کابل ( ثناء اعجاز سے)ایک برس قبل افغانستان آنے کے بعد عاصمہ نے کابل کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے سرحد کے اس پار پاکستان کے شہر پشاور میں تعلیم حاصل کی جس کے باعث اپنے ملک کی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے قابل ہوئیں۔

20برس کی عاصمہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ آپ ہمیں پشاور سے تو نکال سکتے ہیں لیکن اس شہر کو ہمارے دل سے نہیں نکال سکتے۔‘‘

ان کے والد 20برس تک پشاور میں ایک مہاجر کے طور پر زندگی بسر کرنے کے بعد اپنے خاندان کو کابل واپس لے آئے ہیں۔ ان کے ساتوں بچے پاکستان میں ہی پیدا ہوئے۔

57برس کے سراج الدین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم وہاں رہے ہیں، ہمارے بچوں نے وہاں ہی تعلیم حاصل کی اور دوست بنائے لیکن حکام ہمارے لیے پریشانی پیدا کرتے رہے، وہ دستاویزات کے حوالے سے استفسار کرتے چناں چہ مجھے کابل واپس آنا پڑا۔‘‘

پاکستان کے بے لچک رویے کے باعث افغان مہاجرین کی تشویش بڑھی ہے کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔ پڑوسی ممالک ایک دوسرے پر اپنے ملک کے حالات خراب کرنے کی ذمہ داری عاید کرتے ہیں۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کو نہ صرف ملک بدر کیا ہے بلکہ پشاور کے مضافات میں قائم مہاجر کیمپوں کچا گڑھی اور جلوزئی کو بند کردیا ہے کیوں کہ یہ خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ یہ دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔

Afghanistan Humanitarian Needs Overview  برائے 2016ء میں کہا گیا ہے :’’ واپس لوٹنے پر مجبور کیے جانے والے مہاجرین کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:’’ واپس لوٹنے والے مہاجرین کو ٹرانزٹ سنٹرز پر فراہم کیے جانے والے امدادی پیکیجز عموماً دو ماہ سے کم عرصہ ہی چل پاتے ہیں۔ واپس لوٹنے والوں کو مقامی آبادی میں گھلنے ملنے کے حوالے سے نمایاں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مزید برآں دستاویزات کے بغیر واپسی کے باعث نہ صرف ان کی مشکلات میں اضافہ ہواہے بلکہ قانونی پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔‘‘

Girls on the streets of Kabul: Photo by News Lens Pakistan/
Girls on the streets of Kabul: Photo by News Lens Pakistan/

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین(یو این ایچ سی آر) کے مطابق عاصمہ کا خاندان ان 58ہزاررجسٹرڈ مہاجرین میں سے ایک ہے جنہیں گزشتہ برس پاکستان سے بے دخل کیا گیا۔

گزشتہ 35برس سے زائد عرصہ سے پاکستان نے مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی کی ہے۔

افغان جنگ کے بعد مہاجرین کے بحران کے عروج کے دنوں میں اور بعدازاں افغانستان میں اٹھنے والی مختلف شورشوں کے باعث 40لاکھ سے زائد افغان پاکستان بھر میں اور خاص طور پر سرحدی صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں قائم مہاجر کیمپوں میں رہتے رہے ۔

وزارتِ سیفران کے مطابق2002ء سے اب تک 39لاکھ سے زائد مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس لوٹ چکے ہیں۔ مہاجرین کی اس قدر بڑی تعداد میں واپسی کے باوجود یو این ایچ سی آر کے ایک اندازے کے مطابق تقریباً15لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین اب بھی پاکستان میں آباد ہیں جنہیں پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے درمیان سہ طرفہ بندوبست کے تحت دسمبر 2017ء تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔

افغانستان میں تعینات پاکستان کے سفیر سید ابرار حسین نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ 16لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین کے علاوہ پاکستان میں 10لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی رہ رہے ہیں۔

The former Afghans refugees who are returned to the  outskirts of Kabul live in slums and have no improvement in life: Photo by News Lens Pakistan/
The former Afghans refugees who are returned to the outskirts of Kabul live in slums and have no improvement in life: Photo by News Lens Pakistan/

اقوامِ متحدہ کے آفس فار کوارڈینیشن آف ہیومنٹیرین افیئرز ( یو این او سی ایچ اے) کے Humanitarian Needs Overview برائے 2014ء میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین کی واپسی ’’ ملک کے  لیے سنجیدہ نوعیت کے چیلنج‘‘کھڑے کررہی ہے۔

