہ کے ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مختلف ہسپتالوں میں ریفر کیا گیا
سابق ضلعی صدر پاکستان تحریک انصاف چوہدری یاسر عرفات نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کے پاس آمدن سے زائد اخراجات کی فہرست ہے جبکہ سابق پنجاب حکومت نے اپنے آخری سال میں یکمشت اتنے منصوبہ جات کا افتتاح کیا کہ اگر وہ جیت بھی جاتے تو ان کے پاس ان منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے فنڈز نہ ہوتے اس لیے قوم انتظار کرے اور آئندہ اچھے وقت کی امید پر ان نامسائد حالات میں حکومت کا ساتھ دے
مسلم لیگ ن کے رہنماء میاں یاسین آزاد نے کہا کہ ضلع لیہ کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے جن وعدوں پر پاکستان تحریک انصاف نے ووٹ لیے ان پر عمل ہونا تودرکنار پرانے منصوبہ جات کے لیے فنڈز نہ دینا ضلع لیہ کو یکسر نظر انداز کرنے کے مترادف ہے جاری منصوبہ جات کے لیے فنڈز نہ دینے سے لاگت بڑھے گی اور ترقی کا عمل 20 سے 30 سال پیچھے چلا جائے گا اور اسی طرح پسماندہ لیہ کے رہائشی دوسرے شہروں کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں ریفر ہوتے رہیں گے اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here