کراچی (شوکت کورائی) 40برس کے فرحان احمد ہر صبح کام پر جانے کی بجائے اپنے چار ارکان کے خاندان کے لیے پانی لے کر آتے ہیں کیوں کہ ان کو یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کے دو چھوٹے بچے شدید ترین گرمی کے باعث پانی کی کمی کا شکار ہوجائیں گے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ساحل کنارے کچی آبادی میں رہتے ہیں۔ فرحان احمد اکثر کام پر تاخیر سے جاتے ہیں کیوں کہ ان کو اپنے خاندان کے لیے پانی لے کر آنا ہوتا ہے۔

کراچی گرمی کی شدید ترین لہر اور پانی کی کمی کا سامنا کررہا ہے۔ فرحان احمد ابراہیم حیدری میں رہتے ہیں، یہ شہر کی قدیم ترین کچی آبادی ہے؛ علاقے میںپینے کا پانی دستیا ب نہیں ہے اور متعلقہ سرکاری محکمہ پائپوں کے ذریعے پانی فراہم نہیں کررہا، جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ علاقہ شہرکے مرکز سے خاصا دور ہے اور ان کے ریکارڈ میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہے۔ اس علاقے کی طرح دیگر ساحلی آبادیوں کو بھی موسمِ گرما میں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں ہوتا اور پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ ہفتے کچی آبادی کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد شدید ترین گرمی میںپانی کی قلت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے گلیوں میں نکل آئی۔ مظاہرین میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ ایک سماجی کارکن کمال شاہ نے کہا:’’ علاقے میں پانی کی کمی کے خلاف مظاہرے عام ہیں۔‘‘

رُکنِ سندھ اسمبلی شفیع محمد جاموٹ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ علاقہ نسلی تعصب کے باعث پانی کی کمی کا سامنا کررہا ہے۔ پانی کی فراہمی کے ذمہ دار حکام متعصب ہیں اور انہوں نے ساحل پر آباد رہائشیوں کو محض ان کے نسلی پس منظر کے باعث نظراندازکیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ماضی کی حکومتوں نے نسلی تعصب کی بنا پر اس علاقے کو نظرانداز کیا۔‘‘

کراچی میںپانی کی قلت کے باعث سب سے زیادہ غریب خواتین اور بچے متاثر ہورہے ہیں،اور ان میں بھی بڑی تعداد ان کی ہے جو پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ پانی کی اس قلت کے باعث ہی 2015ء میں کراچی میں گرمی کی لہر کے باعث ان پسماندہ علاقوں میں بہت سے لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔

2015ء میں کراچی میں موسمِ گرما کے دوران گرمی کی بدترین لہر میں تین روز میں 13سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ سمندری ہوائوں کے نہ چلنے اور پانی کی شدید ترین کمی نے اس تباہی کو مزید بڑھا دیا۔
کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہسپتال میں پہلے دن ہی ہیٹ سٹروک سے متاثرہ 250مریضوں کو لایا گیا۔ 2015ء میں شہر میں گرمی کی بدترین لہر کے دوران 10ہزار مریضوں کا علاج کیا گیا۔‘‘

کراچی ایک خشک علاقہ ہے اور یہ انڈس ایکو ریجن سے خاصا دور ہے جس کے باعث اسے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ کراچی میں ابراہیم حیدری کی طرح 166آبادیاں ایسی ہیں جو شہر کی 129کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے کنارے پر آباد ہیں جن کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ پانی کے ٹینکروں کے مالکان ان علاقوں کو کاروباری بنیادوں پر پانی فراہم کرتے ہیں لیکن آبادی کی اکثریت مختلف مقامات سے پانی لے کرآتی ہے اور اس کو ذخیرہ کرلیتی ہے۔

اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی جانب سے 2014ء میں کی جانے والی تحقیق سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ کراچی کے پسماندہ علاقوں کی 70لاکھ آبادی کی پینے کے پانی تک رسائی نہیں ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی میں کام کرنے والا واحد محکمہ ہے جو شہر کی دو کروڑ آبادی کو پینے کا پانی فراہم کرتا ہے ، اس کی ویب سائٹ کے مطابق شہر کی ضروریات کے لیے روزانہ 11ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن صرف پانچ سو ملین گیلن پانی ہی دستیاب ہے جو شہر کی نصف آبادی کے لیے بھی ناکافی ہے۔

کراچی کے کمشنر اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سربراہ سید آصف حیدر شاہ کہتے ہیں:’’ہم نے گرمی کی لہر کے دوران پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے شہر بھر میں خصوصی انتظامات کیے ہیں اور گرمی کی لہر سے متاثر ہونے والوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے171فرسٹ رسپانس سنٹرز قائم کیے ہیں۔‘‘

تاہم سندھ کی صوبائی حکومت کے حکام، جس کا دارالحکومت کراچی ہے، یہ کہتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں کہ پانی دستیاب ہی نہیں ہے جس کے باعث ان علاقوں کو پانی فراہم نہیں کیا جارہا۔ وزیر برائے کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سندھ ڈاکٹر سکندر علی میندھرو کہتے ہیں:’’ گزشتہ برسوں کے دوران کم بارشیں ہونے کے باعث ڈیم پوری طرح نہیں بھرسکے، یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پرکراچی کو مناسب مقدار میں پانی حاصل نہیں ہورہا۔ چناں چہ ہم شہر کی ساحلی آبادی کو پانی کی فراہمی سے قاصر ہیں تاہم آنے والے دنوں میں گرمی کی شدید لہر کے خدشے کے پیشِ نظر ان علاقوں میں پانی کی فراہمی یقینی بنائی ہے۔‘‘

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹرمصباح الدین فرید، جو خبر شایع ہونے کے بعد ذاتی وجوہات کے باعث مستعفی ہوگئے، نے کہا:’’ پانی کی مقدار ناکافی ہونے کے باعث شہر کے تمام علاقوں میں پانی فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ شہر پینے کے 50فی صد پانی کی قلت کا سامنا کررہا ہے اور آبادی میں اضافے کے باعث یہ شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے فی الحال ساحلی آبادیوں کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتِ سندھ شہر کے لیے K4منصوبہ شروع کرچکی ہے جس کے تحت روزانہ 650ملین پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ تین مراحل میں مکمل ہوگا جس کے پہلے مرحلے پر 2018ء تک کام مکمل ہوجائے گا۔

کراچی کی ساحلی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت مچھیروں پر مشتمل ہے۔ ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کے صدر محمد علی شاہ کہتے ہیں:’’ یہ علاقے گزشتہ کچھ دہائیوں سے پانی کی شدید ترین کمی کا سامنا کررہے ہیں۔ موسمِ گرما کے دوران گرمی کی لہر کے باعث ان کے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ادارے نے وقتاً فوقتاً متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا، لوگوں نے احتجاج کیا لیکن حکام نے عدم توجہی کا مظاہرہ کیا اور مثبت ردِعمل ظاہرنہیں کیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ ساحلی پٹی کے ساتھ قائم آبادیوں کے رہائشی 20ویں صدی میں پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم رہے اور یہ رجحان 21ویں صدی میں بھی جاری ہے۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کراچی کو پانی کی کمی کا سامنا ہے لیکن ان علاقوں کو ان کے رہائشیوں کے نسلی پس منظر کی وجہ سے بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here