جنوبی وزیرستان کی خواتین کے لیے کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں

0
1987

ڈیرہ اسماعیل خان: شمع بی بی جنوبی وزیرستان کی ایک ادھیڑ عمر خاتون ہیں جو مقامی عورتوں کو دورانِ زچگی طبی امداد فراہم کرتی ہیں.

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’میں ایک ڈاکٹر کی طرح مہارت نہیں رکھتی جس کے باعث بہت سی حاملہ خواتین کو دوسرے شہروں کا رُخ کرنے کی تجویز دیتی ہوں۔‘‘

پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عوام کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ خطے کے عوام طویل عرصہ سے تعلیمی سہولیات کے فقدان، بے روزگاری اور بدامنی کا سامنا کر رہے ہیں۔ متذکرہ بالا مسائل کے باعث صحت کا شعبہ بدترین طور پر متاثر ہوا ہے اور علاقے میں حاملہ ماؤں کو کوئی طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ اس خطے کی خواتین کو دورانِ زچگی علاج کے لیے دوردراز کے علاقوں کا سفر کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ان کے طبی اخراجات غیر معمولی طور پر بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں اکثر و بیشتر ان کی زندگیاں بھی خطرات کی زد پر آ جاتی ہیں۔ 

فاٹا سیکرٹریٹ کی 1998ء میں کی جانے والی مردم شماری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی وزیرستان کی مجموعی آبادی 429841 ہے۔ خواتین کی آبادی 198761 ہے، یوں وہ مجموعی آبادی کے قریباً نصف پر مشتمل ہیں ۔ آبادی میں اضافے کی شرح 1.95 فی صد سالانہ ہے۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں اور ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورک کی بدحالی کے باعث بھی حاملہ خواتین کے لیے سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

فاٹا کے محکمۂ صحت کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط  پر یہ انکشاف کیا کہ جنوبی وزیرستان کے موسمِ سرما کے ہیڈکوارٹر وانا میں ایک ہیڈکوارٹر ہسپتال قائم ہے جب کہ اس کی آٹھ تحصیلوں میں سے چھ میں سول ہسپتال قائم ہیں۔ مذکورہ افسرنے کہا کہ ان میں سے کس ایک ہسپتال میں بھی گزشتہ ایک دہائی سے کوئی خاتون گائناکالوجسٹ خدمات انجام نہیں دے رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام تحصیل ہسپتالوں میں خاتون ڈاکٹر کی آسامی خالی ہے لیکن جب کبھی کوئی خاتون ڈاکٹر اپنا عہدہ سنبھالتی ہے تو وہ فوری طور پر پیشہ ورانہ کورسزکرنے کے لیے اپنا تبادلہ کروا لیتی ہے۔

مذکورہ افسر نے تسلیم کیا کہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کی عدم دستیابی بھی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث خواتین ڈاکٹرز اس خطے کا رُخ کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ متذکرہ بالا حالات کے باعث حاملہ خواتین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جنہیں مقامی مدد پر انحصار کرنا پڑتا ہے یا وہ دوردراز کے ہسپتالوں کا رُخ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ شمع بی بی کے مطابق صاحب ثروت خاندان دوسرے شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’لیکن غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والی حاملہ خواتین عموماً خدائی مدد پر انحصار کرتی ہیں اور گھر پر علاج کروانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی معروف گائناکالوجسٹ نسیم صبا نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے جنوبی وزیرستان سے علاج کی غرض سے شہر آنے والی خواتین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’ہمارے تجربے کے مطابق حاملہ خواتین کی اکثریت اس وقت علاج کے لیے ہسپتال کا رُخ کرتی ہے جب ان کی صحت انتہائی متاثر ہو چکی ہوتی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی بڑی تعداد کمزور ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ حاملہ خواتین کو موزوں خوراک نہیں مل پاتی جس کے باعث ماں اور بچے دونوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔‘‘

مکین کے رہائشی عالمگیر محسود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ جب تیسری بار حاملہ ہوئیں تو طبی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ انہوں نے ضلع ٹانک کا رُخ کیا جہاں ان کی اہلیہ نے راستے میں ہی مردہ بچے کو جنم دے دیا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:’’خوشی قسمتی سے بہت زیادہ علاج اور اخراجات کے بعد ان کی اہلیہ کی زندگی بچ گئی۔‘‘

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینٹ کے رُکن مولانا صالح شاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’آپ خواتین مریضوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں، حقیقتِ حال یہ ہے کہ مرد مریضوں کو بھی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خیبرپختونخوا کے گورنر اور اعلیٰ فوجی حکام کو بارہا یہ باور کروا چکے ہیں کہ خطے میں اس وقت تک نئے ہسپتالوں کی تعمیر اور مشینری کی تنصیب بے سود ہے تاوقتیکہ مریضوں کے علاج کے لیے ڈاکٹر تعینات نہیں کر دیے جاتے۔

فاٹا کے حوالے سے رپورٹ آن سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ برائے 2015-17ء کے مطابق ایک لاکھ میں سے چھ سو خواتین دورانِ زچگی دم توڑ جاتی ہیں۔ صحت کی نامناسب سہولیات کے باعث ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے 87 پیدائش کے وقت دم توڑ جاتے ہیں۔ فاٹا میں کوئی بھی اعلیٰ معیار کا نجی ہسپتال قائم نہیں ہے۔ خطے میں نجی طور پر فراہم کی جارہی صحت کی سہولیات سے عموماً یہ خلا پر ہو جاتا ہے لیکن رپورٹ کے مطابق خطے میں سکیورٹی اور سیاست کے ابتر حالات اور قدامت پرست روایات کے باعث خواتین ان عطائی ڈاکٹروں سے بھی علاج کروانے کے قابل نہیں ہو پاتیں۔

ٹانک کے سول ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہفتہ بھر میں اوسطاً 30 سے 40 حاملہ خواتین علاج کے لیے ہسپتال آتی ہیں۔ تاہم خواتین مریضوں کی اس سے کہیں بڑی تعداد نجی کلینکوں اور دیگر شہروں کا رُخ کرتی ہے۔‘‘

فاٹا کے محکمۂ صحت کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ مقامی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد زیادہ نہ ہونے کے باعث اکثر و بیشتر خاندان کی بزرگ خواتین یہ کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خطے کی ثقافت و روایات کے باعث بھی خواتین کی اپنی ہی کمیونٹی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے طور پر کام کرنے کے حوالے سے حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔

مولانا صالح شاہ نے یہ تجویز دی کہ:’’جنوبی وزیرستان میں صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ خواتین ڈاکٹروں کو پرکشش تنخواہیں دی جائیں تاکہ وہ اپنی خدمات کی انجام دہی کے لیے آمادہ ہو جائیں۔‘‘ انہوں نے تحصیل سروکئی میں نئے تعمیر ہونے والے ہسپتال کے حوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جہاں جدید ترین مشینری نصب کی گئی ہے جو طبی عملے کی کمی کے باعث استعمال میں نہیں آ رہیں۔ مولانا صالح شاہ نے کہا کہ مذکورہ ہسپتال میں مقامی غیرسرکاری تنظیموں سے تعلق رکھنے والے چند ڈاکٹرز ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here