ایک مزید امتحان اور نئی آزمائش کی تیاری، 45 سالہ عابدہ پروین لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں جو 1998 سے ہر انسدادِ پولیو مہم میں شریک ہوتی آئی ہیں، رواں ماہ یہ مہم 15 فروری سے مجوزہ ہے۔ اس مہم میں حصہ لینے کے لیے خدشات کے باوجود بھی عابدہ کی تیاریاں مکمل ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں محکمہ صحت کے مطابق 6 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز انسدادِ پولیو مہم میں شریک ہوتی ہیں اور فی دن کا معاوضہ  پانچ سو روپے مقرر ہے۔

عابدہ پروین کے مطابق مہم سے 20 روز پہلے سے  ہی اس کی تیاری شروع ہوجاتی ہے جس کے لیے صحت مراکز میں میٹنگس اور تربیتی نشستیں ہوتی ہیں، جن میں انہیں قطرے پلانے کے علاوہ لوگوں سے دوستانہ گفتگو کی تربیت دی جاتی ہے۔

عابدہ پروین لانڈھی  میں تعینات ہیں، ان کے مطابق مہم کے روز وہ صبح صحت مرکز پہنچتے ہیں جہاں سے ٹیمیں مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوجاتی ہیں اور یہ پہلے ہی نقشے کے مطابق طے ہوجاتا ہے کہ کس کو کونسا علاقہ دینا ہے۔

عابدہ کے مطابق  ہر ٹیم کے ساتھ دو پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں، جو علاقے زیادہ حساس ہوتے ہیں وہاں زیادہ نفری دی جاتی ہے۔

’یہ پولیس گھر کے اندر نہیں ہوتی ہے اگر خواتین پولیس اہلکار بھی دے دی جائیں تو اچھی بات ہے ۔ کیوں کہ مرد پولیس والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وقت نہ لگے لیکن زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اگر قطرے پلانے سے منع کررہا ہے تو گھر کے اندر بھی جانا پڑجاتا ہے۔‘

عابدہ پروین کے مطابق پولیو ورکرز کو زیادہ پریشانی پشتون آبادی والے علاقوں میں ہوتی ہے اور وہ وہاں کلمہ پڑھ کر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر جاتے ہیں۔

عابدہ نے بتایا کہ ’کسی کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ امریکہ کی مہم ہے، یہ خاندانی منصوبہ بندی کے لیے ہے اور کوئی درمیان میں مذہبی مسائل کو لے آتے ہیں کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اپنے بچے ہیں جب ہمیں نہیں قطرے نہیں پلانے تو آپ کیوں کہتے ہیں۔‘

عابدہ مزید کہتی ہیں کہ ’مہم کے دوران کچھ اُلٹے سیدھے جملے بھی سُننے کو ملتے ہیں اور اس کے علاوہ جملے بھی کسے جاتے ہیں کتنی مرتبہ تو ہمیں پتھر تک کھانے پڑے ہیں۔‘

’ایک مرتبہ ہم لانڈھی شیر پاؤ کالونی کی طرف گئے تو ایک لڑکے نے ہم پر پستول تک تان لیا۔ اُس دن ہمارے ساتھ کوئی سیکورٹی بھی نہیں تھی۔ پھر ہم نے فوراً شکایت کی تو پولیس رینجرز سب ہی آگئے تھے۔‘

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’سنہ دو ہزار گیارہ تک پاکستان ان چار ممالک میں شامل تھا جہاں ابھی تک پولیو کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ جبکہ سنہ 2012 میں پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک تھا جہاں پولیو کا وائرس اب بھی پایا جاتا ہے۔ دوسرے ممالک میں افعانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔‘

عابدہ  نے بتایا کہ جو لوگ پولیو کے قطرے پلانے سے منع کرتے ہیں تو اُن کو منانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر وہ ان سے نہ مانیں تو پھر میڈیکل آفیسر کو لے کر جاتے ہیں اُن سے بھی نامانیں تو پھر ڈبلیو ایچ او والوں کو لے کر جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ اب دنیا میں صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان باقی ہیں جہاں پولیو کا وائرس پایا جاتا ہے جس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او نے پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔

عابدہ کہتی ہیں مشکلات جتنی بھی آئیں کبھی بھی انسدادِ پولیو مہم میں حصہ لینے سے انکار نہیں کیا اُن کے مطابق ’نیک کام کے لیے نکلتے ہیں اس لیے اگر مر بھی جاتے ہیں تو ڈر نہیں لگتا لیکن ہم بچوں کے لیے نکلے ہوئے ہیں میں چاہتی ہوں کہ پاکستان سے یہ موذی مرض ختم ہوجائے کیوں کہ میرا اپنا بیٹا اس مرض میں جان دے چکا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ پاکستان سے یہ موذی مرض ختم ہوجائے۔

پاکستان میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پولیو ٹیموں پر حملوں میں اضافہ ہوا، بعض رپورٹس کے مطابق پولیو ویکسین کے بہانے اسامہ کے کمپاؤنڈ تک رسائی حاصل کی گئی، کراچی میں ان حملوں کے نتیجے میں سات رضاکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ایک ایسے ہی حملے میں پولیو رضاکار سلمیٰ جعفر زخمی ہوگئی تھیں۔

سلمیٰ جعفر کا کہنا ہے کہ قیوم آباد کے علاقے میں  بیس فروری 2014 تک سب ٹھیک ہی رہا  لیکن اگلے روز انہوں نے مہم شروع ہی کی تھی کہ ایک دم بائیک پر دولوگ آئے جنھوں نے فائر کھول دیے۔ جس سے انہیں سینے  اور ہاتھ پر دو دو گولیاں لگیں۔ حملہ آوروں نے  ان کی ایک ساتھی خاتون انیتا کو ایک ہی گولی ماری جو اُن کے گال پر لگی اور ایک لڑکے کو بھی گولی لگی جو دونوں ہلاک ہوگئے۔

واضح رہے کہ سنہ 2012 سےتقریبا ہرسال کراچی میں پولیو ورکرز پر حملے رپورٹ ہوئے ہیں اور کئی بار مناسب سکیورٹی نہ ملنے کے سبب انسداد پولیو مہم ملتوی بھی کرنا پڑی۔ جبکہ ان حملوں کے بعد کراچی میں عالمی ادارہ صحت کا دفتر بھی بند کردیا گیا تھا۔

سلمیٰ جعفر کے مطابق جب حملہ ہوا اس دن  ان کے ساتھ کوئی سکیورٹی نہیں تھی۔ تھانے سے انہیں فون آیا کہ کوئی بھی مسئلہ ہو تو بتائیے گا لیکن انہیں سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ حتیٰ کے حملے کے بعد انہوں نے خود اپنے موبائل فون سے چھیپا ایمبولینس سروس کو کال کی تھی لیکن بہت دیر میں ایمبولینس آئی ہے اور حملہ آوروں نے دوبارہ آکر گولیاں چلائیں اور انہیں شاید مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔

اس حملے کےبعد وہ بیمار رہتی ہیں  اور ڈاکٹر نے انہیں سرجری کا  مشورہ دیا ہے، سلمیٰ کے مطابق ’اس سے پہلے علاج کرانے میں پانچ لاکھ روپے خرچ آیا اور میں قرض دار ہوگئی ہوں۔ اب نوکری بھی نہیں کرسکتی  کیوں کہ بیمار ہوں۔ میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ میرے شوہر کا چھ سال قبل انتقال ہوگیا اس وجہ سے پریشان رہتی ہوں کوئی اور کمانے والا نہیں ہے۔‘

سلمیٰ جعفر نے بتایا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انہیں بلایا تھا اور انہوں نے ٹکٹ بھی کروالیے تھے لیکن پھر وہ کہیں چلے گئے اور انہیں منع کردیا گیا جس کے بعد اُن کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ۔

’ایک لاکھ روپے ایدھی فاؤنڈیشن اور دو لاکھ روپے وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے دیے گئے تھے لیکن وزیراعظم نے تین لاکھ روپے کی امداد دینے کا جو اعلان کیا وہ اب تک ہمیں نہیں مل سکے۔‘

