اسلام آباد (رحمت محسود سے) عوام نے 40ارب روپے کے منی بجٹ کو رَد کر دیا ہے اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری خبردار کرچکی ہے کہ یہ نیا بجٹ نہ صرف ٹیکس وصولی کے نظام کو غیرمستحکم کرے گا بلکہ ’’ غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے عاید کی گئی شرط کے تناظر میں ٹیکس لگائے جسے منی بجٹ کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور اس کے تحت 61مصنوعات کی درآمد پر پانچ سے 10فی صد تک ڈیوٹی نافذ کیے جانے کے علاوہ 289مصنوعات پر پانچ فی صد تک ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔
مزیدبرآں اسحق ڈار نے ہزاروں مصنوعات پر ایک فی صد کسٹم ڈیوٹی عاید کی ہے۔ لیکن اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ پیش گوئی کرتے ہیں:’’ یہ منی بجٹ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بڑھائے گا جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔‘‘
راولپنڈی شہر کی پرہجوم مارکیٹ میں کپڑے کے تاجر 45برس کے اظہار عباسی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے شکایت کی کہ حکومت کی جانب سے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے باعث ان کے کاروبار کو سخت دھچکا لگا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ آپ آگاہ ہی ہیں کہ جب بھی حکومت نئے ٹیکس عاید کرتی ہے تو ٹرانسپورٹرز کرایے بڑھادیتے ہیں اور بالآخر تمام تر بوجھ عام لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘‘
اظہار عباسی کا مزید کہنا تھاکہ چھوٹے تاجروں کو نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے باعث اشیا مہنگے داموں فروخت کرنا پڑتی ہیں اور ایک بار پھر ایک عام خریدار ہی مہنگائی کی چکی میں پستا ہے۔
 قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف اکنامکس سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر انور شاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ صاحبِ ثروت لوگوں پر براہِ راست ٹیکس نافذ کرتی۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح حکومت کو یہ بھی چاہیے تھا کہ کمپنیوں کے منافع پر ٹیکس عائد کرتی۔ ڈاکٹر انور شاہ کا مزید کہنا تھا:’’ اس طرح کے ٹیکسوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کمپنیاں صارفین پر بوجھ نہیں ڈال سکتیں۔‘‘
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر نے کہا کہ ملک میں اس وقت ٹیکسوں کا ایک ایسا نظام رائج ہے جس سے کم آمدن والا طبقہ متاثر ہورہا ہے اور تقریباً70فی صد ٹیکس بالواسطہ ٹیکسیشن کے ذریعے وصول کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا:’’ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو چاہیے کہ وہ براہِ راست ٹیکسیشن کا نظام متعارف کروائے جس کے تحت طبقۂ اشرافیہ اپنی قومی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور غریب طبقے کے لیے کچھ گنجائش نکل سکے۔‘‘
عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ تقریباً14کروڑ موبائل سبسکرائبرٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کا اندازاً34.5فی صد ٹیکس ادا کر رہے ہیں جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثریت کی آمدن اس قدر نہیں ہے کہ ان پر ٹیکس عاید ہوتاہو۔
جماعت دہم کے طالب علم امجد حسین نے کہا کہ موبائل کا استعمال انتہائی مشکل ہوگیا ہے کیوں کہ موبائل فون کمپنیاں ایک سو روپے کا کارڈ ریچارج کرنے پر 25روپے ٹیکس کاٹ لیتی ہیں۔
عاطف اکرام شیخ کا مزید کہنا تھا کہ ڈیڑھ کروڑ صاحبِ ثروت اور اڑھائی کروڑ اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادمیں سے تقریباً پانچ لاکھ لوگوں نے ٹیکس جمع کروایا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نظام میں کہیں پر کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہے۔
پاکستان اکانومی واچ، یہ عالمی معیشت پر ایک خودمختار تحقیقی فورم ہے جس کی توجہ پاکستان پر مرکوز ہے، کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ ٹیکسوں کی اضافی وصولی ظاہر کرنے کے لیے مزید ٹیکسوں کا نفاذ درست نہیں ہے۔ انہوں نے تاسف سے کہا:’’ یہ نظام امرا کو سپورٹ کرتا ہے جس کے منفی اثرات غریب طبقے کی آمدن پر پڑتے ہیں۔‘‘
نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے یہ منکشف ہوا کہ منی بجٹ میں حکومت نے 40ارب روپے کے اضافی ٹیکس نافذ کیے ہیںجن میں 61مصنوعات کی درآمد پر پانچ سے 10فی صد ڈیوٹی عاید کی گئی ہے۔ مزیدبرآں حکومت نے 289اشیاء پر تقریباً پانچ فی صد ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ ڈاکٹر انور شاہ نے کہا کہ ٹیکسوں کی شفافیت کو جانچنے کا ایک طریقہ توبالواسطہ ٹیکسوں کا بلاواسطہ ٹیکسوں سے موازنہ ہے جو بالترتیب 25سے 75فی صد تک ہے۔
