ٹانک (رحمت محسود سے)جنوبی وزیرستان کے مرکز و فوجی ہیڈکوارٹرزوانا میںقائم واحد گرجا گھر میں ان علاقوں میں آبادقلیل مسیحی آبادی برسوں سے جاری شدت پسندی کے باوجود اتوار کے روز یکجا ہوکر عبادت کرتی ہے۔
اس گرجا گھر کا سنگِ بنیاد جنوبی وزیرستان سکائوٹس کے اس وقت کرنل ابصار احمد منہاس نے فوجی کمپائونڈ میں آباد مسیحیوں کے مطالبات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے رکھا تھا۔ وانا سکائوٹس کیمپ میں فوج کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے جو برطانوی راج کے دنوں میں اس کے تذوراتی مقام کی اہمیت کے پیش نظر تند خوآزاد قبائلیوں پر قابو پانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
گرجا گھر اس مقام پر قائم ہے جو مقامی طور پر لوئر کیمپ کہلاتا ہے، گرجا گھر کی بیرونی دیوار سات فٹ بلند ہے جس کی ایک منزلہ عمارت پر صلیب کی علامت کو نصب دیکھا جاسکتا ہے۔ گرجا گھر کی چھت ٹن سے بنائی گئی ہے جو برف باری میں ڈھال کا کام کرتی ہے۔ گرجا گھرمیں ایک ہال نما کمرا ہے جو خاص طور پر تیار کیے گئے ٹینٹوں کے بلاکس سے بنایا گیا ہے۔
گر جا گھر کے دو دروازے ہیں، صحن میں سٹیل کے دو بنچ نصب کیے گئے ہیں جن سے آسمانوں کو چھوتے ہوئے بلند وبالا ناہموار پہاڑوں کامسحور کن نظارہ دلوںـ کے تاروں کو ہلا دیتا ہے جو شیشہ ہائٹس کے نام سے موسوم ہیں۔ گرجا گھر کی حدود میں قائم واحد رہائشی کوارٹر بشپ کے لیے مخصوص ہے ‘ قرب و جوار میں کوئی عمارت نہیں دیکھی جاسکتی۔ تاہم جامع مسجد، گرجا گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے جس سے مذہبی رواداری کا ایک خوش کن احساس اجاگر ہوتا ہے۔
اس گرجا گھر پر کام کا آغاز 24جنوری 2000ء میں سیاسی انتظامیہ کے افسروـں اور مقامی مسیحی آبادی کی نگرانی میں شروع ہوا۔
سابق بشپ اور موجودہ پادری کے والد نذیر عالم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے یادوں کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہا:’’ گرجا گھر کی تعمیر سے قبل مقامی مسیحی آبادی ایک چھوٹے سے کمرے میں عبادت کیا کرتی تھی جہاں دم گھٹنے لگتا تھا۔ وانا میںبسنے والے سینکڑوں مسیحیوں کو عبادت کے لیے ایک مناسب مقام درکار تھا۔ ہم نے گرجا گھر کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کیے۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ مسیحی کمیونٹی نے اس نیک مقصد کے لیے دل کھول کر عطیات دیے۔‘‘
بشپ ذیشان عالم کے مطابق، جنہوں نے اپنی تعلیم کراچی کے تھیولوجیکل سکول سے حاصل کی ہے، یہ عبادت گاہ گوسپل پنٹی کوسٹل چرچ انٹرنیشنل (GPCI)کے زیرِانتظام ہے۔
نرم و شائستہ لہجے میں گفتگو کرنے والے پادری فرنٹیئر کانسٹیبلری سے منسلک ہیں‘ وہ ایک راسخ العقیدہ پرٹسٹنٹ ہیںـجن میں ذہانت و فطانت کوٹ کوٹ کر بھری ہے… نیم عسکری فورس فرنٹیئر کانسٹیبلری سرحدی علاقے میں دوبارہ سر اٹھانے والے طالبان اور دہشت گردوںسے مقابلہ کرنے کی ناکافی صلاحیت رکھتی ہے لیکن مقامی آبادی تمام مذاہب کے پیروکاروں کے احترام کے باعث معروف ہے۔
