وزیراعظم اور ان کے خاندان پرلٹکتی نااہلی کی تلوار

0
875

اسلام آباد: پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مبینہ کرپشن پرجاری اعلیٰ سطحی تفتیشی عمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جس کے باعث پاکستان میں سیاسی درجۂ حرارت بڑھ گیا ہے اور وزیراعظم اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کی جانب سے جے آئی ٹی کے خلاف دیے جانے والے بیانات کے باعث آنے والے دنوں میں پرتشدد واقعات ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

مزیدبرآں، اس سارے معاملے کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تفتیشی ٹیم ( جے آئی ٹی)نے سرکاری اداروں پر ریکارڈ میں ’’تبدیلی اور رکاوٹیں‘‘ پیدا کرنے کا الزام عائد کیاہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی 12صفحات میں مشتمل رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کس طرح منظم میڈیامہم کے ذریعے جے آئی ٹی پر دباؤ ڈال رہی ہے اور تفتیش پر منفی تنقید کی جارہی ہے ، جس کے باعث جے آئی ٹی کے لیے تفتیش کو جاری رکھنا مشکل ہورہا ہے، جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ ذمہ داروں کے خلاف فوری طورپر کارروئی کرے کیوں کہ وہ اس سارے تفتیشی عمل کی نگرانی کررہی ہے۔

جے آئی آٹی سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر تشکیل دی گئی تھی جو ان دنوں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سے یہ تفتیش کررہی ہے کہ وہ لندن کی قیمتی اراضی پر خریدے گئے پرتعیش فلیٹس کے حوالے سے قانونی منی ٹریل ثابت کرے۔ ان جائیدادوں کے بارے میں گزشتہ برس پاناما پیپرز کے ذریعے معلوم ہوا تھا۔ پاناما پیپرز انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس نے جاری کیے جن میں دنیا بھر کے اثر و رسوخ کے حامل سیاست دانوں کے نام شامل تھے جنہوں نے بیرونی ملکوں میں آف شور کمپنیاں قائم کر کے غیرقانونی طور پرجائیدادیں خریدی تھیں۔ پاکستان میں سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے کی کئی ہفتوں پر مشتمل سماعت کے بعد بالآخر مزید تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

میڈیا اور سول سوسائٹی کے کچھ حلقوں کی جانب سے تفتیشی عمل پر گہری نظر رکھی گئی جو 10جولائی کو ختم ہوگیا ہے اور اس نے وزیراعظم کے خاندان پر عائد کیے جانے والے الزامات پر موزوں کارروائی کے لیے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے بنچ کے روبرو پیش کردی ہے۔ جے آئی ٹی ارکان کا تعلق ایف آئی اے، قومی احتساب بیورو (نیب)، سٹیٹ بنک آف پاکستان ، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، انٹرسروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس سے تھا۔ میڈیا میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے عدالتِ عظمیٰ پر اثرانداز ہونے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہی ہیں۔ تاہم پاکستانی فوج نے اس معاملے میں شامل ہونے کے حوالے سے عائد کیے جانے والے ہر طرح کے الزامات کی تردید کی ہے ۔

جے آئی ٹی نے تفتیش کے فیصلہ کن مرحلے میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو طلب کیا جس کے باعث میڈیا میں افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔ تفتیش مکمل کرنے کے لیے مقرر کی گئی ڈیڈ لائن سے ایک ہفتہ قبل جے آئی ٹی نے وزیراعظم کی صاحب زادی مریم نواز کو طلب کیا جو وزیراعظم کی سیاسی جانشین تصور کی جاتی ہیں اور وزیراعظم کے دونوں صاحب زادوں کو حتمی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے دوبارہ طلب کیا۔

25جون کو لندن میں قیام کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کی جانب سے ان کے اور ان کے خاندان کے بیرونِ ملک موجود اثاثوں کے حوالے سے کی جارہی تفتیش کو رَد کرتے ہوئے اسے ایک’’لایعنی‘‘کوشش قرار دے ڈالا۔ انہوں نے انگلینڈ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا:’’پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ احتساب نہیں ہے۔ یہ ایک فضول سرگرمی ہے۔جے آئی ٹی نے گواہی کے لیے ہمارے بدترین حریفوں کو طلب کیا جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔‘‘ قبل ازیں وزیراعظم نوازشریف کی کابینہ کے کئی ارکان نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جے آئی ٹی پر لفظوں کے نشتر چلائے ہیں، جس کے بعد اس حوالے سے میڈیا پر مباحثوں کا آغاز ہوگیا۔

