اسلام آباد(رحمت محسود) حکام نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کے حوالے سے کی جانے والی چھان بین سے یہ معلوم ہوا ہے کہ 39ٹیکسٹائل و سپننگ ملز غلط کاروباری ٹرانزیکشنز میں ملوث ہیں جس کے باعث قومی خزانے کو تقریباً ایک ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور محکمۂ انکم ٹیکس سے منسلک دو افسروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینزپاکستان کو اس دھوکہ دہی کی تفصیل بتائی۔

ایک افسر نے کہا:’’ ان کمپنیوں کا تعلق ٹیکسٹائل اور سپننگ سیکٹر سے ہے جنہوںنے دھوکہ دہی پر مبنی کاروباری ٹرانزیکشن میں معاونت فراہم کی۔‘‘ انہوں نے ان کمپنیوں کے نام نہیں بتائے کیوں کہ اس سے تفتیشی عمل پر اثرات مرتب ہوں گے۔

دفتر انکم ٹیکس کے انٹیلی جنس افسر نے کہا کہ محکمہ نے ان کمپنیوں، ملوں کے خلاف کارروائی کے لیے ایف بی آر کو ان کے نام، سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبرز اور دیگر کوائف فراہم کردیے ہیں۔
مذکورہ افسر نے انکشاف کیا:’’ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی بھی انٹیلی جنس ایجنسی فعال کمپنیوں کی جانب سے دھوکہ دہی کا کھوج لگانے میں کامیاب رہی ہے جنہوں نے قومی خزانے کو 943,593,360روپے کا نقصان پہنچایا۔‘‘

ایف بی آر سے جب رابطہ قائم کیا گیا تو ایک افسر نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا:’’ ہم زیرِتفتیش معاملات پر تبصرہ نہیں کرتے۔‘‘

معاشی امور کے ماہر اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا کہ ٹیکس نہ دینے کی ثقافت کے باعث ملک میں ٹیکس چوری عام ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا :’’ بڑی کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی ٹیکس چوری حکام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی انڈسٹری یا کمپنی اپنا منافع ظاہر نہیں کرتی یا غلط نقصانات رجسٹر کرواتی ہے تو ان سے نپٹنے کے لیے سخت پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا کہ اگر کوئی شخص یا کمپنی انکم ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کرتی تو اس کو قوانین کے مطابق سزا دی جائے۔ ان کمپنیوں کو انعام دیا جائے جو ریٹرن جمع کرواتی ہیں کیوں کہ اس نوعیت کے اقدامات سے کاروباری اداروں کی ٹیکس ادا کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ وہ کمپنیاں یا اشخاص، جو نقصان ظاہر کرتے ہیں، ان کے آڈٹ کے لیے اچھی ساکھ کی حامل آڈٹ فرم کی خدمات حاصل کی جائیں۔

اسلام آباد کی ایک گروسری شاپ کے مالک شاہ نواز نے کہا کہ عام لوگ بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے شکایت کی:’’ متعلقہ محکموں کے افسر جانتے ہیں کہ کون ٹیکس چوری کررہا ہے لیکن وہ کوئی کارروائی نہیں کرتے۔‘‘

شاہ نواز نے کہا کہ اگر بڑی کمپنیاں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنا شروع کردیں اور ٹیکس ریٹرنز جمع کروائیں تو حکومت کو بالواسطہ ٹیکس نافذ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی جو گاہکوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

یہ معاملہ اس وقت منکشف ہوا جب گزشتہ ہفتے اگلے مالی سال کے لیے بجٹ کا اعلان کیا گیا۔ قبل ازیں نیوز لینز پاکستان نے رپورٹ کیا تھا کہ حکومت نے بالواسطہ ٹیکس یا منی بجٹ نافذ کیا ہے کیوں کہ صاحبِ ثروت طبقہ، کاروباری اشرافیہ و صنعت کار ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا کہ ٹیکس کی ادائیگی کے کمزور نظام کے باعث مقامی و غیر ملکی کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اسلام آباد کی پھل و سبزی منڈی کے معروف تاجر رضا شاہ کہتے ہیں کہ سماج کا پسا ہوا طبقہ ٹیکس دیتا ہے جب کہ صاحبِ ثروت طبقہ ٹیکس چوری کرتا ہے۔

