خیبر ایجنسی: خیبر ایجنسی میں تقریباً ایک دہائی پر مشتمل شورش، تصادم اور نقل مکانی کے بعد ، جس نے خطے کی ثقافت اور تعلیمی شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں، نوجوانوں کے ایک گروپ نے جمرود میں رضاکارانہ طورپر پبلک لائبریری قائم کی ہے،یہ اس ایجنسی میں ایسی پہلی لائبریری ہے۔

مقامی لوگ ، خاص طورپر نوجوان ثقافت اور تعلیم کی بہ ظاہر عدم موجودگی اور تعلیمی اداروں کو چند عسکریت پسندوں کی جانب سے درپیش خطرات کے باعث اسے ایک نمایاں پیش رفت قرار دیتے ہیں۔

وزارتِ سٹیٹ و فرنٹیئر ریجنز کے مطابق 2015ء میں وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)کی تین ایجنسیوں میں 360سکول تباہ کئے گئے جن میں سے کم از کم 160شمالی وزیرستان،139 خیبرایجنسی اور55جنوبی وزیرستان میں تباہ ہوئے۔

لائبریری کے نگران عصمت آفریدی نے کہا:’’اگر ہم شرح خواندگی بڑھانا چاہتے ہیں تو ہم صرف سکولوں یا کالجوں پر انحصار نہیں کرسکتے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ لائبریری کا نام رحمت پبلک لائبریری ہے جو رحمت میموریل ٹرسٹ کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے اس کے قیام میں مدد فراہم کی، ا س میں 10ہزار کتابوں کی گنجائش ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ مقامی لوگ بھی تعاون کررہے ہیں اور کتابیں عطیہ کررہے ہیں اور اب کتابوں کی تعداد مجموعی طورپر1700ہوگئی ہے۔‘‘

library-10
Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan

عصمت آفریدی نے کہا کہ تعاون اور سہولیات نہ ہونے کے باعث لائبریری کے معاملات مقامی نوجوان چلا رہے ہیں جو ’’شورش کے باوجود سماج کے لیئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں جس نے حالیہ برسوں کے دوران ان سے ان کا سب کچھ چھین لیا ہے۔‘‘

Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan
Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan

انہوں نے کہا کہ مقامی طالب علموں کی لائبریری قائم کرنے اوراسے چلانے کے لیے رضاکارانہ خدمات پیش کرنے میں دلچسپی باعثِ اطمینان ہیں کیوں کہ مقامی لوگ ، جو کچھ عرصہ قبل تک بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کے باعث عوامی مقامات پر جانے کے حوالے سے محتاط تھے، اب واپس زندگی کی جانب لوٹ رہے ہیں۔

مقامی تعلیمی حکام کے مطابق خیبر ایجنسی کی صرف تحصیل باڑا میں 10برس طویل عسکریت پسندی کے دوران لڑکے و لڑکیوں کے 102سکول تباہ ہوئے۔باڑا تحصیل میں تقریباً چار سو سکول و کالجز ہیں۔ تقریباً64ہزار طالب علم محفوظ مقامات کا رُخ کرنے اور باڑا کے دیہاتوں میں قائم اپنے سکولوں کی تباہی کے باعث تعلیمی سلسلہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔

خیبرایجنسی پاکستان افغانستان سرحد سے متصل سات قبائلی ایجنسیوں میں سے ایک ہے جو2001ء سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ شورش، عسکریت پسندی اور خیبرایجنسی کے راستے افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی پر حملوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث حالیہ مہینوں کے دوران ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

خیبرایجنسی کی تحصیل باڑا عسکریت پسندی سے بدترین طورپر متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ حکومت شورش یا پھر عسکریت پسند حملوں کی وجہ سے سینکڑوں سرکاری پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری سکول و کالجربند کرچکی ہے۔

درجنوں سکول ، جن میں لڑکیوں کے سکول بھی شامل ہیں، بم دھماکوں میں تباہ ہوئے جن کی ذمہ داری عسکریت پسندوں نے قبول کی یا پھر یہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے طالبان اور خطے میں دیگر غیر ریاستی عناصرکے خلاف کی جانے والی کارروائی میں تباہ ہوئے۔

ایک دہائی پر مشتمل تباہ کن عسکریت پسندی کے بعد، جس نے خیبرایجنسی میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تباہ کیا ہے، 2015ء میں پاکستان افغانستان سرحد سے متصل بدامنی کے شکار ضلع میں سرکاری سکول و کالجزرفتہ رفتہ کھلنے لگے۔

Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan
Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan

عصمت آفریدی نے لوگوں کی دلچسپی اور رکنیت کی شرائط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یکم ستمبر سے قبل ارکان کی تعداد صرف20تھی لیکن لائبریری کے رسمی طورپر کھلنے کے بعد ارکان کی تعداد بڑھ کر 180ہوگئی ہے ، خیبرایجنسی کے تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم طالب علموں کی بڑی تعدادرکنیت حاصل کرنے کی خواہاں ہے جو بلامعاوضہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ان کا مقصد لائبریری کے ذریعے تعلیم کا فروغ ، طالب علموں کی صلاحیتوں کو نکھارنا اور مقامی طالب علموں کی تحقیق و مطالعہ میں دلچسپی پیدا کرنا ہے۔‘‘