انہوں نے کہا:’’ سادہ الفاظ میں مجموعی طور پر جمع کیے جانے والے ٹیکسوں کا 25فی صد بلاواسطہ ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا صاحبِ ثروت طبقہ ٹیکس ادا نہیں کرتا۔‘‘ ڈاکٹر انور شاہ نے مزید کہا کہ دوسری جانب معاشرے کے غریب و محروم طبقات سے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں بڑے پیمانے پر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ حکومت نے اضافی ٹیکس ’’آئی ایم ایف کی شرائط‘‘ پر عاید کیے ہیں لیکن وہ ان شرائط سے آگاہ نہیں ہیں۔
دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کے موجودہ تین ماہ کے دوران تقریباً 39.8ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ریونیو کی وصولی کے لیے یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
مزیدبرآں، حکومت نے گندم کی سبسڈائزڈ قیمت 13سو روپے فی من برقرار رکھی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی لیکن مکئی کی درآمد پر 30فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کر دی گئی ہے۔
راولپنڈی کی رہائشی پانچ بچوں کی والدہ بشریٰ بیگم نے کہا کہ نئے ٹیکسوں کے عام لوگوں کے گھریلو بجٹ پر براہِ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ہر بجٹ کے بعد مجھے دکانداروں کو روزمرہ کی اشیاکی خریداری یا بچوں کے لیے کپڑے خریدنے کے لیے اضافی رقم اداکرنا پڑتی ہے۔‘‘
مذکورہ دستاویز سے یہ بھی منکشف ہوا کہ 61مصنوعات پر پانچ سے 10فی صدڈیوٹی عاید کرنے سے نئے ٹیکسوں کی مد میں ساڑھے چار ارب روپے کی وصولی ممکن ہوسکے گی۔اسی طرح 289مصنوعات کی درآمد پر پانچ فی صد ڈیوٹی نافذ کرنے سے بھی ساڑھے چار ارب روپے ہی حاصل ہوں گے۔
لیکن اسلام آباد کے ایک تاجر 54برس کے محمد رضوان نے کہا:’’ حکومت کو لگژری گاڑیوں اور ایسی اشیا پر ڈیوٹی عاید کرنی چاہیے جو سماج کا صاحبِ ثروت طبقہ استعمال کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ نئے ٹیکسوں نے غریبوں اور کم تنخواہوں پر کام کرنے والے طبقے کی تکالیف میں غیر معمولی طور پراضافہ کیا ہے۔‘‘
لیکن وزارتِ خزانہ کے ایک افسر نے یہ یقین دہانی کروائی کہ عام آدمی کے بجٹ پر اثر انداز ہونے والی نو کیٹیگریز کو ایک فی صد ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔
اس فہرست میں زرعی مشینری، خام مال، ایوی ایشن سیکٹر، زراعت اور فارماسیوٹیکلز، کچھ سبزیاں، صنعتی مصنوعات اور کان کنی کے لیے استعمال ہونے والے صنعتی آلات شامل ہیں۔
مزیدبرآں مذکورہ افسر نے کہا کہ کچھ اور شعبوں پر بھی ایک فی صد درآمدی ڈیوٹی عاید نہیں کی گئی جن میں بیج ، فرٹیلائزرز، مینوفیکچرنگ مشینری، 25مختلف شعبوں کا خام مال جیسا کہ پیسٹی سائیڈز، چمڑے کی صنعت، ٹیلی کام سیکٹر، الیکٹرک موٹرزبشمول شوگر ملز وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 6.5ارب روپے مقامی طور پر تیار ہونے والے سگریٹوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا:’’ حکومت 2.5ارب روپے ایک ہزار سی سی سے اوپر کی پرانی گاڑیوں کی درآمد پر 10فی صد ڈیوٹی بڑھا کر حاصل کرے گی جب کہ ایک ہزار سی سی اور آٹھ سو سی سی کی پرانی گاڑیوں پر ڈیوٹی نہیں بڑھائی جائے گی جو بالترتیب چھ ہزار ڈالرز اور 48سو ڈالرز رہے گی۔‘‘
دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا کہ وہ 61مصنوعات جن پر پانچ سے 10فی صد تک ڈیوٹی عاید کی گئی ہیں، ان میں کوکونٹ، بادام، برازیل نٹ اور کاجو، زندہ پولٹری، چیریز، پائن ایپل، محفوظ کیا گیا گوشت، فروزن مچھلی اور مچھلی کا گوشت، مونگ پھلی، سٹرس پھل، چائے اور کافی ، چاکلیٹ بنانے کے لیے استعمال ہونے والے اجزا، سٹرابری، آڑو، خوبانی، ناشپاتی، ٹرنک اور سوٹ کیس و بریف کیس، چمڑے کے ملبوسات، گارمنٹس، جیکٹ، اوورکوٹ، ٹائی، مفلر،سکارف، شال، ترپال،ٹینٹ، پردے، جوتے، آرٹیفشل جیولری،ڈائپرز، تولیے اور گھڑیاں وغیرہ شامل ہیں۔
تقریباً 289مصنوعات ایسی ہیں جن پر 10سے 15فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کی گئی ہے جن میں پنیر، ہر طرح کا پائوڈرڈ پنیر، مکھن، قدرتی شہد، دہی، سیب، خشک لٹمس کی مصنوعات، آم اور فروزن آم، پائن ایپل، امرود، کنو، تربوز، کھٹی چیری، سٹابری، ناشپاتی، آم کا گودا، بلیک بیری، توت سیاہ، رس بھری، انار، امریکی کھجور، چلغوزے، سیب، آڑو، آلوبخارا، چیونگم، سفید چاکلیٹ اور اجزا، سویاں، مالٹ، کارن فلیکس، کرسپ بریڈ، بلگر وہیٹ، کھیرا، ٹماٹر، سبزیوں کا آمیزہ اور دیگر سبزیاں شامل ہیں۔
سڑک کنارے چھابڑی لگانے والے شیر حسن نے کہا:’’ حتیٰ کہ انڈوں اور دہی کی قیمت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور ہم اپنے سکول جانے والے بچوں کے لیے مناسب ناشتے کا بندوبست تک نہیں کرسکتے۔‘‘
ڈاکٹر انور شاہ کا کہنا تھا:’’نئے ٹیکسوں نے عام لوگوں کے لیے اشیاء کو مہنگا کر دیا ہے اور لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی آئی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here