سیاسی امور کے ماہر اور ملک کے نامور تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے خیال میں جے آئی ٹی کی تفتیش جوں جوں آگے بڑھ رہی ہیں، سیاسی حالات خراب ہورہے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے ان کے داماد کے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کے بعد تفتیشی عمل کے خلاف ان کی جانب سے دیے جانے والے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ وزیراعظم یہ یقین رکھتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ان کے حق میں نہیں ہوگی اور اس بنا پرہی حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے مہم شروع کی گئی ہے جو بظاہر نہایت منظم ہے۔‘‘ وزیراعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اس تفتیشی عمل میں ان کے خلاف الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا۔

جے آئی ٹی تفتیش کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے ججوں میں سے ایک جسٹس اعجاز الاحسن نے حالیہ سماعت کے دوران یہ کہاہیکہ’’ ہم یہ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے خلاف میڈیا پر بڑے پیمانے پر مہم چل رہی ہے۔ ہم اس بارے میں آگاہ ہیں اور جے آئی ٹی کا کام مکمل ہوجانے کے بعد اس معاملے کو دیکھیں گے۔‘‘ کچھ ایسے ہی ریمارکس ایک اور جج جسٹس اعجاز افضل نے دیے جنہوں نے کہا:’’ میڈیا نہ ہی ہم پر اثرانداز ہوسکتا ہے اور نہ ہماری حدود کا تعین کرسکتا ہے۔ہمیں کوئی پرواہ نہیں کہ میڈیا کیا کہتا ہے یا کیا چاہتا ہے۔ ہم کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام جاری رکھیں گے۔‘‘

نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی رپورٹ کی کی نقل کے مطابق رپورٹ کا 90فی صد سے زائد متن ایسے خبری تراشوں پر مشتمل ہے جن میں جے آئی ٹی اور اس کے دائرہ کار پرتنقید کی گئی ہے، رپورٹ میں سرکاری حکام ، تجزیہ کاروں اور مختلف ٹاک شوز کے میزبانوں کی جانب سے کیے جانے والے تبصروں کے علاوہ مختلف میڈیاگروپس، سیاسی اور سول سوسائٹی کے گروہوں کے ٹوئٹ بھی شامل کئے گئے ہیں۔

جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ وہ ’’متعلقہ محکموں کے افسر یا افسروں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کے احکامات جاری کرے جنہوں نے میڈیا پر جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے خلاف غلط بیانات دیے جس کا ذکر مذکورہ بالا سطور میں کیا گیا ہے۔‘‘

جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کی کارروائی کے حوالے سے کی جانے والی میڈیا کوریج پر بھی تنقید کی اور یہ شکایت کی کہ ’’اخبارات و ٹیلی ویژن چینلوں پر آنے والی خبروں کے باعث تفتیش میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔‘‘ دریں اثناء میڈیا کی نگرانی کے علاوہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں واٹس ایپ پیغامات اور فیس بک کے وہ سٹیٹس بھی شامل ہیں جن میں جے آئی ٹی اور اس کی کارروائیوں پر تنقید کی گئی ہے۔

جے آئی ٹی نے اپنی اس رپورٹ میں وزیراعظم کی صاحب زادی کی جانب سے کیا جانے والا ایک ٹویٹ بھی پیش کیا ہے جس میں انہوں نے قرأن کی ایک آیت کے ذریعے جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ پر تنقید کی ہے۔ ٹویٹ کے ساتھ منسلک تصویر میں عربی متن درج ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:’’ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔‘‘

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے ان ’’الزامات‘‘ کا جواب دیتے ہوئے جے آئی ٹی پر تنقید کی اور کہاکہ وہ حقائق کا کھوج لگانے کے بجائے زیادہ وقت الیکٹرانک اور سماجی میڈیا کی نگرانی کرنے پر صرف کرتی رہی ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی یہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں جانبداری کا رجحان نیا نہیں ہے۔ اس کا مشاہدہ 1970ء میں بھی کیا جاچکا ہے جب میڈیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہوگیا تھا اور یہ رجحان آنے والے برسوں کے دوران بھی جاری رہا۔انہوں نے مزید کہا:’’ تاہم، اس بار یہ جانبداری بہت بڑھ چکی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی اہمیت اختیار کرچکا ہے ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا :’ ’ایک جانب تو جے آئی ٹی کی جانب سے تفتیش میں پیش قدمی ہورہی ہے اور دوسری جانب میڈیا پر حکومتی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی یہ محسوس کرتی ہے کہ میڈیا پر جاری مہم تفتیشی عمل متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہے اور یہ حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی ایک کوشش ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ’’ آنے والے دنوں میں میڈیا مزید جانبدار ہوسکتا ہے اور اگر عدالت وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو ملک میں پرتشدد واقعات ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here