لاہور (دردانہ نجم سے) پاکستان تحریکِ انصاف اور حکومت اسلام آباد، لاہور اور بنوں میں تحریکِ انصاف کی حامی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے عناصر کی شناخت کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے جب کہ خواتین رہنمائوں نے اعلیٰ قیادت کو نہ صرف بالمشافہ بلکہ تحریری طور پربھی آگاہ کیا ہے کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ہی خواتین کو ہراساں کیا۔
اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں 24اپریل 2016ء کو ہونے والے سیاسی جلسے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی خواتین حامیوں کو ہراساں کیا گیا تھا۔ یکم مئی کو لاہور کے چیئرنگ کراس پر ہونے والے جلسے میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہوا لیکن اس کی شدت کچھ کم تھی۔ خیبرپختونخوا کے شہر میں بھی ہراساں کرنے کا ایسا ہی واقعہ ہوا۔ لاہور ریلی کے علاوہ ، جس میں پی ٹی آئی نے خواتین کارکنوں کو ہراساں کرنے کا الزام پاکستان مسلم لیگ نواز پر عاید کیا،پی ٹی آئی نے دیگر ریلیوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میںپارٹی کے مرد کارکنوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ سے منسلک ایک سینئرخاتون رہنما نے ، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کی ریلی میں خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا عشرِ عشیر بھی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر خواتین کے انکلوژر سٹیج کے قریب بنائے جاتے ہیںلیکن اس بار یہ جلسہ گاہ کے آخر میں اس مقام پر بنائے گئے جہاںاسلام آباد کے جنگل کی حدود ایف نائن پارک کو چھو تی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ خواتین سے چھیڑ چھاڑ اس وقت ایک عام سا جرم معلوم ہوتا ہے جب شرکت کرنے والی خواتین کی قمیصیں تک پھاڑ دی گئیں۔ بہت سی خواتین کو ہسپتال لے جانا پڑا۔‘‘ اس خاتون رہنما نے مزید کہا کہ المیہ تو یہ ہے کہ سٹیج سے سب کچھ نظر آرہا تھا لیکن کسی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ انتظامیہ نے شکایتوں پر کان تک نہیں دھرا۔
اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے منتخب رُکن قومی اسمبلی اسد عمر اس ریلی کے انتظامی امور انجام دے رہے تھے۔
اس خاتون رہنماء نے کہا:’’ عمران خان نے اس واقعہ کے بعد انصاف ٹائیگر فورس کو تحلیل کردیا تھا جو ریلیوں کو منتظم کرنے اور اس کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔ تاہم بنیادی ذمہ داروں توصیف احمد اور زبیر نیازی، جن کی آنکھوں کے سامنے یہ انتہائی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، کو برطرف کیا جاچکا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ توصیف احمد ، اسد عمر کے معتمدِ خاص تھے اورپارٹی میں اُن کو کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی تھی۔ زبیر نیازی یوتھ ونگ پنجاب کے صدر رہ چکے ہیں۔‘‘
انہوں نے واضح طور پر کہا:’’ اسلام آبادکی ریلی میں موجود تمام لڑکے پی ٹی آئی کے سپورٹرز تھے۔ وہ باہر سے نہیں آئے تھے۔ وہ ہمارے کارکن ہی تھے جنہوں نے خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ کسی تک یہ یقین رکھتی ہیں کہ لاہور میں پی ٹی آئی کی ریلی میں جو کچھ ہوا، وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی چال تھی۔
نیوز لینز پاکستان نے اسد عمر سے اُن کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے زبیر نیازی کو شناخت نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ توصیف احمد کا اسلام آباد ریلی کے انتظامی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسد عمر نے کہا:’’ لاہور سے منتخب ہونے والے رکنِ صوبائی اسمبلی شعیب صدیقی ریلی کو منتظم کررہے تھے جب کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور اسلام آباد کی ایک یونین کونسل کے چیئرمین علی اعوان ریلی کی سکیورٹی اور لاجسٹکس کے امور دیکھ رہے تھے۔‘‘
انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا کہ خواتین کے لیے پنڈال کے عقب میں بندوبست کیا گیا تھا ، انہوں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین سٹیج کے بالکل قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ لڑکوں نے خواتین کو دھکے دیے حتیٰ کہ سٹیج کے قریب پہنچنے کے لیے رکاوٹوں کو بھی توڑ دیا۔
اسد عمر کے مطابق اس ساری واقعے کا جائزہ لینے کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ جمع کروا دی ہے اورملزموں کے تعین کے بعد پارٹی اُن کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ بالآخر حکومت پر ہی یہ ذمہ داری عاید ہوگی کہ وہ ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والے بہت سے مصنفین خواتین سے چھیڑ چھاڑ کو ’’ریپ‘‘ کی ایک شکل ہی قرار دیتے ہیں۔
