لاہور: محمد شریف امریکہ میں مقیم ہیں اور امریکی شہری ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مخصوص شناختی کارڈ(این آئی سی اوپی) جاری کیا ہے تاکہ انہیں پاکستان میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گزشتہ برس تک این آئی سی او پی کو استعمال کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ شریف نے اسے بنک اکائونٹ کھلوانے، موبائل فون کے کنکشن لینے اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ رواں برس بائیومیٹرک مشینوں نے شریف اور ان کے صاحب زادے حمزہ دونوں کا ہی این آئی سی او پی پڑھنے سے انکار کردیا۔

بنک میں موجود عملے نے انہیں بتایا کہ این آئی سی او پی رکھنے والے ہر شخص کو ہی اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کے لاہور میں دفتر جانے پر شریف کو معلوم ہوا کہ حکومت این آئی سی اوپی کو پڑھنے کے لیے نیا سافٹ ویئر بنا رہی ہے اور پرانا سافٹ ویئر منسوخ ہوچکا ہے۔

شریف نے کہا:’’ میں نہ ہی بنک اکائونٹ کھلوا سکا ہوں اور نہ ہی کوئی لین دین کرسکا ہوں۔ مجھے اپنے صاحب زادے کا اکائونٹ کھلوانا تھا جو ممکن نہیں ہوسکا۔‘‘ انہوں نے بھاری دل کے ساتھ کہا:’’میں اپنا کام مکمل کیے بغیر ہی واپس لوٹ رہا ہوں۔‘‘

میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق نادرا جعلی شناختی کارڈ جاری کرتا رہا ہے جس کے باعث پراسیسنگ میں تاخیر ہوئی اور حال ہی میں این آئی سی او پی رکھنے والے غیر ملکی پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

نیوز لینز پاکستان نے جب نئے سافٹ ویئر کے حوالے سے مزید تصدیق کے لیے نادرا کے دفتر اسلام آباد میں رابطہ قائم کیا تو نادرا کے ترجمان محمد فائق نے کہا کہ یہ خبر گمراہ کن ہے اور ایسا کوئی سافٹ ویئر بھی زیرِ غور نہیں ہے۔ان سے جب یہ استفسار کیاگیا کہ این آئی سی اوپی رکھنے والے غیر ملکی پاکستانی جس مشکل کاسامنا کررہے ہیں، وہ کس طرح حل ہوگی تو انہوں نے کہا:’’ انہیں نیا این آئی سی او پی حاصل کرنا چاہئے۔‘‘

نادرا کی ایبٹ روڈ لاہور شاخ سے منسلک اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد رزاقی نے نیوز لینز پاکستان کو ایک یکسر مختلف کہانی سنائی۔ انہوں نے کہا کہ این آئی سی او پی رکھنے والے غیر ملکی پاکستانیوں سے قبل ازیں لیا جانے والا انگوٹھے کا نشان ڈیٹابیس میں رجسٹرڈ نہیں ہے جس کے باعث اب ایسے تمام کارڈ متروک ہوچکے ہیں۔ انہوں نے محمد فائق کے برعکس کہا کہ نیا سافٹ ویئر جاری کیا جاچکا ہے اور این آئی سی او پی رکھنے والے شہریوں کو اب نئے کارڈز کے لیے درخواست دینا ہوگی ۔ محمد رزاقی نے مطلع کیا کہ نئے این آئی سی اوپی کارڈ کی فیس 10ہزار روپے ہوگی۔

نیوز لینز پاکستان نے جب محمد فائق سے ان کے اور محمد رزاقی کے بیان میں تضاد کی وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔

نادرا عالمی سطح پر ایک بہترین ڈیٹا بیس تصور ہوتا ہے تاہم ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن نے اس ادارے پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔

انتظامی مسائل سے قطعٔ نظر نادرا کے افسروں کے رویے نے نادرا دفاتر کا دورہ کرنے والے پہلے سے ہی ذہنی اذیت کا شکار صارفین کے دبائو میں مزید اضافہ کیا ہے۔

ایک خاتون عائشہ خواجہ کو نادرا سے اپنے شناختی کارڈ کی تصحیح کروانی تھی، ان کے مطابق یہ تجربہ انتہائی پریشان کن تھا۔

انہوں نے کہا:’’ عملے کی جو رُکن میرے کاغذات کی جانچ کررہی تھی، اس سے میری ملاقات کا تجربہ اچھا نہیں تھا۔ وہ سرد اور بے پروا تھی گویا مجھے کوئی ذاتی فائدہ پہنچا رہی ہو۔‘‘

نیوز لینز پاکستان نے جنرل ہسپتال لاہور کے شعبۂ نفسیات کے سربراہ ماہرِ نفسیات ڈاکٹرالطاف بشیر سے اس بارے میں استفسار کیا کہ پاکستان میں سرکاری حکام کیوں کر منفی رویے کا اظہار کرتے ہیں؟

انہوں نے کہا:’’ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن چار نمایاں ترین ہیں۔ سب سے پہلے تو ملازمت کے دوران افسروں کو رویے کو منظم کرنے کے حوالے سے کوئی تربیت نہیں دی جاتی؛ ہماری ساری توجہ تربیت کے تکنیکی پہلوئوں پر مرتکز رہتی ہے اور اکثر و بیش تر وہ بھی پیشہ ورانہ طور پر نہیں دی جاتی۔‘‘

ڈاکٹر الطاف بشیر نے مزید کہا:’’ دوسرا، ایک افسر کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے بہ ظاہراسے انعام یا سزا دینے کا کوئی میکانزم نہیں ہے۔ تیسرا، ہم نے صارفین اور متعلقہ افسروں کے درمیان رائے اور تجاویز کے نظام کے ذریعے تعلق تخلیق نہیں کیا۔ چوتھا، ہم نے کارکنوں کو کام کرنے کے لیے مثالی ماحول فراہم نہیں کیا۔‘‘

عائشہ خواجہ نے نقائص کے حوالے سے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے دو اہم ترین تکینی مسائل کا سامنا کیا جو نادرا کی ایبٹ روڈ شاخ پر کام میں رکاوٹ بن رہے تھے اور رفتار ہلکی کررہے تھے۔انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی ہلکی تھی اور انٹرانیٹ باربار شٹ ڈائون ہورہا تھا جس کے باعث ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے ہر منٹ بعد پاس ورڈ داخل کرنا پڑتا۔ اس کی وجہ سے افسران بھی پریشان ہوگئے۔‘‘

کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز(سی این آئی سی) کے حوالے سے شہریوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے 15اگست کو کمیٹی کے آئین کا اعلان کیا۔

ماہرین کی یہ رائے ہے کہ جب تک بنیادی مسائل حل نہیں ہوجاتے ، کمیٹیوں کی تشکیل سے کارکردگی میں بہت کم یا سرے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here