اسلام آباد: تجزیہ کار، دہشت گردی کے متاثرین اور سیاسی رہنماء کہتے ہیں کہ پاکستان انتہاپسندی، کالعدم مذہبی تنظیموں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کے حوالے سے واضح پالیسی تشکیل دینے میں ناکام ہوچکا ہے جس کے باعث ان گروہوں کے حوالے سے تذبذب پیدا ہوا ہے۔

کچھ عرصہ قبل وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے دفاعِ پاکستان کونسل کے رہنمائوں سے ملاقات کی، یہ درجن بھر سے زائد شدت پسند مذہبی تنظیموں پر مشتمل الائنس ہے جن میں کچھ ایسے گروہ بھی شامل ہیں جو غیر فعال ہیں اور ان کی نگرانی کی جارہی ہے اور وہ مبینہ طورپر فرقہ ورانہ و سرحد پار عسکریت پسندی میں ملوث ہیں۔

ان گروہوں میں اہلِ سنت و الجماعت ( یہ شیعہ مخالف شدت پسند مذہبی تنظیم ہے جو پرویز مشرف کے دور میں پابندی عائد ہونے کے بعدسے نئے نام کے ساتھ کام کررہی ہے) اور جماعت الدعوۃ شامل ہیں جو لشکرِ طیبہ کی سرپرست تنظیم ہے، یہ عسکریت پسند گروہ مبینہ طورپر انڈین کشمیر میں آزادی کی تحریک میں شامل ہے۔ جماعت الدعوۃ لشکرِ طیبہ کے ساتھ روابطہ سے انکار کرتی ہے۔

نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے جاری کئے جانے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اہلِ سنت والجماعت ان کالعدم تنظیموں میں سے ایک ہے جن پر 2012ء میں پابندی عائد کی گئی۔ اس کی سرپرست تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان اور عسکریت پسند ونگ لشکرِ جھنگوی پرپرویز مشرف دور میں پابندی عائدکی گئی تھی۔مزیدبرآں جماعت الدعوۃ بھی پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی زیرِنگرانی تنظیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف 20نکاتی قومی ایکشن پلان کی شق نمبر سات ’’کالعدم تنظیموں کے دوبارہ نہ ابھرنے کویقینی‘‘ بنانے سے متعلق ہے، قومی ایکشن پلان ریاست نے دسمبر2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے ہولناک حملے کے بعد تشکیل دیا تھا۔

حزبِ اختلاف کی اہم ترین جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنماء بلاول بھٹو زرداری نے کوئٹہ میں 29اکتوبر کو کی جانے والی اپنی ایک تقریر میں برسرِاقتدار جماعت مسلم لیگ نواز پر ایسے گروہوں کی سرپرستی کرنے پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا:’’ملک کے وزیرِداخلہ کوئٹہ پولیس اکیڈمی پر ہونے والے تباہ کن حملے کے چند گھنٹوں بعد گڈ طالبان کے ساتھ تصاویر اتروا رہے تھے۔‘‘

پاکستانی صحافی اور اکاتھا کالج امریکہ کی فیکلٹی کے رُکن رضارومی کہتے ہیں:’’پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندوں کی موجودگی اور طاقت تین حقیقتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نیپ کی موجودگی کے باوجود ان گروہوں کے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے: قومی سلامتی کی پالیسی 1980ء کی دہائی میں فوج نے تشکیل دی جس میں فرقہ ورانہ اور جہادی تنظیموں کو قومی سلامتی کا اہم جزو قرار دیا گیا لیکن نگرانی نہ ہونے کے باعث یہ گروہ پاکستان کا دفاع مضبوط کرنے کی بجائے اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن گئے۔ اس حوالے سے بھی کوئی سنجیدہ فکر نہیں پائی جاتی کہ ان تنظیموں کے کارکنوں کے ساتھ کیا جائے جن کی قیادت کو طاقت کے ذریعے ختم کیاجاچکا ہے۔‘‘ رضارومی خود ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے تھے۔

وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی دفاعِ پاکستان کونسل کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کے بعد شیعہ تنظیم مجلسِ وحدت المسلمین کے کراچی میں بہت سے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

چار نومبر کو سکیورٹی فورسز نے پیپلز پارٹی کے سابق رہنما ء و سینیٹر فیصل رضا عابدی کو مبینہ طورپر فرقہ ورانہ نوعیت کے واقعات میں ملوث ہونے اور لائسنس کے بغیر اسلحہ رکھنے پر گرفتار کرلیا ، وہ اپنی گرفتاری سے کافی عرصہ قبل پارٹی چھوڑ چکے تھے اور سینیٹ سے مستعفی ہوگئے تھے۔ تاہم انہوں نے اپنے ہتھیاروں کا لائسنس دکھا دیا اور کراچی کی عدالت نے انہیں10نومبر کو ضمانت پر رہا کردیا۔