قبائلی بزرگ علی وزیر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم تمام عقائد کے پیروکاروں کی مذہبی آزادی کے خواہاں ہیں۔ ہم مسیحی کمیونٹی کے ارکان سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ روانی کے ساتھ مقامی زبان میں بات چیت کرتے ہیں۔ ہم حکومت سے ان کے بچوں کو بہتر تعلیم اور سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ وہ مثبت انداز سے ملک کی خدمت کرنے کے قابل ہوسکیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں مسیحی کمیونٹی کو کسی بھی قسم کے واضح خطرات کا سامنا نہیں ہے اور ان کی مقامی آبادی کے ساتھ بہترذہنی ہم آہنگی ہے۔ لیکن اقلیتی کمیونٹی کے ایک اور رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کہا:’’ اس وقت ہم جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں‘ وہ قبرستان کے لیے اراضی کا نہ ہونا ہے۔ ہم نے مقامی انتظامیہ کو درخواست دی ہے کہ مسیحی کمیونٹی کے ارکان کو اپنے پیاروں کو دفن کرنے کے لیے اراضی الاٹ کی جائے کیوں کہ پہلے سے موجود قبرستان میں اب جگہ ختم ہوچکی ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہماری کمیونٹی کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے۔‘‘
ذیشان عالم، جن کی عمر 30برس کے لگ بھگ ہے، نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم پُرامن لوگ ہیں اورمقامی قبائلی کمیونٹی کے ارکان کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آتے ہیں۔اس علاقے میں آباد مسیحی کمیونٹی کوسکیورٹی کے مسائل کا سامنا نہیں ہے یا دوسرے لفظوں میں ان کے لیے یہ حالات کوئی مسئلہ پیدا کرنے کا سبب نہیں بن رہے۔‘‘
قبل ازیں ستمبر 2013ء میں دو خودکش بمبار ہینڈ گرینیڈز اور پستولوں سے لیس ہوکر خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک تاریخی گرجا گھر میں گھس گئے تھے‘  دہشت گردی کی اس کارروائی میں 81افراد ہلاک اور 131زخمی ہوگئے۔
انہوں نے مزید کہاکہ سینکڑوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں کومسلمانوں کے اکثریتی قبائلی علاقوں میں پرامن طور پراتوار کے روز گرجا گھر میں اپنی عبادات کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ شکایت کی کہ ان کی کمیونٹی کے ارکان کو اقلیتوں کے لیے مخصوص کیے گئے پانچ فی صد کوٹے کے تحت ملازمت نہیں دی جارہی۔ انہوں نے ایک اور اہم مسئلے کی جانب بھی توجہ دلائی اور کہا کہ مسیحی کمیونٹی کے پاس قبرستان کے لیے قطعۂ اراضی توہے لیکن وہ مقامی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قبرستان کے لیے مزید زمین الاٹ کرے۔
جنوبی وزیرستان کے سنگلاخ علاقے طالبان اور ان کے قبائلی سہولت کاروں کی جانب سے پھیلائی گئی عسکریت پسندی کی لپیٹ میں ہیں۔
ذیشان عالم مقامی آبادی میں ایک مہذب اور باعزت مقام کے حامل ہے۔ حسن خان، جن کا اس علاقے میں کپڑے کا کاروبار ہے، کہتے ہیں:’’ وہ ایک انتہائی شائستہ انسان ہیں اور اپنے مثبت رویے کے باعث معروف ہیں۔ وہ لفظوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور مقامی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔‘‘
مذکورہ قبائلی علاقے اور پاک افغان سرحد پر جاری دہشت گرد حملوں اور فوجی آپریشن کے باعث ہزاروں لوگ، جن میں عسکریت پسند، عام شہری اور سکیورٹی اہل کار شامل ہیں،مارے جاچکے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک بڑی تعداد میں مقامی آبادی ملک کے دیگر اضلاع کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی ہے جو انتہائی مشکل حالات میں جیون بیتا رہی ہے۔
ذیشان عالم نے کہا کہ وانا میں نئے تعمیر ہونے والے شاہ لام ہسپتال میں ان کی کمیونٹی کے لیے کوئی آسامی مخصوص نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے پاس قبائلی شناختی کارڈ اور ڈومیسائل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’فاٹا کا ڈومیسائل ہونے کے باعث میٹرک کرنے کے بعد طالب علموں کو ملکی تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے جو کمیونٹی کے لیے ایک اطمینان بخش اَمر ہے۔‘‘
