کوئٹہ (حزب اللہ خان سے)پاکستان کے سرحدی علاقوں نے حالیہ برسوں کے دوران بدترین تصادم کا سامنا کیا ہے جس کا اظہار ان علاقوں کے حالات سے بھی ہوتا ہے۔ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ ملک کے جنوبی صوبے بلوچستان، جس کی سرحد افغانستان سے متصل ہے، میں 2001ء سے شروع ہونے ولے تصادم کے باعث نفسیاتی عارضوں کے شکار مریضوں کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
جامع تحقیق نہ ہونے کے باعث صوبے میں عسکریت پسندی، تشدد اور فرقہ ورانہ تصادم کے لوگوں کی نفسیاتی صحت پرہونے والے اثرات کے حوالے سے کوئی اندازہ مرتب کرنا انتہائی مشکل ہے۔ تاہم کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں کہ ذہنی تنائو اور تشویش کا شکار مریضوں کے علاج کے دوران حاصل ہونے والی معلومات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امن نہ ہونے کے باعث لوگوں کی نفسیاتی صحت متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ گزشتہ 15برسوں سے زائد عرصہ کے دوران تشدد کے واقعات جیسا کہ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور خود کش قتل و غارت کے لوگوں اور سماج کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ شہروں اور قصبوں سے تعلق رکھنے والے مریضوں کی تعدادکو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، جو بدترین طور پر متاثر ہوئے ہیں یا نسبتاً محفوظ رہے ہیں، نفسیاتی عارضوں ، جیسا کہ ذہنی تنائو، تشویش اور ڈپریشن، میں 10سے 25فی صد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
ڈاکٹر غلام رسول نے مزید کہا کہ ماہرینِ نفسیات یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اندازے حقیقت پسندانہ ہے کیوں کہ نفسیاتی عارضوں میں تین وجوہات کے باعث اضافہ ہوا ہے : اول،(شورش کے) سماجی ڈھانچے ،دوم، سماجی زندگی اور سوم،انسانوں کی نفسیاتی صحت پر اثرات مرتب ہونا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ بلوچستان کے تناظر میں ہم نے تشدد کو ان تینوں پہلوئوںپر اثرانداز ہوتے دیکھا ہے۔‘‘
60برس کی زرمینہ ( حقیقی نام نہیں ہے) نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ میں ان کے بھائیوں، بیٹوں اور ایک قریبی عزیز کی موت کے باعث وہ شدید ترین ڈپریشن اور تشویش کا شکار ہوئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میں نے آٹھ برسوں کے دوران اپنے خاندن کے پانچ افراد کو کھویا ہے جن میں میرے بھائی، بیٹے اور ایک کزن بھی شامل ہے۔ میرا خاندان ہنوز خوف کے سایوں میں زندگی بسر کررہا ہے۔‘‘
خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن ( کے پی-پی ایس سی) کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’ پاکستان میں دہشت گردی کے اثرات‘‘ میں کہا گیا ہے:’’ ان صوبوں یا خطوں کے کچھ شہر زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، بلوچستان کا ایک ایسا ہی شہر ہے، خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں صوبے کے کسی بھی دوسرے شہر کی نسبت زیادہ بم دھماکے ہوئے ہیں جب کہ فاٹا میں کرم ایجنسی اورخیبر ایجنسی کے علاوہ شمالی و جنوبی وزیرستان میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ اول،یہ تینوں علاقے افغانستان سے جغرافیائی طور پر قریب ہونے اور پڑوسی ملک افغانستان میں ہونے والی جنگ کے ردِعمل کے باعث زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
دوسرا، ان علاقوں میں گورننس اور ترقی کا مربوط نظام نہیں ہے جس کے باعث یہ علاقے دہشت گردی کی نرسری بن چکے ہیں۔ تیسرا، زیادہ تر خودکش حملے ، فوجی کارروائیاں، فوج پر حملوں کے ساتھ ساتھ ڈرون حملے بھی ان علاقوں میں ہی ہوئے ہیں جن میں نسبتاًزیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔‘‘
سرحدی علاقوں بشمول بلوچستان میں جاری تشدد پر ہونے والی تحقیق کی توجہ سکیورٹی کے پہلوئوں اور انسانی و معاشی اخراجات پر مرکوز رہی ہے۔ خطے میں امن و امان نہ ہونے کے باعث مرتب ہونے والے سماجی و نفسیاتی اثرات کو واضح کرنے کے لیے بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیاہے:’’دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہونے والے مجموعی اخراجات کا اندازہ مرتب کرنا مشکل ہے۔ لیکن پاکستان نے 10برسوں(2001ء – 2011ئ)کے دوران بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر جو اخراجات برداشت کیے ، وزارتِ خزانہ کے سالانہ سروے 2010ئ- 2011ء کے مطابق یہ تقریباً68ارب روپے تھے۔‘‘
 سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے مطابق ’’ میدانِ جنگ میں رہنے والے 30اور 70فی صد کے درمیان لوگ ذہنی تنائو اور ڈپریشن کا سامنا کر رہے ہیں۔ ‘‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق سرحد کے اس پار افغانستان میں ، جہاں تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے تشدد اور شورش جاری ہے، 60فی صد سے زائد افغانی، جن میں عورتوں کی اکثریت شامل ہے دہائیوں سے جاری جنگ کے باعث نفسیاتی مسائل یا ذہنی عارضوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں کہ ان مریضوں کی اکثریت اپنے ذہنی امراض کے علاج کے لیے پاکستان کارُخ کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ صوبے بھر میں نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے صرف ایک ہسپتال قائم ہے اور اس سے منسلک چند ڈاکٹر دوردارز سے آنے والے مریضوں کے علاوہ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا علاج بھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں:’’ اگرچہ شورش کے باعث لاکھوں افراد نفسیاتی عارضوں کا شکار ہوئے ہیںلیکن ان میں سے چند ایک ہی اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔تربیت یافتہ انسانی وسائل نہ ہونے اور سہولیات کی کمی کے باعث مقامی طور پر صرف آٹھ سے10 فی صد مریضوں کا ہی علاج ہورہا ہے۔‘‘
انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ حکومت بلوچستان بھر میں ڈویژن، ضلع اور تحصیل ہیڈکوارٹرز کی سطح پر نفسیاتی یونٹ قائم کرے تاکہ لوگوں کے نفسیاتی مسائل کا علاج کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا:’’ متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا میکانزم، نفسیاتی علاج کے لیے ڈیپارٹمنٹ اور کونسلنگ سنٹرز نہ ہونے کے باعث صوبے میں نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت جب کہ ملک کے دیگر صوبے تشدد کے باعث ذہنی صحت کے حوالے سے پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں، بلوچستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے ایکٹ منظور کرے اور اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی صحت کی پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔‘‘
 ڈاکٹر غلام رسول مزید کہتے ہیں کہ صوبے میںموجود صحت کا نظام امن کے دنوں کی سہولیات فراہم نہیں کرسکتا اور یہ ’’ شورش کا شکار لوگوں کی ہنگامی مدد‘‘ ہی کرتا ہے۔
 چوں کہ سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہے، بلوچستان میں برسرِاقتدار نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالخالق بلوچ نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ مکران کی 40فی صد آبادی عسکریت پسندی کے باعث نقل مکانی کرچکی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ صوبے کے دیگر شہروں میں بھی حالات اسی نوعیت کے ہیں جن میں کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور نصیرآباد شامل ہیں۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے کوئٹہ میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے باعث ایک لاکھ پنجابی آبادکار صوبہ چھوڑ چکے ہیں۔
نقل مکانی کرنے والی 55سالہ بیوہ ثمینہ، ان کی شناخت کو محفوظ بنانے کے لیے ان کا نام تبدیل کیا گیا ہے، کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا پانچ برس قبل لاپتہ ہوا جس کے باعث وہ ناامید اور پریشان ہیں۔وہ کہتی ہیں :’’ میں نے اپنے بیٹے کوہر جگہ تلاش کیا ہے لیکن اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ میں اس کو ہنوز تلاش کررہی ہوں۔‘‘
51برس کے الطاف اس وقت سے ذہنی تنائو کا شکار ہیں جب کوئٹہ میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں ان کے تین بھائی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس وقوعہ کو بیتے ایک برس بھی نہیں ہوا تھا جب ان کا بیٹا ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوگیا۔
وہ کہتے ہیں:’’ میں چڑچڑا اور جارح مزاج ہوچکا ہوں اور اکثر و بیش تر کسی دوسرے کو قتل کرنے یا اپنی جان لینے کے بارے میں سوچتاہوں۔‘‘ وہ تشویش اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا پانے کے لیے سکون آور ادویات استعمال کرتے ہیں، وہ اس بم دھماکے میں زخمی ہوئے تھے جس میں ان کے بھائی ہلاک ہوگئے تھے۔
الطاف نے اپنے بھائیوں اور نوجوان بیٹے کی تصویر دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسوئوں کو صاف کیا اور کہا:’’ میں محسوس کرتاہوں کہ میرا سر اور دل پھٹ جائے گا۔‘‘
حکومتِ بلوچستان میں موجود ایک ذریعے نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماہرینِ نفسیات جو کچھ کہہ رہے ہیں، ممکن ہے کہ وہ درست ہو لیکن ’’حکام نے قومی و بین الاقوامی تنظیموں کی اس حوالے سے کوئی رپورٹ یا اعدادو شمار نہیں دیکھے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ اس تناظر میں ضلعی کمشنرز نے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی بلوچستان حکومت کی جانب سے نفسیاتی عارضوں کے علاج کے لیے کوئی خصوصی فنڈ مختص کیاگیا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت عوام کو صحت مند سرگرمیوںمیں مشغول کرنے کے لیے مواقع فراہم کرتی رہی ہے جس کی ایک مثال مارچ میں ہونے والا بلوچستان سپورٹس فیسٹیول  ہے۔ حکومت نے دہشت گردی کے متاثرین کو زرِتلافی بھی ادا کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here