مجلسِ وحدت المسلمین کے سربراہ راجہ ناصر عباس نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ حکومت کی ہدایات پر سندھ میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی توازن قائم کرنے کی غیرمنطقی پالیسی کا شاخسانہ ہے اور اس کا مقصد ان کالعدم تنظیموں کو خوش کرنا ہے جو حکومت کے ساتھ ہاتھ ملاچکی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گرفتار ہونے والے رہنماء کسی بھی قسم کی فرقہ ورانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔

راجہ ناصر عباس نے کہا:’’ المیہ تو یہ ہے کہ انتہا پسند گروہوں کو خوش کرنے کے لیے توازن قائم کرنے کی پالیسی کے تحت متاثرین کے ساتھ دہشت گردوں کی طرح کا برتائو کیا جارہا ہے۔‘‘

ایک بڑے انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر یہ ظاہر کرتی ہے کہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے مطابق یہ خبر بے بنیاد ہے اور اس کی وجہ سے حکومت اور فوج میں تقسیم پیدا ہوئی جس سے ملک کے سکیورٹی کے بیانیے پر منفی اثرات مرتب ہوئے، اس خبرنے یہ نمایاں کیا کہ سویلین قیادت نے انٹیلی جنس ایجنسیوں پر مبینہ طورپر انتہا پسند گروہوں کی معاونت کرنے اور پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کا الزام عائد کیا، اس وقت پاکستان پر پہلے ہی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف درست طورپر کارروائی نہ کئے جانے پر تنقید کی جارہی ہے۔ نثار علی خان نے 29اکتوبر کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا:’’ سول و ملٹری قیادت دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے ہمیشہ ایک صفحے پر رہی ہے اور یہ خبر گمراہ کن ہے۔‘‘

مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق 2010ء میں پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ہی اپنے مالی سال برائے 2009-10ء کے بجٹ میں جماعت الدعوۃ سے منسلک اداروں کے لیے ایک کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے تھے۔2009-10ء کی بجٹ دستاویزات میں مختص کی گئی رقم اور اس کے مقاصد کی تفصیل بھی بیان کی گئی تھی۔ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ نے سرکاری طورپر ان اعداد و شمار کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ یہ رقم تنظیم کے ہسپتال اور سکولوں کے لیے ’’انسانی بنیادوں‘‘ پرمختص کی گئی۔ اسی طرح 2008ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ہی لشکرِ جھنگوی کے سربراہ ملک اسحق کے خاندان کا وظیفہ مقرر کیا تھا جب وہ جیل میں ٹرائل کا سامنا کررہے تھے، ملک اسحق بعدازاں 2015ء میں پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔پنجاب حکومت نے وظیفہ دیے جانے کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ یہ ملک اسحق کے خاندان کے لیے ہے۔

برسرِاقتدار پاکستان مسلم لیگ نواز کا ایک اور اقدام قومی ایکشن پلان کے نفاذ پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے جب وزیرداخلہ نے دفاعِ پاکستان کونسل کے رہنمائوں سے ملاقات کی اور ان کو اس وقت اسلام آباد کے مرکز میں عوامی ریلی کے انعقاد کی اجازت دے دی جب 28نومبر کو اس نے اپنی حریف سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف کریک ڈائون شروع کررکھا تھا۔

رضا رومی نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ سویلین حکومتیں نہ تو بااختیار ہیں اور نہ ہی ان گروہوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں جس کے باعث اس کے ہیئتِ مقتدرہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے ہیں جن کا اظہار ڈان لیکس سے بھی ہوتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ برسرِاقتدار مسلم لیگ نواز چوں کہ وسطی پنجاب میں رجعت پسند حلقوں میں مقبول ہے جس کے باعث انتخابی الائنس کرنا اس کی مجبوری ہے اور اس وجہ سے ہی وہ سارا الزام فوج پر عائد نہیں کرسکتی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے سربراہ وزیراعظم نواز شریف ہے جسے مختلف امکانات کاجائزہ لینے اور سنجیدگی کے ساتھ ملک کو ان عناصر سے پاک کرنے کے طریقوں پر غور کرنا چاہئے۔ طاقت کا استعمال آسان اور بہترین ہے لیکن زیادہ اہم یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو غیرمسلح کرنے کے لیے حکمتِ عملی تشکیل دی جائے۔ ان کا کہنا تھا:’’ اس کے لیے ہمیں سویلین حکومت میں یہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جہادی عناصر سنجیدہ نوعیت کا خطرہ ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان مسلم لیگ نواز اور دیگر جماعتوں کو فرقہ ورانہ تنظیموں کی سرپرستی سے باز آ جانا چاہئے۔ سکیورٹی ہیئتِ مقتدرہ کو جہادیوں کا متبادل تیار کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اس وقت عمران خان کو جہادی خطرہ تصور نہیں کرتے اور وہ ان کے لیے معذرت خواہانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں جس کے باعث پاکستان مسلم لیگ نواز کا اس معاملے پر فوج کے ساتھ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے حوالے سے مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here