اگرچہ 2007ء اور 2008ء کے بعد سے واپسی کا رُخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے جب پاکستان نے خیبرپختونخوا میں قائم بڑے مہاجر کیمپوں کو بند کیا تھا، افغان حکومت پاکستانی حکام سے بارہا یہ کہتی رہی ہے کہ ملک میں مہاجرین کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی محدود صلاحیت کے باعث پاکستانی حکومت افغانوں کے قیام کو بڑھائے۔

رواں برس اپریل میں افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین و بحالی سید حسین عالمی بلخی نے حکومت سے توسیع کا کہنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔

بحالی کے عمل کو پائیدار بنانے کے لیے واپسی آنے والے مہاجرین کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے یا پھر افغان صدر اشرف غنی کے الفاظ میں مہاجرین کو اراضی، ملازمتیں اور بنیادی خدمات فراہم کی جائیں ۔

اب تک واپس آنے والے مہاجرین، جو یو این ایچ سی آر کے مطابق افغانستان کی موجودہ آبادی کے ایک چوتھائی پر مشتمل ہیں، ان سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث وہ پاکستان واپسی یا پھر معاونت کے حصول اور خوراک کی تلاش کے لیے اندرونِ ملک مہاجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

Water scarcity in Kabul, a child is filling his pots with  a hand pump in Kabul city : Photo by News Lens Pakistan/
Water scarcity in Kabul, a child is filling his pots with a hand pump in Kabul city : Photo by News Lens Pakistan/

امدادی ادارے کہتے ہیں کہ واپس آنے والے مہاجرین کے حالات شورش کے باعث افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہجرت کرنے والے مہاجرین سے مختلف نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں تک اپنے دیہاتوں اور گھروں سے دور رہنے کے باعث ان کی اراضی پر قبضہ کیا جاچکا ہے اور ان کو ملازمت یا پھر زراعت کے مواقع نظر نہیں آتے۔

بہت سے ایسے مہاجرین جو جنگ کے برسوں کے دوران افغانستان کے دیہی علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہوئے تھے، وہ پاکستان میں شہری ماحول میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

انہوں نے واپسی پر بھی شہری مراکز کے قریب رہنا ہی پسند کیا ہے جن میں کابل اور جلال آباد کے نواحی علاقے شامل ہیں جو واپس آنے والے مہاجرین کی آبادیوں کی صورت اختیار کررہے ہیں۔

سراج الدین نے افغانستان واپس آنے کے بعد ایک عالمی غیر سرکاری تنظیم میں ملازمت حاصل کی ہے۔ ان کے بچے چھٹیاں گزارنے کے لیے ہمیشہ پشاور جانے کے لیے اصرار کرتے ہیں۔

سراج الدین کہتے ہیں:’’ ہمارے لوگ پاکستانی سماج میں گھل مل گئے ہیں کیوں کہ وہ تقریباً چار دہائیوں تک وہاں رہے ہیں۔ کابل میں زندگی کے رنگوں سے آشنا ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی اور بنیادی سہولیات جیسا کہ تعلیم، صحت اور تحفظ نہ ہونا وہ بنیادی وجوہات ہیں جو ’’ واپس لوٹنے والے افغان مہاجرین کو پریشان کرتی ہیں۔‘‘

مذکورہ بالا مشکلات کے علاوہ پاکستان میں رہنے والے بہت سے مہاجرین افغانستان واپس نہیں جانا چاہتے۔ جواد احمد، کالج میں زیرِ تعلیم ہیں اور جزوقتی طور پر درزی کا کام کرتے ہیں، کے لیے افغانستان میں سکیورٹی کے فقدان کے باعث پاکستان میں رہنا ہی اولین انتخاب ہے۔

27برس کے جواد احمد نے کہا:’’ شورش اور طالبان کے حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان میں ہم پرامن زندگی نہیں گزاریں گے۔ صورتِ حال کے بہتر ہونے تک پاکستان میں قیام زیادہ موزوں ہے۔‘‘

پشاور یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز سے منسلک محقق ظہور رحمان کے مطابق جنگ سے متاثرہ ملک میںواپسی ان مہاجرین کے لیے آسان فیصلہ نہیں ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان رہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا:’’ ہمیں( پاکستان کو) افغان مہاجرین کو واپسی کے لیے مجبور نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ان کو عالمی کنونشنوں اور قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here