ایک اور مقامی قبائلی محمد ادریس نے کہا:’’ گرجا گھر کا قائم ہونا اطمینان بخش ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اقلیتوں کے حقوق پر کوئی قدغن عایدنہیں کی جانی چاہیے۔ علاقے میںگرجا گھر کے قیام کے باعث باہمی رواداری کا مثبت پیغام فروغ پذیر ہواہے لیکن ممکن ہے کہ ایک خاص گروہ، طالبان کی جانب بالواسطہ اشارہ کرتے ہوئے، دیگر مذاہب کے بارے میں عدم رواداری پر مبنی فکر کا حامل ہو۔‘‘
قبائلیوں کی اکثریت اس اَمر پر فخر محسوس کرتی ہے کہ ایک اقلیتی گروہ اپنی مذہبی عبادات آزادانہ طور پر ادا کررہا ہے۔
ایف اے کے طالب علم امیر نواز نے کہا:’’ مقامی آبادی کو ان کے علاقے میں گرجا گھر کے قیام پر کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ ہم تو علاقے میں اس گرجا گھر کے قیام پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکام اس واحد گرجا گھر کی تزئین و آرائش کے لیے مزید فنڈز جاری کریں۔‘‘
ایک سکیورٹی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا :’’ گرجا گھر چوں کہ ایک ایسے علاقے میں قائم ہے جہاں سکیورٹی کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں جس کے باعث قلیل مسیحی آبادی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
سکیورٹی تجزیہ کار یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر فوری طور پرجنگ سے متاثرہ علاقے کی ترقی اور سکیورٹی کے حالات بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے تو بہ ظاہر پرسکون لیکن حقیقت میں تشویش ناک صورتِ حال کا شکار جنوبی وزیرستان ایک بار پھر شورش کا شکار ہوسکتا ہے۔
ان تمام تر خطرات کے باوجود عسکریت پسندوں کی جانب سے مسیحی کمیونٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا جو اس بنجر علاقے میں مختلف حیثیتوں میں کام کر رہے ہیں۔ تاہم 2008ء میں قبائلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والی کئی برسوں پر محیط عسکریت پسندی کے دوران مختصر عرصہ کے لیے پانچ مسیحی اغوا کیے گئے جنہیں بعدازاں کوئی نقصان پہنچائے بغیر چھوڑ دیاگیا۔
 30برس کے ایک اقلیتی نوجوان عمران مسیح سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ قبائلی علاقوں میں گرجا گھر کے قیام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا:’’ یہ اَمر میرے لیے باعثِ حیرت ہے کہ وانا میں گرجا گھر قائم ہے۔ حکام کواقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کرناچا ہئیں کیوں کہ وہ شورش کا شکار علاقے میں ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔‘‘
تاہم ایک اور اقلیتی رُکن نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے ارکان وانا کی حدود سے باہر نہیں جاتے کیوں کہ ایسا کرنا ان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا:’’ ہم نے اپنی سرگرمیاں ایک خاص علاقے تک محدود کر رکھی ہیں ۔‘‘
یوں یہ اب مقامی انتظامیہ کی انتہائی اہم اور مقدم ذمہ داری ہے کہ وہ مسیحی کمیونٹی کے مفادات کا تحفظ کرے جو اس شورش زدہ علاقے میں ملک کی خدمت کر رہی ہے۔
ذیشان عالم نے کہا کہ تقریباً تین سو مسیحی وانا میں آباد ہیں۔ اقلیتیں مختلف حیثیتوں میں جیسا کہ سائوتھ وزیرستان سکائوٹس میں خدمات انجام دے رہی ہیں، کچھ صفائی ستھرائی کا کام کر تے ہیں تو کچھ اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here