لائبریری، اگرچہ چھوٹی ہے لیکن یہ مختلف حصوں میں منقسم ہے اور یہاںمتنوع موضوعات پر کتابیں دستیاب ہیں جن میں تاریخ، طب، ادب، جنرل نالج، ثقافت،تاریخِ اسلام اور سکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب سے متعلقہ دیگر کتابیں شامل ہیں۔ پرائمری کی سطح کے طالب علموں کے لیے بھی کچھ کتابیں موجود ہیں۔

یکساں مواقع فراہم کرنے کے جذبہ کے تحت لائبریری ہفتہ کے روزایک ایسی ایجنسی میں خواتین کے لیے کھلی ہوتی ہے جس کا خواتین کی تعلیم کے لیے زاویۂ نگاہ اب بھی رجعت پسندانہ ہے۔ عصمت آفریدی نے کہا کہ یہ اقدام اس لیے کیا گیا ہے تاکہ خواتین بغیر کسی خوف یا رکاوٹ کے لائبریری آئیں۔

Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan
Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan

اس وقت لائبریری میں روزانہ 10سے 20لوگ آتے ہیں لیکن یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہیں جیسا کہ علاقے کے لوگ اس کے بارے میں آگاہ ہورہے ہیں۔

رحمت میموریل ٹرسٹ کے صدر عطاء اللہ آفریدی نے کہا کہ لائبریری کے قیام کا مقصد قبائلی طالب علموں کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ دنیا میں ہورہی پیش رفت کے بارے میں آگاہ ہوں، تعلیم سے آراستہ ہوں اور مطالعہ کریں۔

انہوں نے مزیدکہا:’’خطے میں جاری شورش کے باعث علم اور تعلیم حاصل کرنے کی جستجو ماند پڑی اور ہم گزشتہ کئی برسوں سے یہ منصوبہ بندی کرتے ہے ہیں کہ اس مسئلے سے کس طرح نپٹا جائے۔ اس لائبریری کے ساتھ ہم نے بالآخر ایک ایسے تصورکو حقیقت کا روپ دیا ہے جو خواندگی اور لوگوں میں علم کی جستجو پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔‘‘

عطاء اللہ آفریدی نے کہا کہ لائبریری مکمل طورپر طالب علموں کی جدوجہد کے باعث قائم ہوئی ہے۔ انہوں نے ان لوگوں کی لائبریری کے قیام میں مدد پر تعریف کی جنہوں نے کتابیں عطیہ کیں اور رضاکارانہ طورپر خدمات انجام دیں۔

Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan
Rehmat Public Library: Photo by News lens Pakistan

انہوں نے کہا کہ لائبریری اس مقام پر قائم ہے جوکبھی منشیات کی فروخت کے باعث مشہور تھا۔عطاء اللہ آفریدی نے کہا کہ وہ ای لائبریری سروسز متعارف کروا کر لائبریری کو اپ گریڈ کرنے کی غرض سے تعاون کے حصول کے لیے کوشاں ہے جس سے طالب علموں کی علم اور کتابوں تک آسانی کے ساتھ رسائی ممکن ہوپائے گی۔

19برس کی بی اے کی طالبہ صائمہ ملک نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے لائبریری کی رُکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رکنیت کے باعث ان کی کتابوں تک رسائی ممکن ہوئی جس سے انہیں تعلیم میں معاونت ملی ہے۔

انہوں نے کہا:’’میں لائبریری کے قیام پر بہت خوش ہوں جس نے باڑا تحصیل کی لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے کا ایسا پہلا موقع فراہم کیا ہے۔ خواتین کے لیے ایک دن مخصوص کیا گیا ہے جو زبردست ہے جس کے باعث ہمیں اس سہولت سے سکون کے ساتھ استفادہ کرنے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔‘‘

سیکنڈ ایئرکے طالب علم عزیز اللہ خان کو جنرل نالج کی کتابوں کے مطالعہ کا بہت زیادہ شوق ہے۔

انہوں نے کہا:’’میں کالج سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ لائبریری آتا ہوں اور یہاں بیٹھ کر کتابیں پڑھتا ہوں۔ اس کی وجہ سے مجھے اپناجنرل نالج اور دیگر معلومات بہتر بنانے میں بہت مدد حاصل ہوئی ہے۔‘‘

عزیز اللہ خان نے مزید کہا کہ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں ان کی معلومات تک رسائی کے لیے میڈیا یا ٹیلی ویژن نہیں ہے۔ان کا مزید کہناتھا:’’لائبریری کا کھلنا میرے لیے امید کی کرن ہے۔میں بہت خوش ہوں کہ لائبریری تعلیم کے ہر مرحلے پر ہماری مددگار ثابت ہوگی۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here