کراچی: پاکستان کی مذہبی جماعتیں مدرسوں کی رجسٹریشن کے لیے سندھ حکومت کے مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کررہی ہیں جیسا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات کی بنا پر 53مدارس کا نام لیا ہے اوردیگر 167کو رجسٹرڈ نہ ہونے کی بنا پر بند کردیا ہے۔

سندھ کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے ایک سینئر افسر ثناء اللہ عباسی نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’دسمبر2014ء میں قومی ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد سے سندھ پولیس نے 167غیر رجسٹرڈ مدارس بند کئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس مدارس سے دہشت گردوں کے انخلا تک کارروائیاں جاری رکھے گی۔

ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ حکومت کو دہشت گردوں کی معاونت روکنے کے لیے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے قوانین میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا:’’ سندھ پولیس نے حال ہی میں صوبے کے 7,724مدارس کی جیو ٹیگنگ مکمل کی ہے جن میں سے 3,110صرف کراچی میں ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس اقدام کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مدارس اور ان کی امداد کے نظام پر نظر رکھنے میں معاونت حاصل ہوگی۔ ثناء اللہ عباسی نے کہا:’’ہم ان مدارس کا کھوج لگانا چاہتے ہیں جو عسکریت پسندی میں ملوث ہیں۔‘‘

محکمۂ انسدادِ دہشت گردی سے حاصل کئے جانے والے اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ کراچی کے 30مدارس کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط ہیں۔ دریں اثناء حیدرآباد کے 12، سکھر کے چھ، لاڑکانہ کے چار اور گھوٹکی کے ایک مدرسے کے عسکریت پسند تنظیموں سے روابط ہیں۔

محکمۂ انسدادِ دہشت گردی قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر صوبے کے 33مدارس کی نگرانی کررہا ہے۔

حکومتِ سندھ نے 20اگست کو قانون سازی کرنے کا اعلان کیا، سندھ کابینہ مدارس کے لیے مجوزہ بل کا ڈرافٹ منظور کرچکی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ کے قانونی مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی نے کہا:’’یہ قانون قومی ایکشن پلان کے مطابق ہے، جو دسمبر2014ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے نافذ کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی ایک پالیسی ہے۔اس بل میں سندھ کے مدارس کے حوالے سے تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے جن پر قومی ایکشن پلان کے تحت قابو پانے کی ضرورت ہے۔‘‘

دائیں بازو کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو اس مجوزہ قانون پر تحفظات ہیں اور انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اس نئے قانون کے تحت رجسٹریشن نہیں کروائیں گی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ نے اس مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے اور یکم ستمبر2016ء کو کراچی میں بل کے خلاف احتجاجی ریلی بھی نکالی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ شاخ کے جنرل سیکرٹری راشد محمود سومرو نے کہا:’’حکومت نے مدارس سے مشروط رجسٹریشن کا کہا ہے۔ ہم مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے کسی قسم کی شرائط قبول نہیں کریں گے۔ دریں اثناء ہم شرائط کے بغیر مدارس رجسٹر کروانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

موجودہ قانون کے تحت رجسٹر ہونے والے مدارس کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ دوبارہ رجسٹریشن کروائیں۔ نئے مجوزہ قانون کے تحت مدارس کو سب سے پہلے محکمۂ داخلہ کے صوبائی سیکرٹری ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے نو آبجیکشن سرٹفیکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مدرسے کی انتظامیہ کو این او سی کے حصول کے لیے صوبائی حکام کو مدارس کی تعمیر اور غیر ملکی طالب علموں کی تفصیل کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا، غیر ملکی طالب علموں کو اپنے آبائی ملک سے بھی این او سی حاصل کرنا ہوگا اور مدرسے کی انتظامیہ کو ذرائع آمدن بھی ظاہر کرنا ہوں گے۔

راشد محمود سومرو نے رجسٹریشن کے اس عمل میں شامل ہونے سے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا، انہوں نے کہا:’’ہمیں مذہب کی تدریس یا تبلیغ کرنے کے لیے خصوصی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا:’’ حکومتِ سندھ نے ہم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ قانون سازی کو مذہبی جماعتوں اور علمائے دین سے مشاورت کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔‘‘

تاہم انہوں نے خبردار کیا:’’ اگر حکومتِ سندھ اپنے وعدے پر عمل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو ہم ایک بار پھر احتجاج کریں گے۔‘‘
راشد محمود سومرو نے مدارس کے کالعدم یا عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ روابط سے بھی انکار کیا۔ انہوں نے کہا:’’یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ ہم دہشت گردی یا انتہاپسندی کی حمایت نہیں کررہے۔‘‘

یہ بل ایک برس قبل سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا لیکن مذہبی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باعث منظور نہیں ہوسکا تھا۔ سابق صوبائی وزیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو کہتے ہیں:’’حکومت نے مذہبی جماعتوں اور علماء سے متعدد ملاقاتیں کیں لیکن اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا۔‘‘

محکمۂ خزانہ و صنعت سندھ سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صوبے میں 16ہزار مدارس قائم ہیں اور ان میں سے نصف غیر رجسٹرڈ ہیں۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبۂ میڈیا سٹڈیز کی جانب سے 2012ء میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مدارس میں یہ اضافہ سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے عہد میں ہوا جب ان مدارس کے طالب علموں کو انتہا پسند نظریات سے لیس کیا گیا اور سوویت فورسز کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان بھیج دیا گیا۔

اس رپورٹ میںمزید یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مدارس کی اصلاحات کی ہر کوشش ناکام ہوئی ہے جس کی وجہ نامکمل تفتیش اور غیر حقیقی و ناموزوں قانون سازی ہے۔

تحقیقی مقالے کے مطابق آزادی کے وقت پاکستان میں مدارس کی تعداد 245تھی جو اب تقریباً50ہزار ہے۔

رجسٹرڈ مدارس پانچ بورڈز سے منسلک ہیں جو نصاب تشکیل دینے، امتحانات کی نگرانی اور فیسوں کا تعین کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔

وفاق المدارس کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری نے بھی مجوزہ بل کو رَد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے 2004ء اور2010ء میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ مدارس، جو پہلے ہی موجودہ قانون کے تحت رجسٹرڈہیں، ان سے دوبارہ رجسٹریشن کا نہیں کہاجائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے وفاق کے ساتھ بھی مشاورت کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here