انہوں نے کہا:’’ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت انتہائی کمزور ہے جس کے باعث وہ کاروباری اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے قابل نہیں ہے۔‘‘ رضا شاہ نے مزید کہا کہ چھوٹے تاجر و عام لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ گاہکوں کو ٹیکسوں کا یہ بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمۂ انکم ٹیکس کو ان صاحبِ ثروت اشخاص اور لوگوں کے نام قوم کے سامنے ظاہر کرنے چاہئیں جو ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) گزشتہ برس شایع ہونے والی اپنی رپورٹ بعنوان ’’ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات‘‘ میں کہتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا جی ڈی پی میں تناسب ایشیاء بھر میں سب سے کم ہے اور ملک کو بڑے پیمانے پر بالواسطہ ٹیکس نافذ کرنے کے باوجود سنجیدہ نوعیت کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، یہ بالواسطہ ٹیکس رجعی نوعیت کے ہیں اور کم آمدن والے طبقے پر بہت زیادہ بوجھ کا باعث بنتے ہیں۔

قبل ازیں ایف بی آر کے ایک افسر نے نیوز لینز پاکستان سے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی آبادی کا صرف 0.3فی صد حصہ ہی ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا ہے یا انکم ٹیکس ادا کرتا ہے اور انہوں نے کہا تھا کہ یہ شرح دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں 70لاکھ افراد ٹیکس ادا کرنے کے اہل ہیں۔

پلڈاٹ کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی وصول کا میکانزم درست نہیں ہے جس کے باعث اشرافیہ ٹیکس ادا کرنے سے بچ جاتی ہے، اور شہریوں میں سماجی و معاشی عدم توازن میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹیکس نادہندگان کی سختی کے ساتھ سکروٹنی کی جائے۔

حکومت کو صرف ان کے بینک اکائونٹس تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ ان کی تمام سرگرمیوں مثال کے طور پر ان کی جائیدادوں، کاروباری سرگرمیوں، رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ بنک اکائونٹس وغیرہ پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:’’ ٹیکسوں کی وصولی کے بنیادی قانون کا اطلاق تمام صنعتوں پر کیا جائے جس سے مناسب سیلز ٹیکس ریونیو حاصل ہوگا۔‘‘

سرکاری شماریات سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ گزشتہ برس حکومت نے مالی سال 2015-16ء کا بجٹ پیش کیا تواس میں کل مصارف 42کھرب سے زیادہ تھے۔ محکمۂ انکم ٹیکس سے منسلک ایک افسر نے کہا کہ ماضی میں کاغذی ٹرانزیکشن کے معاملات میں زیادہ تر بلیک لسٹ ہونے والے یا بند یونٹ ملوث تھے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ دھوکہ دہی کے ایسے بڑے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جن میں بلیک لسٹ کیے جانے والے یونٹوں نے کاغذی ٹرانزیکشن کی اور ان سے چوری کی گئی رقم کی واپسی ناممکن ہے۔‘‘
تفصیلات سے یہ بھی منکشف ہوا کہ انٹیلی جنس ڈائریکٹورٹ نے سیلز ٹیکس ادا کرنے والوں کی جانب سے غلط ٹرانزیکشن کی باوثوق معلومات پر مختلف معاملات پر تفتیش کا آغاز کیا۔

انہوں نے مزید کہا:’’ انکوائری سے یہ منکشف ہوا تھا کہ رجسٹرڈ اشخاص کاغذی یا غلط ٹرانزیکشنز میں ملوث تھے۔ انہوں نے دھوکہ دہی پر مبنی ٹرانزیکشنز میں معاونت کی۔‘‘
مذکورہ افسر نے کہا کہ رجسٹرڈ اشخاص نے انوائس پر غلط قیمت درج کی جب کہ سیلز ٹیکس کا اطلاق انوائس پر درج قیمت پر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفصیلی رپورٹیں ریجنل ٹیکس افسروں کو ارسال کی جاچکی ہیں تاکہ اس دھوکہ دہی میں ملوث کمپنیوں اور اشخاص سے ٹیکس چوری کی رقم کے علاوہ جرمانہ وصول کیا جائے اور سزا دی جائے۔

معاشی تجزیہ کار اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شجاع الملک نے کہا کہ ٹیکس فراڈیا چوری قومی خزانے پر انتہائی منفی نوعیت کے اثرات مرتب کرتی ہے۔ انہوں نے کہا :’’ ٹیکس چوری حکومتی آمدن میں کمی کا باعث بنتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر شجاع الملک نے کہا کہ حکومت کوخسارہ یا پھر اخراجات پورا کرنے کے لیے

قرضہ لینا پڑتا ہے یا پھر ایک نیا منی بجٹ لانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ جب لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں تو آمدن کم ہوجاتی ہے لیکن اخراجات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان حالات میں حکومت کو قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس سے قومی خزانے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here