محکمہ صحت کے مطابق رواں سال کراچی میں پولیو کا ایک کیس آٹھ جنوری 2016 کو گڈاپ ٹاؤن یو سی سات میں سامنے آیا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد سات تھی۔

محکمہ صحت کے مطابق سنہ 2014 میں پاکستان بھر میں پولیو کے 306 کیس سامنے آئے تھے جبکہ سنہ 2015 میں ملک میں کُل 54 پولیو کیس رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے 12 سندھ میں تھے اور کراچی میں 7 کیس ہوئے تھے۔  شہر میں ایک سال کے دوران کم از کم آٹھ انسدادِ پولیو مہم منعقد ہوتی ہیں۔

محمد عثمان چاچڑ ایمرجنسی آپریشن سینٹر فار پولیو سندھ کے کوآڈینیٹر  ہیں اُن کے مطابق ’ کل سٹاف چھ ہزار ٹیموں پر مشتمل ہے ہر ٹیم میں دو ممبر ہوتے ہیں اور پانچ ٹیموں پر ایک انچارج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈبلیوایچ او اور یونیسیف کا بھی سٹاف ہوتا ہے جو ساتھ کام کرتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام تو الگ ہے لیکن اب سٹاف کی کمی کے باعث انسدادِ پولیو مہم کے لیے اُن کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔‘

عثمان چاچڑ کے مطابق ’پچھلے سال کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تاہم اکا دُکا کوئی دھمکی یا کوئی واقعہ ہوجاتا ہے جس کا سدِباب کیا جاتا ہے۔  اتنا بڑا شہر ہے خدشہ تو رہتا ہے لیکن سیکورٹی دی جاتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ کراچی میں پولیو ٹیموں پر حملوں کے واقعات سنہ 2012  سے سنہ 2014  تک پیش آئے۔

’اِن دوسالوں کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں میں انسدادِ پولیو ٹیموں پر کیے گئے حملوں میں کُل نو ہلاکتیں ہوئیں جبکہ آٹھ افراد زخمی ہوئے۔جس کے بعد اب تک کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا جس میں کوئی پولیو رضاکار ہلاک یا زخمی ہوا ہو۔‘

اُن کے مطابق خواتین ورکرز سے بدتمیزی کے واقعات بھی کبھی کبھار پیش آجاتے ہیں لیکن اُن کا تدارک کرلیا جاتا ہے۔

’ ایسے کیس بھی رپورٹ ہوئے ہیں لیکن جس علاقے سے کوئی ایسا کیس رپورٹ ہو اس کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہےعلاقے کے ذمہ داروں سے بات کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا ہرمہینے میں ایک مہم ہوتی ہے اور اگر کہیں کوئی کیس رجسٹر ہوتا ہے تو اس کے آس پاس کے علاقے میں اضافی انسدادِ پولیومہم چلائی جاتی ہے۔

واضح رہے وزارتِ صحت پاکستان نے انسدادِ پولیو مہم کا آغاز سنہ 1994 میں کیا تھا۔جس کے تحت پانچ سال یا اُس سے کم عمر بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں۔

پولیو ورکرز کو سہولیات کی فراہمی کے بارے میں محمد عثمان چاچڑ کا کہنا تھا کہ انہیں ٹرانسپورٹ دی جاتی ہے اور حتیٰ الا مکان کوشش کی جاتی ہے کہ جس علاقے میں پولیو رضاکاروں کی رہائش ہے وہیں اُن سے مہم کرائی جاتی ہے اور اگر کہیں دُور جانا ہے تو پھر ٹرانسپورٹ اور سیکورٹی مکمل فراہم کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’زخمی ہونے والی رضاکاروں کو علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اگر کوئی ہلاک ہوجائے تو حکومت اس کی مدد کرتی ہے، اُن کے لواحقین کو ملازمت دینے کی جہاں تک بات ہے تو وہ دیکھا جاتا ہے کہ کوئی نوکری موجود ہے اور اُن کی تعلیم اس کے مطابق ہے تو دی جاتی ہے۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here