ماہرِ سیاسیات سعید شفقت کہتے ہیں کہ خواتین کی سیاسی جلسوں میں شرکت پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ رہاہے۔ تاہم ان جلسوں میں جو خواتین شرکت کرتی رہی ہیں، وہ عموماً پارٹی کی کارکن ہوتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان خواتین کی مردوں کے شانہ بہ شانہ تربیت کی جاتی کہ ایسی ریلیوں میں کس طرح کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ مردوں کے ساتھ رقص کرتیں لیکن اس کے باوجود خود کو محفوظ تصور کرتیں۔
سعید شفقت نے مزید کہاکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدۂ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والی خواتین اس قدر بہادر تھیں کہ اگر اُن پر ایسا کوئی حملہ ہوتا تو مردوں کو کٹہرے میں لاتیں۔ یہ سب تربیت کے مرہونِ منت ممکن ہوتا تھا جو عورتوں اور مردوں کو یکساں طور پر دی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا:’’پاکستان تحریکِ انصاف کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ بالائی متوسط طبقے کا باغیانہ رویہ بھی ہے۔ تاہم اُن کی کوئی تربیت نہیں کی گئی جو سیاسی کارکنوں کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کی ریلیوں میں خواتین کوسرے سے کارکن ہی تصور نہیں کیا جاتا ۔‘‘
سماجی کارکن اور لوک ورثہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ شفقت نے قوانین اور مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے حکمتِ عملی کی تشکیل کے حوالے سے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساںکرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے دو قوانین موجود ہیں۔ ’’ ملازمت کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کا ایکٹ 2010ء خواتین کو ملازمت کی جگہ پر درپیش مسائل کا احاطہ کرتا ہے جب کہ تعزیراتِ پاکستان کی شق 509عوامی مقامات ، جن میں بازار، پبلک ٹرانسپورٹ، شاہرائیں اور پارکس وغیرہ شامل ہیں، پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘‘
تعزیراتِ پاکستان کی شق 509کے مطابق:
’’جو کوئی بھی خواتین کی عزت پامال کرے،یا اس مقصد کے لیے کوئی لفظ ادا کرے، آواز نکالے یاکوئی بھی چیز استعمال کرے، اورایسے الفاظ یا آواز خواتین سن لیں، یا ایسی حرکت دیکھ لیں جس سے خواتین کی نجی زندگی میں مداخلت مقصود ہو ،تو یہ ایک جرم ہے۔‘‘
ڈاکٹر فوزیہ شفقت نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کی شق 509کے تحت متاثرہ فریقین ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاسکتی ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ملازمت کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کے ایکٹ کو اپنے دفاتر میں لاگو کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس قانون کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی تو کوئی بھی ان سیاسی جماعتوں سے یہ امید نہیں کرسکتا کہ وہ تعزیرات پاکستان کی شق 509کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر کریںگی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا جب پی ٹی آئی کی ریلیوں میں خواتین کو ہراساں کیا گیا ہو۔ ڈاکٹر فوزیہ شفقت نے کہا:’’ہم دھرنے کے دوران بھی تقریباً روزانہ ہی ایسی خبریں سنتے رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ اب تک کوئی بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ اہم ہے کہ پی ٹی آئی ذمہ داروں کو گرفتار کروائے۔ جہاں تک اپنے طور پر انکوائری کروانے کا تعلق ہے تو یہ اس معاملے پر پردہ ڈالنے کا آسان ترین طریقہ ہے۔قانون کو اپنا کام کرنے دیں۔ یہ وقت خواتین پر الزام دھرنے کا نہیں بلکہ ملزموںکے خلاف کارروائی کرنے کا ہے۔‘‘
مسلم لیگ نواز پر لاہور ریلی میں خواتین کو ہرساں کرنے کے الزام پر رُکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حامی فطرتاً خواتین کو ہراساں کرنے کے عادی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ لاہور میں خواتین کو ہراساں کرنے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کو مسلم لیگ نواز پر الزامات عاید کرنے کی بجائے اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کرنی چاہئے۔  
پنجاب حکومت اس حوالے سے انکوائری شروع کرچکی ہے اور سب انسپکٹر بشریٰ نے شکایت کنندہ کے طور پر ایف آئی آر درج کروائی ہے۔
اربن ڈویلپر اور فارمن کرسچن کالج سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امداد حسین کہتے ہیں کہ مرد اخلاقی دیوالیہ پن کا شکارہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین جب سے خودمختار ہوئی ہیں اور انہوں نے مردانہ حاکمیت کو خیرباد کہا ہے تو مردوں کے لیے ،خاص طور پر عوامی مقامات میں خود کو اس ماحول میں ڈھالنا مشکل ثابت ہوا ہے۔

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here